Narrated Salim: `Abdul Malik wrote to Al-Hajjaj that he should not differ from Ibn `Umar during Hajj. On the Day of `Arafat, when the sun declined at midday, Ibn `Umar came along with me and shouted near Al- Hajjaj's cotton (cloth) tent. Al-Hajjaj came Out, wrapping himself with a waist-sheet dyed with safflower, and said, O Abu `Abdur-Rahman! What is the matter? He said, If you want to follow the Sunna (the tradition of the Prophet (p.b.u.h) ) then proceed (to `Arafat). Al-Hajjaj asked, At this very hour? Ibn `Umar said, Yes. He replied, Please wait for me till I pour some water over my head (i.e. take a bath) and come out. Then Ibn `Umar dismounted and waited till Al-Hajjaj came out. So, he (Al-Hajjaj) walked in between me and my father (Ibn `Umar). I said to him, If you want to follow the Sunna then deliver a brief sermon and hurry up for the stay at `Arafat. He started looking at `Abdullah (Ibn `Umar) (inquiringly), and when `Abdullah noticed that, he said that he had told the truth.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : كَتَبَ عَبْدُ الْمَلِكِ إِلَى الْحَجَّاجِ أَنْ لَا يُخَالِفَ ابْنَ عُمَرَ فِي الْحَجِّ ، فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَ عَرَفَةَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَاحَ عِنْدَ سُرَادِقِ الْحَجَّاجِ ، فَخَرَجَ وَعَلَيْهِ مِلْحَفَةٌ مُعَصْفَرَةٌ ، فَقَالَ : مَا لَكَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ؟ فَقَالَ الرَّوَاحَ : إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ ، قَالَ : هَذِهِ السَّاعَةَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : فَأَنْظِرْنِي حَتَّى أُفِيضَ عَلَى رَأْسِي ثُمَّ أَخْرُجُ ، فَنَزَلَ حَتَّى خَرَجَ الْحَجَّاجُ فَسَارَ بَيْنِي وَبَيْنَ أَبِي ، فَقُلْتُ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ السُّنَّةَ فَاقْصُرِ الْخُطْبَةَ ، وَعَجِّلِ الْوُقُوفَ ، فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ : صَدَقَ .
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے اور ان سے سالم نے بیان کیا کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ حج کے احکام میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف نہ کرے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عرفہ کے دن سورج ڈھلتے ہی تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ آپ نے حجاج کے خیمہ کے پاس بلند آواز سے پکارا۔ حجاج باہر نکلا اس کے بدن میں ایک کسم میں رنگی ہوئی چادر تھی۔ اس نے پوچھا ابوعبدالرحمٰن! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا اگر سنت کے مطابق عمل چاہتے ہو تو جلدی اٹھ کر چل کھڑے ہو جاؤ۔ اس نے کہا کیا اسی وقت؟ عبداللہ نے فرمایا کہ ہاں اسی وقت۔ حجاج نے کہا کہ پھر تھوڑی سی مہلت دیجئیے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں یعنی غسل کر لوں پھر نکلتا ہوں۔ اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ( سواری سے ) اتر گئے اور جب حجاج باہر آیا تو میرے اور والد ( ابن عمر ) کے درمیان چلنے لگا تو میں نے کہا کہ اگر سنت پر عمل کا ارادہ ہے تو خطبہ میں اختصار اور وقوف ( عرفات ) میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف دیکھنے لگا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ سچ کہتا ہے۔