Narrated Jabir bin `Abdullah: I was accompanying the Prophet on a journey and was riding a slow camel that was lagging behind the others. The Prophet passed by me and asked, Who is this? I replied, Jabir bin `Abdullah. He asked, What is the matter, (why are you late)? I replied, I am riding a slow camel. He asked, Do you have a stick? I replied in the affirmative. He said, Give it to me. When I gave it to him, he beat the camel and rebuked it. Then that camel surpassed the others thenceforth. The Prophet said, Sell it to me. I replied, It is (a gift) for you, O Allah's Apostle. He said, Sell it to me. I have bought it for four Dinars (gold pieces) and you can keep on riding it till Medina. When we approached Medina, I started going (towards my house). The Prophet said, Where are you going? I Sa`d, I have married a widow. He said, Why have you not married a virgin to fondle with each other? I said, My father died and left daughters, so I decided to marry a widow (an experienced woman) (to look after them). He said, Well done. When we reached Medina, Allah's Apostle said, O Bilal, pay him (the price of the camel) and give him extra money. Bilal gave me four Dinars and one Qirat extra. (A sub-narrator said): Jabir added, The extra Qirat of Allah's Apostle never parted from me. The Qirat was always in Jabir bin `Abdullah's purse.
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ ، يزيد بعضهم على بعض ، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ ، إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ ، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَنْ هَذَا ؟ قُلْتُ : جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : مَا لَكَ ؟ قُلْتُ : إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ ، قَالَ : أَمَعَكَ قَضِيبٌ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : أَعْطِنِيهِ ، فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ ، قَالَ : بِعْنِيهِ ، فَقُلْتُ : بَلْ ، هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ ، وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ ، قَالَ : أَيْنَ تُرِيدُ ؟ قُلْتُ : تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا ، قَالَ : فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ ، قُلْتُ : إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا ، قَالَ : فَذَلِكَ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ، قَالَ : يَا بِلَالُ اقْضِهِ ، وَزِدْهُ ، فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا ، قَالَ جَابِرٌ : لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ يَكُنِ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ .
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ( کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو ) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھے دیدے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے آگے رہنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کر دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کر دے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں ( دوسری طرف ) جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پا چکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال! ان کی قیمت ادا کر دو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔