Narrated Al-Bara bin Azib: Allah's Apostle sent some men from the Ansar to ((kill) Abu Rafi`, the Jew, and appointed `Abdullah bin Atik as their leader. Abu Rafi` used to hurt Allah's Apostle and help his enemies against him. He lived in his castle in the land of Hijaz. When those men approached (the castle) after the sun had set and the people had brought back their livestock to their homes. `Abdullah (bin Atik) said to his companions, Sit down at your places. I am going, and I will try to play a trick on the gate-keeper so that I may enter (the castle). So `Abdullah proceeded towards the castle, and when he approached the gate, he covered himself with his clothes, pretending to answer the call of nature. The people had gone in, and the gate-keeper (considered `Abdullah as one of the castle's servants) addressing him saying, O Allah's Servant! Enter if you wish, for I want to close the gate. `Abdullah added in his story, So I went in (the castle) and hid myself. When the people got inside, the gate-keeper closed the gate and hung the keys on a fixed wooden peg. I got up and took the keys and opened the gate. Some people were staying late at night with Abu Rafi` for a pleasant night chat in a room of his. When his companions of nightly entertainment went away, I ascended to him, and whenever I opened a door, I closed it from inside. I said to myself, 'Should these people discover my presence, they will not be able to catch me till I have killed him.' So I reached him and found him sleeping in a dark house amidst his family, I could not recognize his location in the house. So I shouted, 'O Abu Rafi`!' Abu Rafi` said, 'Who is it?' I proceeded towards the source of the voice and hit him with the sword, and because of my perplexity, I could not kill him. He cried loudly, and I came out of the house and waited for a while, and then went to him again and said, 'What is this voice, O Abu Rafi`?' He said, 'Woe to your mother! A man in my house has hit me with a sword! I again hit him severely but I did not kill him. Then I drove the point of the sword into his belly (and pressed it through) till it touched his back, and I realized that I have killed him. I then opened the doors one by one till I reached the staircase, and thinking that I had reached the ground, I stepped out and fell down and got my leg broken in a moonlit night. I tied my leg with a turban and proceeded on till I sat at the gate, and said, 'I will not go out tonight till I know that I have killed him.' So, when (early in the morning) the cock crowed, the announcer of the casualty stood on the wall saying, 'I announce the death of Abu Rafi`, the merchant of Hijaz. Thereupon I went to my companions and said, 'Let us save ourselves, for Allah has killed Abu Rafi`,' So I (along with my companions proceeded and) went to the Prophet and described the whole story to him. He said, 'Stretch out your (broken) leg. I stretched it out and he rubbed it and it became All right as if I had never had any ailment whatsoever.
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ الْيَهُودِيِّ رِجَالًا مِنْ الْأَنْصَارِ , فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ , وَكَانَ فِي حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ , فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ : اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ , فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنَ الْبَابِ ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ , فَهَتَفَ بِهِ الْبَوَّابُ يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ الْبَابَ , فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ , فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ الْبَابَ ثُمَّ عَلَّقَ الْأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ ، قَالَ : فَقُمْتُ إِلَى الْأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا , فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ وَكَانَ فِي عَلَالِيَّ لَهُ , فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ ، قُلْتُ : إِنِ الْقَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ , فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ لَا أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنَ الْبَيْتِ ، فَقُلْتُ : يَا أَبَا رَافِعٍ ، قَالَ : مَنْ هَذَا ؟ فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ , فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا , وَصَاحَ فَخَرَجْتُ مِنَ الْبَيْتِ فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ ، فَقُلْتُ : مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ ؟ فَقَالَ : لِأُمِّكَ الْوَيْلُ إِنَّ رَجُلًا فِي الْبَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ ، قَالَ : فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ , ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ , فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الْأَبْوَابَ بَابًا بَابًا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ , فَوَضَعْتُ رِجْلِي وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ , فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ , فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ , ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى الْبَابِ ، فَقُلْتُ : لَا أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ أَقَتَلْتُهُ , فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ ، فَقَالَ : أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الْحِجَازِ فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي ، فَقُلْتُ : النَّجَاءَ فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ , فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ ، فَقَالَ : ابْسُطْ رِجْلَكَ فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطُّ .
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع یہودی ( کے قتل ) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا۔ یہ ابورافع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا۔ حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا۔ جب اس کے قلعہ کے قریب یہ پہنچے تو سورج غروب ہو چکا تھا۔ اور لوگ اپنے مویشی لے کر ( اپنے گھروں کو ) واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو میں ( اس قلعہ پر ) جا رہا ہوں اور دربان پر کوئی تدبیر کروں گا۔ تاکہ میں اندر جانے میں کامیاب ہو جاؤں۔ چنانچہ وہ ( قلعہ کے پاس ) آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپا لیا جیسے کوئی قضائے حاجت کر رہا ہو۔ قلعہ کے تمام آدمی اندر داخل ہو چکے تھے۔ دربان نے آواز دی، اے اللہ کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلد آ جا، میں اب دروازہ بند کر دوں گا۔ ( عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ نے کہا ) چنانچہ میں بھی اندر چلا گیا اور چھپ کر اس کی کارروائی دیکھنے لگا۔ جب سب لوگ اندر آ گئے تو اس نے دروازہ بند کیا اور کنجیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکا دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور میں نے انہیں لے لیا، پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول لیا۔ ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جا رہی تھیں اور وہ اپنے خاص بالاخانے میں تھا۔ جب داستان گو اس کے یہاں سے اٹھ کر چلے گئے تو میں اس کمرے کی طرف چڑھنے لگا۔ اس عرصہ میں، میں جتنے دروازے اس تک پہنچنے کے لیے کھولتا تھا انہیں اندر سے بند کرتا جاتا تھا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہو جائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں اسے قتل نہ کر لوں۔ آخر میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ ( سو رہا ) تھا مجھے کچھ اندازہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے میں نے آواز دی، یا ابا رافع؟ وہ بولا کون ہے؟ اب میں نے آواز کی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ میں اس کا کام تمام نہیں کر سکا۔ وہ چیخا تو میں کمرے سے باہر نکل آیا اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا۔ پھر دوبارہ اندر گیا اور میں نے آواز بدل کر پوچھا، ابورافع! یہ آواز کیسی تھی؟ وہ بولا تیری ماں غارت ہو۔ ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ( آواز کی طرف بڑھ کر ) میں نے تلوار کی ایک ضرب اور لگائی۔ انہوں نے بیان کیا کہ اگرچہ میں اسے زخمی تو بہت کر چکا تھا لیکن وہ ابھی مرا نہیں تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی۔ مجھے اب یقین ہو گیا کہ میں اسے قتل کر چکا ہوں۔ چنانچہ میں نے دروازے ایک ایک کر کے کھولنے شروع کئے۔ آخر میں ایک زینے پر پہنچا۔ میں یہ سمجھا کہ زمین تک میں پہنچ چکا ہوں ( لیکن ابھی میں پہنچا نہ تھا ) اس لیے میں نے اس پر پاؤں رکھ دیا اور نیچے گر پڑا۔ چاندنی رات تھی۔ اس طرح گر پڑنے سے میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ لیا اور آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ معلوم کر لوں کہ آیا میں اسے قتل کر چکا ہوں یا نہیں؟ جب مرغ نے آواز دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے کھڑے ہو کر پکارا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پاؤں پھیلایا تو آپ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا اور پاؤں اتنا اچھا ہو گیا جیسے کبھی اس میں مجھ کو کوئی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔