Narrated Zaid bin Aslam: My father said, Allah's Apostle was proceeding at night on one of his journeys and `Umar bin Al- Khattab was going along with him. `Umar bin Al-Khattab asked him (about something) but Allah's Apostle did not answer him. `Umar asked him again, but he did not answer him. He asked him again (for the third time) but he did not answer him. On that `Umar bin Al-Khattab addressed himself saying, May your mother be bereaved of you, O `Umar, for you have asked Allah's Apostle thrice, yet he has not answered you. `Umar said, Then I made my camel run fast and took it in front of the other Muslims, and I was afraid that something might be revealed in my connection. I had hardly waited for a moment when I heard somebody calling me. I said, 'I was afraid that something might have been revealed about me.' Then I came to Allah's Apostle and greeted him. He (i.e. the Prophet) said, 'Tonight there has been revealed to me, a Sura which is dearer to me than (all the world) on which the sun rises,' and then he recited: 'Verily! We have granted you (O Muhammad) A manifest victory. (48.1)
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا , فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْءٍ , فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ , ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ , وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا عُمَرُ , نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ لَا يُجِيبُكَ , قَالَ عُمَرُ : فَحَرَّكْتُ بَعِيرِي , ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ الْمُسْلِمِينَ وَخَشِيتُ أَنْ يَنْزِلَ فِيَّ قُرْآنٌ , فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي , قَالَ : فَقُلْتُ : لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ , وَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ , فَقَالَ : لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ , ثُمَّ قَرَأَ : إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا .
مجھ سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں زید بن اسلم نے اور انہیں ان کے والد اسلم نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر یعنی ( سفر حدیبیہ ) میں تھے، رات کا وقت تھا اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ساتھ تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے کچھ پوچھا لیکن ( اس وقت آپ وحی میں مشغول تھے ‘ عمر رضی اللہ عنہ کو خبر نہ تھی ) آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا ‘ آپ نے اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے دل میں ) کہا: عمر! تیری ماں تجھ پر روئے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال کیا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو ایڑ لگائی اور مسلمانوں سے آگے نکل گیا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہ نازل ہو جائے۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ میں نے سنا ‘ ایک شخص مجھے آواز دے رہا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سوچا کہ میں تو پہلے ہی ڈر رہا تھا کہ میرے بارے میں کہیں کوئی وحی نازل نہ ہو جائے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ مجھے اس تمام کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر آپ نے سورۃ «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» ”بیشک ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح دی ہے۔“ کی تلاوت فرمائی۔