Ibn 'Abbas further said, Seven types of marriages are unlawful because of blood relations, and seven because of marriage relations. Then Ibn 'Abbas recited the Verse: Forbidden for you (for marriages) are your mothers... (4:23). 'Abdullah bin Ja'far married the daughter and wife of 'Ali at the same time (they were step-daughter and mother). Ibn Sirin said, There is no harm in that. But Al-Hasan Al-Basri disapproved of it at first, but then said that there was no harm in it. Al-Hasan bin Al-Hasan bin 'Ali married two of his cousins in one night. Ja'far bin Zaid disapproved of that because of it would bring hatred (between the two cousins), but it is not unlawful, as Allah said, Lawful to you are all others [beyond those (mentioned)]. (4:24).Ibn 'Abbas said: If somebody commits illegal sexual intercourse with his wife's sister, his wife does not become unlawful for him. And narrated Abu Ja'far, If a person commits homosexuality with a boy, then the mother of that boy is unlawful for him to marry. Narrated Ibn 'Abbas, If one commits illegal sexual intercourse with his mother in law, then his married relation to his wife does not become unlawful. Abu Nasr reported to have said that Ibn 'Abbas in the above case, regarded his marital relation to his wife unlawful, but Abu Nasr is not known well for hearing Hadith from Ibn 'Abbas.Imran bin Hussain, Jabir b. Zaid, Al-Hasan and some other Iraqi's, are reported to have judged that his marital relations to his wife would be unlawful. In the above case Abu Hurairah said, The marital relation to one's wife does not become unlawful except if one as had sexual intercourse (with her mother). Ibn Al-Musaiyab, 'Urwa, and Az-Zuhri allows such person to keep his wife. 'Ali said, His marital relations to his wife does not become unlawful.
وَقَالَ لَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي حَبِيبٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، حَرُمَ مِنَ النَّسَبِ سَبْعٌ ، وَمِنَ الصِّهْرِ سَبْعٌ ، ثُمَّ قَرَأَ : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ سورة النساء آية 23 الْآيَةَ ، وَجَمَعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ بَيْنَ ابْنَةِ عَلِيٍّ وَامْرَأَةِ عَلِيٍّ ، وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ : لَا بَأْسَ بِهِ ، وَكَرِهَهُ الْحَسَنُ مَرَّةً ، ثُمَّ قَالَ : لَا بَأْسَ بِهِ ، وَجَمَعَ الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَيْنَ ابْنَتَيْ عَمٍّ فِي لَيْلَةٍ ، وَكَرِهَهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ لِلْقَطِيعَةِ ، وَلَيْسَ فِيهِ تَحْرِيمٌ لِقَوْلِهِ تَعَالَى : وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ سورة النساء آية 24 ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، إِذَا زَنَى بِأُخْتِ امْرَأَتِهِ ، لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ ، وَيُرْوَى عَنْ يَحْيَى الْكِنْدِيِّ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، وأَبِي جَعْفَرٍ ، فِيمَنْ يَلْعَبُ بِالصَّبِيِّ ، إِنْ أَدْخَلَهُ فِيهِ ، فَلَا يَتَزَوَّجَنَّ أُمَّهُ ، ويَحْيَى هَذَا غَيْرُ مَعْرُوفٍ وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ : عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : إِذَا زَنَى بِهَا لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ ، وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي نَصْرٍ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ حَرَّمَهُ ، وأَبُو نَصْرٍ هَذَا لَمْ يُعْرَفْ بِسَمَاعِهِ مِنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَيُرْوَى عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، وجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، والْحَسَنِ ، وَبَعْضِ أَهْلِ الْعِرَاقِ تَحْرُمُ عَلَيْهِ ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : لَا تَحْرُمُ حَتَّى يُلْزِقَ بِالْأَرْضِ يَعْنِي يُجَامِعَ وَجَوَّزَهُ ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، وعُرْوَةُ ، والزُّهْرِيُّ ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ : قَالَ عَلِيٌّ : لَا تَحْرُمُ ، وَهَذَا مُرْسَلٌ.
اور امام احمد بن حنبل نے مجھ سے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے، کہا مجھ سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا خون کی رو سے تم پر سات رشتے حرام ہیں اور شادی کی وجہ سے ( یعنی سسرال کی طرف سے ) سات رشتے بھی۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی «حرمت عليكم أمهاتكم» آخر تک۔ اور عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی زینب اور علی کی بی بی ( لیلٰی بنت مسعود ) دونوں سے نکاح کیا، ان کو جمع کیا اور ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور امام حسن بصری نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے دونوں چاچاؤں ( یعنی محمد بن علی اور عمرو بن علی ) کی بیٹیوں کو ایک ساتھ میں نکاح میں لے لیا اور جابر بن زید تابعی نے اس کو مکروہ جانا، اس خیال سے کہ بہنوں میں جلاپا نہ پیدا ہو مگر یہ کچھ حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وأحل لكم ما وراء ذلكم» کہ ان کے سوا اور سب عورتیں تم کو حلال ہیں۔ اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی ( سالی کی بہن ) اس پر حرام نہ ہو گی۔ اور یحییٰ بن قیس کندی سے روایت ہے، انہوں نے شعبی اور جعفر سے، دونوں نے کہا اگر کوئی شخص لواطت کرے اور کسی لونڈے کے دخول کر دے تو اب اس کی ماں سے نکاح نہ کرے۔ اور یحییٰ راوی مشہور شخص نہیں ہے اور نہ کسی اور نے اس کے ساتھ ہو کر یہ روایت کی ہے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی۔ اور ابونصر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ حرام ہو جائے گی اور اس راوی ابونصر کا حال معلوم نہیں۔ اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے یا نہیں ( لیکن ابوزرعہ نے اسے ثقہ کہا ہے ) اور عمران بن حصین اور جابر بن زید اور حسن بصری اور بعض عراق والوں ( امام ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا یہی قول ہے کہ حرام ہو جائے گی۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا حرام نہ ہو گی جب تک اس کی ماں ( اپنی خوشدامن ) کو زمین سے نہ لگا دے ( یعنی اس سے جماع نہ کرے ) اور سعید بن مسیب اور عروہ اور زہری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ اگر کوئی ساس سے زنا کرے تب بھی اس کی بیٹی یعنی زنا کرنے والے کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی ( اس کو رکھ سکتا ہے ) اور زہری نے کہا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی جورو اس پر حرام نہ ہو گی اور یہ روایت منقطع ہے۔