دھوبی گھاٹ کی خوبصورت پرانی یادیں جو لیاری ندی کے کنارے واقع تھا، دیکھیں چند تصویری مناظر

image

یہ پیشہ ور دھوبی آج کے جدید دور میں بھی ہاتھ سے کپڑے دھوتے ہیں۔ کراچی کے پرانے علاقوں جیسا کہ پاک کالونی، صدر، سرجانی ٹاون اور مشہور لیاری ندی کے رہنے والے دھوبی گھاٹ آج بھی اپنی بھرپور محنت سے کپڑے دھو کر تاروں، رسیوں پر سوکھنے کے لئے ڈال دیتے ہیں۔

آج کے جدید دور میں بہترین ڈیزائن کی واشنگ میشنز جس میں صرف ڈال کر منٹوں میں کپڑے دھل کر چمکدار اور دھبوں سے پاک ہوجاتے ہیں اور زیادہ محنت بھی نہیں لگتی۔ لیکن موجودہ دور میں بھی دھوبی گھاٹ کے مقامات موجود ہیں جہاں آج بھی دھوبی وہی اپنے خاص انداز سے کپڑے دھوتے ہیں اور لوگ دھلواتے ہیں۔

شہرِ قائد کا مشہور دھوبی گھاٹ نہ صرف غیرملکی سیاحوں کے لئے بلکہ مقامی لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا باعث تھا۔ وہاں لوگ جاتے اور دھوبیوں کو اپنے منفرد روایتی طریقے سے کپڑے دھوتے دیکھ کر خوب لطف اندوز ہوتے۔ یہ شہر کی بیرونی حدود لیاری ندی کے کنارے واقع تھا، جہاں تک پہنچنے کے لئے کراچی کے چڑیا گھر کی جانب سے راستہ جاتا تھا۔ وہاں بہت سی الگ ہی بستیاں آباد تھیں۔ وہاں متعدد بھٹیاں اورحوض بنے ہوئے تھے ،جن کے ساتھ سیمنٹ کے چھوٹے چبوترے بھی بنے ہوتے جس پر دھوبی اور دھوبنیں کپڑوں کو پٹخ پٹخ کر دھوتے تھے۔

ان کا سارا کاروبار ایک بہت ہی خوبصورت اور منظم انداز میں چلتا تھا۔ یہ لوگ پہلے سے مخصوص علاقوں میں جا کر گھر گھر دھلنے والے کپڑے اکٹھے کرتے تھے ۔ پھر سربراہ خاتون کی موجودگی میں جمع کئے گئے کپڑوں کو گنا جاتا اور وہ خاتون ان کپڑوں کی تفصیل اپنے پاس لکھ کر رکھ لیتی تھیں۔ بعد ازاں دھوبی ایک اَن مٹ کالی سیاہی سے کپڑوں پر اس گھر کے لئے مخصوص ایک خاص نشان ایسی جگہ لگا دیتا تھا جو باہر سے نظر نہیں آتا تھا ۔ یہی وہ نشان ہوتا جو آخر وقت تک کپڑوں کی شناخت کے لئے استعمال کیا جاتا۔

دھوبی سب گھروں سے گٹھڑیوں میں کپڑے باندھ کر باہر کھڑی گدھا گاڑی پر رکھ کر اپنے اڈے پر لے جاتا تھا۔ ایک اور حیرت انگیز بات تھی کہ اکثر اس کا ایک کتا بھی اس کی گاڑی کے پیچھے چلتا ہوا دھوبی گھاٹ کے اڈے تک پہنچ جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر مشہور محاورہ یاد آگیا کہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔

پھر کپڑوں کومروجہ طریقہ کار کے مطابق ، بھٹی میں سوڈا اور صابن وغیرہ میں ابال کر خوب پٹخ پٹخ کر دھوتا اور صاف پانی میں کھنگالتا اور نچوڑ کر ساتھ ہی میدان میں تین ٹانگوں والے اسٹینڈ پر تنی ہوئی رسیوں پر ٹانگ دیتا تھا۔ سوکھنے کے بعد انہیں وہ اپنے گھر یا دکان پر لے جاتا اور کوئلے والی بڑی استری سے کپڑوں کو اچھی طرح پریس کرکے واپس مطلوبہ گھر میں پہنچا دیتا تھا۔

یہاں ایک بار پھر خاتون خانہ ان کو اپنی لسٹ کے مطابق چیک کرتی اور اگر سب ٹھیک ہوتا تو فوری فیس کی ادائیگی کردیتی تھیں اور اگر دھلائی کے دوران کپڑے پھٹ جاتے تو شدید قسم کا بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا اور خوب سنا کر پیسے کاٹنے کی دھمکی ملی تھی، خاتون خانہ کا غصہ اپنی جگہ ہوتا لیکن پیسوں کی کٹوتی نہیں ہوتی تھی۔ دھونے اور مسلسل پٹخنے کے عمل میں بالخصوص مردانہ قمیصوں کے بٹن نکل جاتے تھے۔

اس مشکل کے حل کے لئے ہر گھر کی دراز میں سفید بٹنوں کا ایک پیالہ بھر کے رکھا رہتا تھا اور خواتین فوری طور پر ٹوٹے بٹنوں کی جگہ نئے بٹن ٹانک کر اپنی ذمہ داری پوری کرلیتی تھیں۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US