گوپال گنج-3 وہ حلقہ ہے جہاں شیخ حسینہ ہمیشہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ مگر عوامی لیگ پر پابندی کے بعد یہ سوال سب کے ذہن میں ہے کہ اس نشست پر کون کامیاب ہوگا؟

’گوپال گنج-3‘ وہ حلقہ ہے جہاں سے شیخ حسینہ واجد ہمیشہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی رہی ہیں۔ مگر عوامی لیگ پر پابندی کے بعد یہ سوال سب کے ذہن میں ہے کہ اب اس نشست پر کون کامیاب ہو گا؟
یہ حلقہ تنگی پاڑہ اور کوٹالی پاڑہ کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں شیخ حسینہ کا آبائی گھر اور ان کے والد، یعنی بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کی قبر بھی واقع ہے۔ یہ حلقہ عوامی لیگ کے لیے ایک علامتی طاقت کا مرکز رہا ہے۔
بی بی سی نے انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد اس حلقے کا دورہ کیا جس کے دوران چائے کی دکانوں سے لے کر بازاروں تک، ووٹروں میں ملا جُلا ردعمل پایا گیا۔
عام ووٹروں سے بات کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا ایک بڑا حصہ اس بات پر ناراض ہے کہ عوامی لیگ کو انتخابات سے باہر رکھا گیا ہے۔ بہت سے ووٹرز نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ وہ انتخابات میں ووٹ ہی نہیں دیں گے۔ تاہم بعض کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کا وجود نہ ہونے کے باوجود وہ ووٹنگ میں حصہ لیں گے۔
مقامی ووٹروں کی رائے

بی بی سی بنگلہ نے تنگی پاڑہ کے گاؤں گوپال پور کی ایک خاتون ووٹر سے بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی امیدوار نے ووٹ مانگنے کے لیے اُن سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ ووٹ ڈالیں گی یا نہیں، اس کا انحصار الیکشن کے دن کی صورتحال پر ہو گا۔ ’ہم پُرامن اور منصفانہ ووٹنگ چاہتے ہیں۔‘
بی این پی اور جماعت اسلامی گوپال گنج کے انتخابات کے لیے سرگرم ہیں اور دونوں کے درمیان مقابلے کی بحث جاری ہے۔ اس کے علاوہ این سی پی، جاتیہ پارٹی اور آزاد امیدوار بھی انتخابی مہم میں شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کا انتخابات سے متعلق حتمی فیصلہ اور اس کا پیغام گوپال گنج سمیت پورے ملک کے انتخابات پر اثر ڈال سکتا ہے۔
تنگی پاڑہ میں چائے کی دکان کے مالک خورشید عالم نے کہا کہ 'اگر عوامی لیگ میں سے کوئی قصوروار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ لیکن پارٹی پر پابندی کیوں لگائی؟ اگر عوامی لیگ انتخابات میں نہیں آئی تو الیکشن قابلِ قبول نہیں ہو گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد لوگ ووٹ ڈالنے میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تنگی پاڑہ کے لوگوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ملک میں کوئی بڑی پارٹی نہیں۔ کیا آپ پارٹی (عوامی لیگ) کے بغیر، جو الیکشن کر رہے ہیں وہ قابلِ قبول ہوں گے؟'
اسی طرح پتگتی بازار کے ایک شخص نے کہا کہ ’اگر میرا امیدوار میدان میں نہیں ہے تو میں ووٹ ڈالنے کیوں جاؤں گا؟‘
ضلع کے باہر گوپال پور گاؤں کے بازار میں کئی تاجر ایک ساتھ بات کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک مہر کبیراج نے کہا کہ ’ایک طرح سے مجھے خوشی ہے کہ الیکشن قریب ہیں۔ میں اپنا ووٹ ڈال سکتا ہوں، جسے چاہوں گا اسے دوں گا۔‘
سنجیت کمار نے کہا کہ ’گوپال پور یونین کے لوگ ووٹ ڈالنے جائیں گے۔‘ تاہم امیت مونڈل کا کہنا تھا کہ اس الیکشن میں بہت سے لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کے مطابق ’یہ یکطرفہ الیکشن ہو گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ جو پہلے کرتی تھیں وہی ہو گا۔‘
تاہم امیت مونڈل نامی شخص نے کہا کہ اس الیکشن میں بہت سے لوگ ووٹ نہیں دیں گے۔

شیخ حسینہ کی جگہ کون لے سکتا ہے؟
اس بار بی این پی، جماعت اسلامی اور این سی پی نے گوپال گنج-3 حلقے سے امیدوار نامزد کیے ہیں۔ اس کے علاوہ جاتیہ پارٹی بھی تیاری کر رہی ہے اور اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔ آزاد امیدواروں نے بھی انتخابی مہم شروع کر دی ہے اور علاقے میں پوسٹر لگا کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔
پتگتی بازار کے ایک تاجر عبدالحفیظ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بار صورتحال قدرے مختلف ہے مگر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لوگ پولنگ سٹیشنوں پر جائیں گے اور ووٹ ڈالیں گے۔‘
اُن کے مطابق کوئی بھی چاہے تو ووٹنگ کے عمل کو سبوتاژ نہیں کر سکتا۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ گوپال گنج میں شیخ حسینہ کی نشست پر کس طرح کا مقابلہ ہو گا، تو انھوں نے کہا ’اس بار مقابلہ جماعت اسلامی اور بی این پی کے درمیان ہو گا۔‘
گوپال گنج اور ملک بھر میں عوامی لیگ کے مضبوط حامی موجود ہیں۔ بڑی جماعتوں کی شرکت کے بغیر انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ پر تشویش ہے۔ تاہم جماعت اسلامی کا خیال ہے کہ اس بار یہ صورتحال اور ووٹنگ کا روایتی تصور بدل جائے گا۔
پارٹی کے سیکریٹری جنرل میا گولم پروار نے بی بی سی بنگلہ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ گوپال گنج میں بھی ہم جیتیں گے۔ ایک تاثر تھا کہ ہندو کا مطلب عوامی لیگ ہے۔‘
’یہ تصور بدلا ہے کہ گوپال گنج کا مطلب عوامی لیگ ہے۔ ملک کے کچھ اضلاع کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ علاقہ عوامی لیگ ہی کا ہے، لیکن اب لوگ ووٹ دے کر ثابت کریں گے کہ ایسا نہیں ہے۔‘
انتخابات کے نتائج قابل قبول ہوں گے؟
عوامی لیگ کا آئندہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ بنگلہ دیش میں پارٹی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کا پورے ملک میں مضبوط ووٹ بینک ہے اور پارٹی نے ماضی کے تمام انتخابات میں 30 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ عوامی بغاوت کے بعد سے پارٹی کی سرگرمیاں معطل ہیں اور شیخ حسینہ انڈیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
عوامی لیگ کی پرانی اتحادی جماعت جاتیہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے لیکن پابندی نہ ہونے کے باوجود یہ پارٹی سیاسی جمود کا شکار ہے اور اندرونی اختلافات کا سامنا کر رہی ہے۔
جاتیہ پارٹی کے سربراہ جی ایم قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عوامی لیگ کے بغیر انتخابات درست نہیں ہوں گے۔ یہ انتخاب قابلِ اعتراض رہے گا۔ میں نے یہ بات کئی بار کہی ہے، حتیٰ کہ جب عوامی لیگ نے بی این پی کے بغیر الیکشن جیتا تھا، تب بھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی پر بھی حملے ہو رہے ہیں اور دفتر پر کئی بار حملہ کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق ’اگر ہم میدان میں نہیں جا سکے اور صحیح طریقے سے الیکشن نہیں ہوا تو عالمی سطح پر اس الیکشن پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ ماحول بہت خراب ہے اور لوگ پریشان ہیں۔‘
ادھر بی این پی کی قائمہ کمیٹی کے رکن اقبال حسن محمود تکو نے کہا کہ ’اگر سات فیصد ووٹرز بھی ووٹ ڈالیں تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوا؟ عوامی لیگ نے غلط کیا ہے، اسے سزا مل رہی ہے اور انتخابات میں مزید سزا ملے گی۔‘
دوسری جانب عوامی لیگ نے انتخابات کے اعلان کردہ شیڈول کو مسترد کر دیا ہے اور جامع انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
پارٹی کے جوائنٹ سیکریٹری بہاؤالدین نسیم نے کہا کہ ’ہم آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات چاہتے ہیں جن میں تمام سیاسی جماعتیں بشمول عوامی لیگ حصہ لیں۔‘
پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اگر انتخابات شیڈول کے مطابق 12 فروری کو ہوئے تو اندرون اور بیرونِ ملک انھیں قبول نہیں کیا جائے گا۔ عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ اس الیکشن کے بعد بننے والی حکومت پائیدار نہیں رہے گی۔