ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے ہو ٹلز یا ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے وانے وا لے یہ لوگ اور ان ہوٹلز یا ریسٹورنٹس کا عملہ بہت ہی سنگ دل ہوتا ہے اور یہاں کسی غریب کا خیال نہیں کیا جاتا۔ آج ہم آپکو بتائیں گے کہ کیوں اسپین کے ایک مالدار آدمی نے بھکاری کا بھیس بنا کر اپنے ہی ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کا دورہ کیوں کیا؟ آئیے جانتے ہیں۔
یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں اسپین کے ایسے مالدار آدمی کا زکر ہے جس کے پاس اتنی دولت ہے کہ اسی دولت نے ہی اس کی صحت دن بہ دن خراب کی۔اس شخص کا نام ہے ڈان مونٹیرو اور اس کی صحت کافی خراب رہتی تھی مگر وہ اس طرف اتنی توجہ نہیں دیتا تھا اور اپنے کاموں میں مصروف رہتا تھا۔
ایک دن پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اس کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہوئی اور اس کے جگر میں شدید درد اٹھا جس۔
کے بعد اسے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جہاں اس کا چیک اپ ہوا اور اسے بتایا گیا کہ آپکو تو کینسر ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر جس سے آپکی جان کبھی جا سکتی ہے۔تو اس نے گھر آ کر سوچا کہ اپنے زندگی کے آخری دن غریبوں کے نام کروں اور دیکھوں کے جو ہوٹل میں نے اتنی محنت سے بنائے ہیں کیا اس میں غریب بھی کھا سکتے ہیں اور میرا عملہ کیا کرتا ہے غریبو لوگوں کے ساتھ؟
ڈان مونٹیرو سب سے پہلے اپنے اسپین میں ہی موجود ہوٹل میں گئے جو شہر کا سب سے بڑا ہواٹل تھا، سب سے پہلے انہیں دروازے پر کھڑے گارڈ نے کہا کہ یہ تمہارے آنے کی جگہ نہیں جس پر ڈان مونٹیرو نے کہا کہ کافی دن سے بھوکا ہوں کچھ کھانے کو دے دو تو اس نے مینیجر کو بلایا تو مینیجر نے آتے ہی کہا کہ تم یہاں کیسے آئے۔
تم پہلے نہا کر آو پھر یہاں لوگوں کو کھاتے ہوئے دیکھو تو میں تمہیں کھانا دوں گا، یہ بول کر مینیجر وہاں سے چلا گیا لیکن مونٹیرو وہاں ہی کھڑا رہا کہ شاید کوئی اور عملہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کر ے تو اسی وقت۔
اس ہوٹل کا شیف آیا اور اس نے کہا کہ تمہیں کھانا کھانا ہے نہ تو تم ہوٹل کی پچھلی طرف چلے جاؤ وہاں میں نے کل کا بچا ہوا کھانا پھینکا ہے وہ کھا لو، تمہارے لیے وہی ہے۔یہ سب سننے کے بعد مونٹیرو کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کافی دیر تک روتا رہا۔
اس نے سوچا کہ اب دوسرے ہوٹل میں جاتا ہوں کیا پتہ وہ میرے ساتھا اچھا سلوک کر لیں تو وہ اپنے دوسرے ہوٹل میں گیا جو کہ ایک بہت ہی بڑے اور مہنگے پارک میں واقع تھا اس کا گیٹ کھولتے ہی ایک ویٹر کی نظر ڈان مونٹیرو پر پڑی تو اس نے مینیجر کو وہیں سے کہا دیکھو ایک بھاکری اندر داخل ہو رہا ہے۔
جس پر مینیجر نے کہا کہ اے بوڑھے شخص تم اس ہوٹل کی ایک کینڈی تک تو لے نہیں سکتے تو پھر کیا کرنے آئے ہو جس پر مونٹیرو نے کہا کہ میں آپکا روزانہ کا گاہک ہوں بس میرا کاروبار ڈوب گیا اور ساری دولت قرض میں چلی گئی۔
اس لیے پیسے نہیں ہیں برائے مہربانی مجھے کھانا دے دو اور کھانا نہیں دے سکتے تو اپنے مالک سے ملوا دو وہ مجھے پہچان جائیں گے کیونکہ میں یہاں اکثر آتا تھا جب امیر تھا تو مینیجر نے غصے میں کہا کہ میں ہی مالک ہوں اور اب آپ دفعہ ہو جاؤ یہاں سے،جس پر وہ پھر مایوس ہو کر وہاں سے نکلا۔
اس کے بعد اپنے سب سے پرانے ہوٹل میں گیا جہاں اس کا دوست روسیو ہی مینیجر تھا اور کبھی وہ اس کا اسٹنٹ بھی ہوا کرتا تھا لیکن یہاں بھی اس کے ساتھ کچھ اچھا نہ ہوا۔ جب وہ ہوٹل میں داخل ہوا تو سیدھا مینیجر روسیو کے پاس گیا اور بیٹھ کر کھانے کو کچھ مانگا جس پر مینجر نے کہا کہ نکل جاؤ یہ ہوٹل تم جیسے لوگوں کیلئے نہیں ہے کیونکہ یہ ہوٹل میرا ہے، اس میں میری محنت زیادہ ہے۔
اور اب تو ہوٹل کا مالک مرنے والا ہے کینسر سے۔ یہ بات ڈان مونٹیرو نے سنی تو اسکے پاؤں تلے زمین نکل گئی مگر پھر بھی کہا کہ ایک ڈبل روٹی کا پیس ہی دے دو جس پر اسے کہا کہ جاتے ہو کہ نہیں ورنہ دھکے دے کر نکالوں تمہیں۔
یہاں سے نا امید ہونے کے بعد وہ اپنے آخری ہوٹل جو کہ شہر سے باہر کی طرف تھا تو وہاں گیا اور گارڈ سے کہا کہ مجھے کھانے کو دو کچھ جس پر گارڈ نے مینجر سے اس بارے میں بات کی اور اسے اندر بٹھایا جس کے بعد کچھ دیر میں ٹیبل پر انتظار کرنے کے بعد مینجر خود کھانا لیکر آیا۔
تو ڈان مونٹیورو نے اس سے کہا کہ میں بھی کبھی امیر تھا لیکن آج میرے یہ حالات ہیں تو مینجر نے کہا کہ میں سمجھ سکتا ہوں کیونکہ میرا بھی کاروبار تب خراب ہوا جب میں امیر تھا اور ایکسیڈنٹ ہوا تو میرا سب کچھ فروخت ہو گیا جس کے بعد میں نے یہاں نوکری کی اور مالک نے مجھے نوکری دی جس پر میں انکا شکر گزار ہوں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ بھی یہاں نوکری کر سکتے ہو۔
یہ سننا تھا کہ ڈان مونٹیرو کو تسلی ہوئی کہ کوئی کام تو اس نے اچھا کیا اور اگلے ہی دن پورے اسپین سے اپنے مینجرز کو دفتر بلا لیا اور اسی بھکاری کے روپ میں داخل ہوا تو تمام مینیجرز سمجھ گئے کہ یہ تو وہی آدمی ہے جسے ہم نے دھکے دیے تھے۔
ابھی یہ تمام لوگ حیران ہی تھے کہ ڈان مونٹیرو نے کہا کہ میٹیو جو کہ شہر سے باہر ریسٹؤرنٹ کے مینیجر ہیں ان کے علاوہ سب کو میں نوکری سے نکالتا ہوں کیونکہ مجھے ایسے لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں جن میں انسانیت کیلئے درد نہیں۔ اور امید کرتا ہوں آپ لوگوں کو اچھی سی نوکری مل جائے گی۔
اس کے علاوہ ڈان مونٹیرو نے اپنی باقی زندگی میٹیو کے ساتھ ہی گزاری جو کہ اسکے شہر سے باہر والے ہوٹل کا مینیجر تھا۔
واضح رہے کہ جب انہیں انہی کے سب ہوٹلز اور ریسٹورنٹس سے دھکے مار کر نکالا جار رہا تھا تو یہ ایک ہی بات سوچتے تھے کہ کہاں ان سے ہوٹلز کے اسٹاف کی تربیت کرنے میں غلطی ہو گئی جو انکا اسٹاف غریب لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ کرتا ہے۔ کیوں کسی غریب کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔