مجھے ڈر بھی لگتا تھا کہ کیا میں دفتر میں کام کرتے ہوئے اپنے بچوں کا خیال رکھ پاؤں گی یا نہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بچے میرے کام کی وجہ سے صرف میرا انتظار ہی کرتے رہ جائیں۔
یہ الفاظ ایک ایسی ماں کے ہیں جو بلاناغہ اپنے بچے کے ساتھ دفتر آکر کام کرتی ہیں۔ عام طور پر شادی شدہ خواتین خاص طور پر ماں بننے کے بعد خواتین کو اپنے بچوں یا کیرئیر میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا ایسی عورتوں کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے جو ساری عمر کچھ بننے کا خواب دیکھ کر محنت کرتی رہی ہوں یا پھر کسی مجبوری کی وجہ سے اپنے خاندان کو مالی سہارا دینا چاہتی ہوں۔ لیکن حرا عذیر ایک ایسی خاتون ہیں جنھوں نے ایک آرمی آفیسر کی بیوی ہونے کے باوجود صرف معاشرے میں دوسری عورتوں کے سامنے مثال بننے کے لئے یہ قدم اٹھایا۔
کام کرنے والی ماؤں کو شرمندہ کرنے کا کلچر ہے
حرا کہتی ہیں کہ “میں جانتی ہوں کہ بہت سی عورتوں کے پاس تو آرام سے گھر میں بیٹھنے کا آپشن ہی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود انھیں ماں ہوکر کام کرنے پر شرمندہ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کام کرنے کا ماحول بچوں کے لئے سازگار ہوتا ہے۔ میں خود بھی پریشان تھی کہ کہیں میں اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی تو نہیں کررہی۔ لیکن میں خوش ہوں کیونکہ میں ایک ایسا معاشرہ بنارہی ہوں جہاں ماؤں کا کام کرنا برا نہیں سمجھا جائے گا“۔
معاشرے کے لئے مثال بن رہی ہوں
حرا کو ہمیشہ سے پڑھانے کا شوق تھا اس لئے انھوں نے تدریس کا شعبہ چنا۔ حرا تقریباً سات سالوں سے ملک کے نامی گرامی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اگرچہ حرا کے شوہر آرمی آفیسر ہونے کی وجہ سے مصروف ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ لیکن حرا بچوں کو اپنے دفتر ساتھ لاتی ہیں تاکہ دوسری خواتین بھی انھیں دیکھ کر یہ قدم اٹھائیں۔ اسی دوران وہ دوبارہ حاملہ بھی ہوئیں اور تیسرے بچے کو جنم دیا۔
کام کی جگہ پر بچوں کی دیکھ بھال
پاکستان میں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں خواتین اپنے بچوں کو بھی ساتھ لا سکیں اور ذہنی سکون کے ساتھ کام کرسکیں۔ بے شک حرا عذیر نے ہمت و حوصلے سے ایک مثال قائم کی ہے لیکن باقی خواتین بھی چاہیں تو حرا کے نقش و قدم پر چل کر اپنے کیرئیر کو جاری رکھ سکتی ہیں