بیٹے کو بیماری کی وجہ سے اس کی بیوی چھوڑ کر چلی گئی ۔۔ ایک ایسے فوجی کی کہانی جس کی خوفناک بیماری نے اسے اپنے بیوی بچوں سے بھی دور کردیا

image

“اس کی بیوی تین سال کے بچے کو لے کر راتوں رات امریکہ چلی گئی اور ہمیں پتا بھی نہیں چلا۔ پتا نہیں میری زندگی کتنی ہے میں اپنے بیٹے کا خیال کب تک رکھ سکوں گی آخر“

ایک دکھی ماں نے روتے ہوئے کہا۔ یہ ایک ایسی دکھیاری ماں ہیں جن کا اکلوتا بیٹا34 سالہ میجر سید علی ذر بخاری ایک قابل فوجی افسر تھا۔ لیکن اچانک اسے ’ہنٹنگٹن کوریا‘ نام کی ایسی بیماری نے آلیا جس میں دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ سے چیزیں گرنا شروع ہوئیں اور اب وہ کھڑے تک نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کا دماغ ان کے جسم پر سے قابو کھو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کے چہرے کے پٹھے بھی ان کے قابو میں نہیں ہیں۔

میں اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتا ہوں

میجر سید علی ذر بخاری کے والد بھی پاکستان فوج سے منسلک تھے جس کی وجہ سے انھیں بھی چپن سے ہی فوج میں جانے کا شوق تھا جسے انھوں نے پایہ تکمیل تک بی پہنچایا۔ میجر سید علی ذر بخاری کی شادی ہوچکی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے جسے اس سنگین بیماری کے باوجود میجر علی بہت یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں۔ اکثر وہ موبائل پر اپنے بیٹے کی تصویر دیکھتے ہیں اور اٹک اٹک کر کہتے ہیں کہ “میں اپنے بیٹے کو بہت یاد کرتا ہوں اور اس سے ملنا چاہتا ہوں“

بیوی چھوڑ کر چلی گئی

نیر زوار ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی بہو یہ کہہ کر چلی گئی کہ وہ ساری زندگی ایک شخص کی تیمار داری کرتے ہوئے نہیں گزار سکتی۔ نیر اپنے بیٹے سے سارا دن باتیں کرتی ہیں تاکہ وہ کسی طرح اکیلا پن محسوس نہ کرے۔ یہ ایک ماں کی کوششیں ہی ہیں جس کی وجہ سے ان کا بیٹا تھوڑا بہت باتیں کرلیتا ہے۔ نیر ہی اپنے بیٹے کو باتھ روم لے کر جاتی ہیں اور اسے اپنے بوڑھے کندھوں کا سہارا دے کر چلاتی ہیں۔ یقیناً یہ ایک ماں کی محبت ہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کی اس حالت سے بھی اکتائی نہیں بلکہ صرف اس کی صحتیابی کے لئے دعاگو ہیں۔

میرے پاس بیٹے کا علاج کروانے کے پیسے نہیں

علی ذر کی والدہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ایک لاعلاج موروثی بیماری ہے لیکن بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اس یماری پر تحقیق کی جارہی ہے اور وہاں اس کے مریضوں کے لئے تھیراپیز بھی کروائی جاتی ہیں۔ لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو باہر لے جاسکوں اور اس کا علاج کرواؤں۔ ڈاکٹروں کے مطابق علی ذر کو کچھ انجیکشنز کی بھی ضرورت ہے جو صرف راولپنڈی میں لگ سکتے ہیں اور ان کا خرچہ تقریباً چھ لاکھ ہے جبکہ نیر زوار کے پاس اتنے پیسے نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اھی تک پاکستان فوج نے ان کی بہت مدد کی لیکن وہ حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ ان کے بیٹے کے علاج کی ذمہ داری اٹھائے تاکہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر ان کے سہارے کے بغیر کھڑا ہوسکے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US