امریکہ دوسرے ملکوں میں انسانی حقوق کی تو بہت باتیں اور حمایت کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن جب بات آتی ہے اپنی ریاست کی تو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایک پاکستانی قیدی ماجد خان پر جیل میں ظلم و ستم کی ایسی حقیقت سامنے آئی ہے جس نے دنیا پر امریکہ کی اصلیت آشکار کردی ہے۔
پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان کون ہیں؟
یہ قیدی پاکستان سے تعلق رکھنے والے امجد خان ہیں۔ امجد کی پیدائش سعودی عرب میں ہوئی لیکن بچپن پاکستان میں گزرا جس کے بعد وہ 16 سال کی عمر میں امریکہ چلے گئے۔
ماجد خان پر الزام یہ ہے کہ انھوں نے القاعدہ کو نا صرف پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں بلکہ انھوں نے جکارت میں میریٹ ہوٹل پر حملے کے لئے بھاری رقم بھی فراہم کی تھی۔ 2003 میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں ماجد کے گھر پر چھاپہ مارا اور انھیں امریکی ایجنسی سی آئی اے کے حوالے کردیا۔ جس کے بعد ایجنسی نے انھیں بدنام زمانہ جیل گوانتانا موبے میں رکھا۔
مجھے لگا میں مر جاؤں گا
پاکستانی نژاد قیدی امجد خان نے بتایا کہ گوانتانا موبے میں “بلیک سائٹس“ کے نام سے خفیہ جیلیں ہیں جہاں قیدیوں کے ساتھ بدترین سلوک ہوتا ہے۔ ماجد خان نے کہا کہ “مجھے لگا اب میں مرنے ہی والا ہوں مجھے کئی دن تک چھت سے لٹکائے رکھا اور مسلسل جگانے کے لئے سر میں ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا تھا۔ بھوکا رکھا جاتا تھا اور مارا پیٹا جاتا تھا“
تشدد کا کوئی فائدہ نہیں ہوا
ماجد کہتے ہیں کہ وہ جتنا زیادہ تفتیش کرنے والوں سے تعاون کی کوش کرتے تھے ان پر اتنا زیادہ تشدد کیا جاتا تھا۔ میں انھیں کہتا تھا کہ “مجھے جتنا پتا تھا میں سب بتا چکا ہوں لیکن وہ نہیں رکتے تھے“۔ امریکی افسران نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ “ماجد خان نے تشدد کے بعد کوئی نئی بات نہیں بتائی اس لئے ان پر سنگین تشدد کا کوئی فائدہ نہیں ہوا“
یہ واقعہ امریکی تاریخ پر دھبہ ہے
امریکہ کی فوجی عدالت میں آٹھ افراد پر مشتمل ایک جیوری بنائی گئی ہے۔ جس نے ماجد خان پر ہونے والے ظلم کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ “امریکی اہلکاروں کے ہاتھوں ماجد خان کے ساتھ ہونے والا سلوک امریکہ کی اخلاقی ساکھ پر ایک دھبہ ہے جس سے امریکی حکومت کو شرمندگی ہونی چاہیے۔
اپنی تمام غلطیوں کا ازالہ کلرچکا ہوں
ماجد کا کہنا تھا کہ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ ذہنی طور پر ٹوٹے ہوئے اور ایک ناسمجھ انسان تھے۔ اب جب کہ وہ 41 سال کے ہوچکے ہیں تو ناصرف القائدہ اور دہشت گردی کو رد کرچکے ہیں بلکہ اپنا جرم قبول کرنے اور امریکی حکومت سے تعاون کرکے اپنے غلط کاموں کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔