رواں برس محمد علی سدپارہ پہاڑوں کی آغوش میں آکر اس دنیا سے رخصت ہوئے جن کا ادھورا مشن اب ان کے بیٹے ساجد سدپارہ پورا کرنے میں مصروف ہیں۔
ساجد سدپارہ اس وقت نیپال کے ایک اسپتال میں اس وقت زیر علاج ہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے گئے تھے مگر وہاں طبعیت بگڑنے سے اسپتال منتقل ہوگئے۔
ساجد سدپارہ کے ترجمان خاقان ابراہیم نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ ان کا ساجد سدپارہ سے بدھ کو حادثے کے بعد پہلی مرتبہ رابطہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ساجد سدپارہ اس وقت ادیات لے رہے ہیں اور پہلے سے بہتر طبعیت محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایسی ادویات لے رہے ہیں جن سے غنودگی ہوتی ہے۔
*ساجد سدپارہ کے ساتھ ہوا کیا؟
خاقان ابراہیم نے بتایا کہ ساجد سدپارہ کی طبعیت کیسے خراب ہوا اور ان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اس کی ساری تفصیل وہ صحتیابی کے بعد بتائیں گے۔ میں نے اس موقع پر ان سے نہیں پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ کوہ پیمائی کی 25 فیصد مہمات اونچائی پر طبیعت کی خرابی کے سبب ناکام ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا ’ساجد سدپارہ اپنے والد محمد علی سدپارہ کے حادثے کے بعد سے ایک مختلف اور تکلیف دہ صورتحال کا شکار تھے۔ اس صورتحال کا وہ بڑی جوان مردی سے سامنا کرتے رہے تھے۔‘
خاقان ابراہیم نے کہا کہ دنیا کے سامنے انھوں نے کبھی اپنے جذبات ظاہر نہیں کیے۔ انھوں نے کے ٹو پر اپنے والد کی لاش کی تلاش کے آپریشن میں بھی حصہ لیا تھا اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔