آج تک ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ کیسے ہمارعی فوج نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے تھے 1965 اور 1971 کی جنگ میں مگر آج ہم آپکو ایک ایسے بابا جی سے ملوائیں گے جنہوں نے دونوں جنگیں لڑیں ہیں اور وہ آج بھی تندرست ہیں، آئیے جانتے ہیں۔
ان بابا جی کا نام ہے محمد خادم حسین جو کہ پنجاب کے علاقے جڑانوالہ کے رہائشی ہیں اور ریٹائرڈ فوجی ہیں یہ کہتے ہیں کہ جب 6 ستمبر 1965 کو بھارت نے حملہ کیا اور جنگ شروع ہوئی تو انکی ڈیوٹی بی۔آر۔بی نہر لاہور پر تھی۔
سب سے پہلے بھارتی فوج نے ایک گولا پھینکا جس سے زمین بہت زیادہ روشن ہو جاتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا پھر بزدلوں کی طرح 80 پاؤنڈ کا ایک گولا ٹینک سے فائر کیا۔
جس کے جواب میں ہمارے کمانڈر تھے میجر راجہ عزیز بھٹی انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور زبردست آواز میں کہا "فائر" تو ہم نے 200 پاؤنڈ کا انتہائی طاقتور گولا بھارت پر فائر کیا جس سے انکی چوکیاں تباہ ہوئیں، اسلحہ ڈپو تباہ ہوئے اور بہت سارے بھارتی فوجی مارے گے یوں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیا۔
اب جنگ چل رہی تھی تو میجر راجہ عزیز بھٹی کی کمانڈ میں ہم لوگ بہت آگے نکل گئے تقریباَ اپنی چوکیاں چھوڑ کر 9 میل انڈیا میں چلے گئے اور دمشن کو گھر میں گھس کر مار رہے تھے۔
لیکن اگلے دن افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ جب میجر صاحب نے بھارتویوں کی پوزیشن دیکھنے کیلئے محفوظ جگہ سے باہر نکلے تو انکا ٹینک پہلے سے لوڈڈ کھڑا تھا اور بنا وقت ضائع کیے انہوں نے فائر کیا جس کے نتیجے میں میجر راجہ عزیز بھٹی موقعے پر ہی شہید ہو گئے۔
پھر بھی پوری فوج نے ہمت ہاری اور ڈٹ کی مقابلہ کیا اور اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو بھگا دیا اب آپکو بتاتے ہیں کہ انہوں نے سن 1971 کی جنگ میں بھی حصہ لیا اور مادر وطن کی حفاظت کی جس کی وجہ سے صدر ایوب نے انہیں "تمغہ جنگ" سے نوازا جو آج بھی انکے پاس ہے اور یہ ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ قام پر میجر راجہ عزیز بھٹی نے قوم کیلئے جام شہادت نوش کیا وہ مقام آج بھی انہی کے نام سے منسوب ہے اور واضح الفاظ میں وہاں حکومت پاکستان کی طرف سے لکھوایا گیا ہے کہ " مقام شہادت میجر راجہ عزیز بھٹی"