بھارت ان دنوں ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہے جو اسے پریشان کن حالات میں مشکل فیصلے کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کیونکہ بھارت کے حساس اداروں میں ان دنوں چکن ہیڈ اور چین کا ذکر کافی زور و شور سے کیا جا رہا ہے۔
چکن ہیڈ دراصل وہ مقام ہے جسے سلیگری کوریڈور کہا جاتا ہے۔ یہ چکن ہیڈ دراصل بھارت کی 7 ریاستوں کو نئی دلی سے جوڑتا ہے۔ جغرافیائی طور پر ان 7 ریاستوں کو بھارت سے جو راستہ جوڑتا ہے، وہ بنگلادیش اور نیپال کے بیچ سے ہوتا ہوا گزرتا ہے۔
ان 7 ریاستوں کو صرف یہی ایک زمینی راستہ ہے جو جوڑتا ہے، جبکہ اس کے علاوہ سمندری راستہ نہیں ہے۔ بھارت کے لیے پریشانی یہ ہے کہ چین نے اس علاقے پر چڑھائی شروع کر دی ہے۔ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر چینی فوج نے بھارتی فوج کو ناکوں کان چنے چبوادیے تھے۔
2020 میں لداخ بارڈر پر بھارتی اور چینی فوج کے مابین جھڑپیں ہوئی تھیں، بھارتی میڈیا کے مطابق اب سیٹلائٹ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چینی فوج لداخ کی گلوان ویلی کے اندر تک آگئی ہے۔ جبکہ چینی فوج اور ان کے تعمیر شدہ کیمپس کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اب خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ چینی فوج نے ایل اے سی پر بھاری اسلحہ پہنچا دیا ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین بھارت کے ساتھ نبر آزما ہونے کے لیے تیار ہے۔ لیکن شاید بھارت ابھی تیار نہیں ہے۔ بھارت تیار کیوں نہیں ہے اس کی کچھ وجوہات ہیں جن کا جاننا بہت ضروری ہے۔
پاکستان:
یہ بات ماننا ضروری ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے سب سے بڑے حریف ہیں، دونوں ممالک موقع ملتے ہی ایک دوسرے کی ٹانگ کھیچنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ بھارت اسی بات سے خوفزدہ ہے کہ چین سے اس وقت لڑنا اس کے لیے ممکن نہیں، کیونکہ اس طرح پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ چینی سرحد بھی خطرے سے بھرپور ہو جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان بھارت کو سرحدی معاملات میں الجھائے رکھے ہے (اگرچہ فالحال معاملات ٹھنڈے ہیں) تاکہ چینی سرحد پر معاملات چین کے کنڑول میں رہیں۔ اس پر سونے پر سہاگہ کشمیر ہے، جو کہ بھارت کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ معاملہ خراب ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت فالحال گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔
ایل او سی پر بھی بھارت اس طرح دراندازی نہیں کر رہا ہے، کیونکہ ایک ساتھ دو طرفہ جنگ کو بھارت برداشت نہیں کر پائے گا۔
چینی اثر و سورخ:
چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی بنیاد رکھی ہے، جس سے بھارت کو تشویش ہے، لیکن یہ تشویش اس وقت حد کو چھو گئی جب چین نے نیپال اور بنگلادیش کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، نیپال سے تو بھارت کے معاملات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ نیپال کی جانب سے ایک نیا نقشہ جاری کیا گیا ہے جس میں نیپال کا دعویٰ ہے کہ کالاپنی ریجن نیپال کا حصہ ہے۔
دوسری جانب سے چین، نیپال کی رضامندی سے نیپال میں کام کر رہا ہے، نیپال میں نوے فیصد بیرونی انویسٹمنٹ چین کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اب ظاہر ہے چین اپنا سرمایہ لگا رہا ہے تو کسی مقصد کے تحت۔ صدیوں سے نیپال بھارتی پورٹس پر تجارت کے لیے منحصر ہوتا تھا، مگر فروری میں ہونے والے پروٹوکول کے مطابق نیپال چین کے 4 بحری پورٹس اور 3 زمینی راستوں کے ذریعے تجارت کر سکتا ہے۔ یہ پروٹوکول چین کی جانب سے اس وقت دیا گیا جب بھارت نے تجارتی پالیسی میں اصلاحات کے لیے نیپال پر دباؤ ڈالا اور تجارت ایک طرح سے منقطع کر دی تھی۔
اس طرح بھارت کا اثر و رسوخ کم ہوتا گیا۔
ڈوکلام پر توجہ:
چین نے ڈوکلام پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے کیونکہ ڈوکلام بھارت کی 7 ریاستوں کو نئی دلی سے ملانے والے راستے سے محض 50 کلومیٹر دور ہے۔ اگرچہ ڈوکلام بھوٹان کا حصہ ہے مگر یہ بھی متنازع علاقہ ہے، چین اور بھوٹان کے درمیان جسے چین محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی کے حصار میں لیے ہوئے ہے لیکن 2017 میں بھارتی اور چینی فوج کے ڈوکلام کے محاز میں ہونے والے تناؤ اور بھارتی پسپائی کے بعد چینی فوج آگے بڑھ رہی ہے۔
چین نے اس چکن ہیڈ کی طرف نظریں رکھی ہوئی ہیں، ایک طرف ڈوکلام کی طرف سے قریب ہو رہا ہے تو دوسری طرف نادرن بنگلادیش میں 983 ملین ڈالرز کی سرمایہ کار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے وہ چکن ہیڈ کی دوسری طرف سے بھی قریب ہو جائے گا۔
بھارت کے لیے مشکل لمحہ یہ بھی ہے کہ جن ہمسایہ ممالک کو وہ ادنٰی سمجھتا تھا آج انہی کو بڑے بڑے پراجیکٹس آفر کر رہا ہے۔
آزادی پسند تحریک:
ویسے تو آزادی پسند تحریکیں بھارت میں کئی ہیں مگر اس وقت بھارت اُن تحریکوں پر زیادہ پریشان ہے جو کہ نادرن انڈیا میں چل رہی ہیں، کیوںکہ یہ آزادی پسند تحریکیں ان ریاستوں میں فعال ہیں جنہیں چکن ہیڈ نئی دلی سے جوڑتا ہے۔ یعنی اگر چین اس چکن ہیڈ تک پہچنے میں کامیاب ہو گیا اور بھارت کا ان 7 ریاستوں سے رابطہ ٹوٹ گیا تو آزادی کی تحریکیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔
ویسے نادرن انڈیا میں منی پورہ، آسام، ناگا لینڈ، اروناچل پردیس، میگھالایا، میزورام اور تری پورہ شامل ہیں۔ لیکن ناگا لینڈ، تری پورہ نے اپنا ترانہ اور شناختی کارڈ تک بنا لیا ہے۔ جبکہ آسام میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے پر وہاں بھی آزادی کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔
بھارت کو سی پیک سے کیا مسئلہ ہے؟
سب سے اہم مسئلہ بھارت کو یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ پاکستان سے ہوتا ہوا کشمیر کو جائے گا یعنی بھارت کو اعتراض ہے کہ چین پاکستانی ایڈمنسٹرڈ کشمیر میں کوئی پراجیکٹ نہیں کر سکتا ہے، لیکن شاید ایک کشمیر کی وجہ سے بھارت اپنے سات ریاستوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔
کیونکہ بھارت آزاد کمشیر کو متنازع علاقہ سمجھ رہا ہے تب ہی تو چین کو مداخلت کرنے سے روک رہا ہے، واضح رہے بھارت مسئلہ کشمیر کو عالمی مسئلہ قرار دینا نہیں چاہتا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازع قرار دے رہا ہے۔ دوسری جانب جب سی پیک کے ذریعے مختلف ممالک اس پراجیکٹ میں شامل ہوں گے تو کشمیر پاکستان ہی کا حصہ تصور کیا جائے گا۔
بھارتی کے تمام ہماسئیوں سے تعلقات:
اس وقت بھارت ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے اپنے تمام ہمسائیوں سے تعلقات خراب ہیں چاہے پاکستان ہو، بھوٹان یا، چین یا پھر نیپال اور بنگلادیش سب ہی کے کہیں نا کہیں بھارت سے تعلقات خراب ہیں۔ چین اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہا ہے، اب یہ غور طلب صورتحال ہے کہ روس اور امریکہ اس سب میں کہاں کھڑے ہیں۔
اس سب صورتحال کے پیش نظر بھارت کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ چین اس چکن ہیڈ کے کس حد تک قریب آ چکا ہے جو کہ خود بھارت سے الگ ہونا چاہتی ہیں، بھارت اس وقت چین سے مقابلہ نہ کر کے نہ صرف چین کو پرکھ رہا ہے بلکہ سہما ہوا بھی ہے۔