ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ جس گھر کا ایک بھی شخص دوسرے ملک کمانے گیا ہو وہ یہاں بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں اچھا کھاتے ہیں پیتے ہیں پر آپکو پتا ہے کہ یہ اپنی عید کس طرح مناتے ہیں۔ آج ہم آپکو وہ حقائق بتانے جا رہے ہیں جسے سننے کے بعد آپ کی بھی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے۔
یورپ میں موجود ملک یونان جہاں بہت سے پاکستانی آباد ہیں انہی میں سے ایک لڑکا جس کا نام محمد اویس ہے وہ کہتا ہے کہ یہاں کیا عید ہوتی ہے ابھی ہم عید کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے ہیں تو بس 5 منٹ میں کپڑے بدل کر کام پر چلے جائیں گے۔
اگر چھوٹی کر کے یعد منانی ہوتی تو گھر میں ہی ماں باپ کے پاس رہتے۔ اور ویسے بھی ہمیں مالک کہاں چھوٹی دیتے ہیں اور اسی کا نام تو پردیس ہے۔
یہاں ہی موجود ایک اور پاکستانی سے جب بات کی گئی تو وہ کہتا ہے کہ جی جی میں بھی کپڑے بدل کر کام پر جا رہا ہوں۔ جب ان کا کوئی تہوار ہوتا ہے تو پورا ملک چھوٹی مناتا ہے لیکن ان کا مذہب اور ہے تو انہیں کیا معلوم آج ہمارے لیے کتنا بڑا دن ہے۔
عید منانے کے موضوع پر محمد زیشان نامی شخس کہتے ہیں کہ کیا عید ہو گی ہماری گھر پر بھی کوئی دوست جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں وہ ہوتے نہیں تو اکیلےعید کیسے منائیں ہم بھی پھر مجبوری میں کام پر چلے جاتے ہیں۔
مزید یہ کہ یونان میں 2 ایسے بھی شخص نظر آئے جن کو 19 اور 11 سال یہاں محنت مزدوری کرتے ہوئے ہو گئے تھے تو یہ کہتے ہیں کہ اپنے کی یاد تو آتی ہے قربانی بھی پاکستان میں ہی کرتے ہیں ، بس یہاں تو عید کی نماز پڑھتے ہیں جس کیلئے ہمیں چھوٹی مل جاتی ہے اس کے علاوہ نہیں۔
اور تو اور اس دن بھی ہمیں گوشت مارکیٹ سے لانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے قانون کے مطابق ہم قربانی خود نہیں کر سکتے اس کیلئے بھی اجازت نامی یہاں کی حکومت کا ہونا ضروری ہے اگر آپ نے خود کرنی ہے تو۔