بلوچستان کے لوک گلوکار واسو خان آج صبح سکھر میں انتقال کرگئے۔ یہ ہمارے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ انہوں نے لوکل زبان میں اپنے فن کو خوب ترقی دی اور اپنا نام بنایا۔ لیکن پاکستان میں عالم یہ ہے کہ ہم لوگ اپنے ہی لیجنڈری فنکاروں کی قدر نہیں کرتے جو ملک کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں ان کے برے وقت میں بھلا دیا جاتا ہے۔
واسو خان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ جمعے کے دن وفات پائیں اور ان کی موت پر لوگوں کو افسوس ہو کہ واقعی ہم نے ان کو کھو دیا، اس پُراثر آواز کو کھو دیا۔ گلوکار کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا ان کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر تک نہ تھا ایک کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے۔ ان کے ورثاء میں بیوی اور 6 چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن میں 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں۔۔
گلوکار واسو خان نے معروف سنگر شہزاد رائے کے ساتھ بھی گانے گائے جن میں واجہ، بائے بائے اور مشہور گانا اپنے الو شامل ہیں۔
اس لوک گلوکار کی مدد کرنے کے لیے شہزاد رائے نے بھرپور کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن شوگر، جگر اور سانس کی بیماری میں ایک عرصے سے مبتلا واسو خان زندگی کی بازی ہار گئے۔
واسو کا اصل نام محمد وارث تھا۔ ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع صحبت پور کے گاؤں گور ناڑی سے تھا۔ یہ محکمہ پولیس بلوچستان میں درجہ چہارم کے ملازم تھے۔ پولیس ملازمت کے دوران اپنی منفرد کلوگاری کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے جس میں وہ علاقائی اور ملکی سیاست پر تنقید کرتے تھے۔
انہیں اصل شہرت ریٹائرمنٹ کے بعد ملی تھی مگر ٹی وی شو ختم ہونے کے بعد وہ اپنے نشے کی عادت کی وجہ سے بیمار رہنے لگے اور پھر گمنامی میں چلے گئے