سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والوں نے روسٹم پر آکر دو منٹ سے زیادہ بات نہیں کی اور اس موقف کو دھرایا کہ سیاسی تلخیوں کو کم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مزاکرات ضروری ہیں اور حکومت میں شامل جماعتوں نے اس معاملے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔

ایک ہی دن میں ملک بھر میں عام انتخابات کروانے سے متعلق کاشف چوہدری نامی شخص کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے شروع کی تو سماعت سے قبل چیف جسٹس نے قرانی آیت پڑھنے کے بعد اس کا ترجمہ کیا اور پھر یہ دعا بھی کی کہ ’ہمارے جانے کے بعد بھی لوگ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھیں‘ تو کمرہ عدالت میں کچھ لوگوں نے تو آمین کہا اور اکثریت خاموش رہی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ دعا صرف میرے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔
سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی طرف سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقات کرنے کے اقدام کو سراہا اور کہا کہ سپریم کورٹ اس کاوش میں ان کے ساتھ ہے۔
سماعت شروع ہوتے ہی حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما کمرہ عدالت میں پہنچ گئے جن میں وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق ، اعظم نذیر تارڑ، طارق بشیر چیمہ شامل تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے قمر زمان کائرہ، نئیر بخاری اور فاروق ایچ نائیک موجود تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
شاہ محمود قریشی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے ساتھ بیٹھے رہے جبکہ وفاقی وزراء ایک ہی لائن میں اکھٹے بیٹھے تھے۔
کمرہ عدالت میں داخل ہونے سے پہلے فواد چوہدری اور خواجہ سعد رفیق خوش گپیوں میں مصروف رہے۔
عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کے ساتھ کسی دوسری سیاسی جماعت کے رہنما نہیں بیٹھے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے رہنما نے ان کے ساتھ گپ شپ کی، صرف جماعت اسلامی کے امیر نے ان سے ہاتھ ملایا۔
کمرہ عدالت میں سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو جب باری باری بلایا گیا تو عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ بھی روسٹم پر موجود رہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی نمائندگی خواجہ سعد رفیق نے کی جبکہ بی این پی مینگل گروپ کی نمائندگی وفاقی وزیر ایاز صادق نے، پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی قمر زمان کائرہ نے اور پاکستان مسلم لیگ قاف کی نمائندگی طارق بشیر چیمہ نے کی۔
عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید کے ساتھ کسی دوسری سیاسی جماعت کے رہنما نہیں بیٹھے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے رہنما نے ان کے ساتھ گپ شپ کیان جماعتوں کی نمائندگی کرنے والوں نے روسٹم پر آ کر دو منٹ سے زیادہ بات نہیں کی اور اس موقف کو دھرایا کہ سیاسی تلخیوں کو کم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان مزاکرات ضروری ہیں اور حکومت میں شامل جماعتوں نے اس معاملے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاست دانوں کے آپس میں بہت اچھے تعلقات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جیسا آج کل میڈیا پر نظر آتا ہے ویسا کچھ بھی نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماحول کی خرابی کا تاثر قائم کرنے میں سوشل میڈیا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ قاف سے تعلق رکھنے والے طارق بشیر چیمہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہےلیکن جو فیصلہ ہم کریں گے وہ سب کے لیے بہتر ہوگا۔
پی ٹی آئی کے نمائندے شاہ محمود قریشی کو جب روسٹم پر بلایا گیاتو انھوں نے پہلے تو عدالت عظمیٰ کی طرف سے چودہ مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ ان کی جماعت سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے اور پھر اس کے بعد انھوں نے پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ گلے شکوے کرنا شروع کردیے۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو یقین دھانی کروائی گئی تھی کہ پنجاباور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے گا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
شاہ محمود قریشی کے گلے شکوے جب زیادہ ہونے لگے تو خواجہ سعد رفیق روسٹم پر آ گئے اور کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹنگ کلب نہ بنایا جائے اور اگر آپ کو کوئی گلے شکوے ہیں تو اس کو مذاکرات میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
قمر زمان کائرہ نے بھی کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، بہتر ہے کہ عدالت کے تقدّس کا خیال رکھا جائے اس کے بعد شاہ محمود قریشی نے اعتماد کے فقدان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں صوبائی حکومتوں کو ختم کرنے کے بعد جو کچھپی ٹی آئی کے ساتھ ہواوہ سب کے سامنے ہے۔ انھوں نے کہا کہ مذاکرات میں تو کئی ماہ اور سال لگ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت ملک میں انتشار چاہتی ہے نہ ہی آئین سے انکار۔
شیخ رشید نے روسٹم پر آ کر سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی تجویز کی حمایت کی اور ساتھ ہی حکومت پر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام بھی لگا دیا۔
انھوں نے جمعت علمائے اسلام کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک سیاسی جماعت نے آج کی عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے تاہم اٹارنی جنرل نے اس کی تردید کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی مذاکرات کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ میڈیا پر رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت مذاکرات کرنے والا معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دے اور خود کو اس معاملے سے الگ کرے۔
شاہ محمود قریشی کے گلے شکوے جب زیادہ ہونے لگے توخواجہ سعد رفیق روسٹم پر آگئے اور کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹنگ کلب نہ بنایا جائےانھوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں جب بھی سیاسی تلخیاں بڑھیں تو اس کے نتائج ملک کو بھگتنا پڑتے ہیں جو ملک ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا لگتے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے تو بڑی عید کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوسکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی عید تو جولائی میں ہے۔
انھوں نے کہا کہ وزارت دفاع نے بھی ملک بھر میں ایک ہی دن میں انتخابات کروانے کا کہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سیاست دان مذاکرات میں کسی معاملے پر متفق ہو جائیں تو عدالت بھی کوئی نرمی دکھا سکتی ہے ورنہ عدالت کا صوبہ پنجاب میں چودہ مئی کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کروانے کاحکم موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ واپس لینا کوئی مذاق نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی قابل قبول نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس جب سیاسی جماعتوں میں مذاکرات اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے بارے میں ریمارکس دے رہے تھے تو کمرہ عدالت میں موجود چند وکلاکو دھیمی آواز میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ پہلے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان تو اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
عدالتی سماعت میں جب وقفہ کیا گیا تو فواد چوہدری اور قمر زمان کائرہعدالتی احاطے کے باہر گفتگو میں مصروف ہو گئے۔