فوجی تنصیبات پر حملہ: کم عمر نوجوان پولیس کارروائیوں کا نشانہ کیسے بن رہے ہیں؟

image
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ نے ملک بھر میں ایک سنجیدہ صورت حال پیدا کر دی ہے۔

فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے عمل نے پی ٹی آئی سپورٹرز کو تقریباً ایک بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تھوک کے حساب سے گرفتاریاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں کچھ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں جس سے یہ شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ گرفتاریوں کے عمل میں اتنی شفافیت نہیں ہے جتنا کہ دعوٰی کیا جا رہا ہے۔

ذیل میں اردو نیوز چند ایسے واقعات کو رپورٹ کر رہا ہے جس میں 17 سے 20 سال کی عمر کے لڑکوں کو پولیس نے پنجاب کے مختلف شہروں سے گرفتار کیا۔ گرفتار ہونے والے کچھ لڑکوں کے رشتے داروں نے اپنی کہانیاں سنائی ہیں تاہم ان کی حفاظت کے پیش نظر ان کے اصل نام ظاہر نہیں کیے جا رہے، کیونکہ وہ خود ایسا نہیں چاہتے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ کے رہائشی محمد عمر (فرضی نام) کی عمر ان کے شناختی کارڈ کے مطابق 18 سال ہے۔ 12 مئی کو پولیس ان کے گھر آئی اور انہیں حراست میں لے لیا۔ گھر والوں نے اس کے بعد تھانہ ٹاؤن شپ میں جب رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا وہ اس تھانے کی تحویل میں نہیں ہیں۔

محمد عمر کے ایک قریبی رشتے دار نے بتایا کہ ’ہم تھانوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے ہیں اور ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ ہمارا بچہ کہاں ہے۔ پہلے چند روز تو پولیس کچھ بتا ہی نہیں رہی تھی لیکن اب کچھ کچھ بتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ کا بچہ احتجاج میں گیا تھا، اور وہ جس دوسرے نوجوان کے ساتھ موٹر سائیکل پر گیا تھا اس کی نشاندہی پر پولیس نے اسے حراست میں لیا ہے، اگر وہ بے قصور ہوا تو چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن ہمیں وہ یہ نہیں بتا رہے کہ وہ ہے کہاں۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ ٹک ٹاک بنانے والا بچہ ہے اور شرپسند سوچ کا حامل نہیں ہے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ نے ملک بھر میں ایک سنجیدہ صورت حال پیدا کر دی ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

راولپنڈی کے تھانہ ایئرپورٹ کے علاقے سے 13 مئی کو ایک 17 سالہ نوجوان علی (فرضی نام) کو پولیس وردی میں ملبوس دو افراد موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے گئے۔

علی کی خالہ نے اردو نیوز کو دستاویزات فراہم کی ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے علی کے غائب ہونے کے ایک روز بعد تھانے میں ایک درخواست دی کہ ان کے بچے کو اغوا کر لیا گیا ہے جبکہ پولیس نے ایف آئی آر درج نہیں کی۔

انہوں نے بتایا ’دو روز کے بعد ہمارے ہی محلے کا ایک شخص آیا اور ہمیں بتایا کہ اگر درخواست واپس لے لیں تو دو روز میں بچہ گھر آجائے گا۔ ہم نے درخواست تو واپس نہیں لی لیکن تین دن تک پولیس کے ساتھ مذاکرات اور ایک لاکھ روپے رشوت دے کر تھانہ سول لائنز سے بچہ ہمارے حوالے کر دیا گیا۔ اور ہمیں دھمکی دی گئی کہ اگر کسی کو بتایا تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔‘

’اب میری بہن وہ گھر چھوڑ رہی ہے۔ ہمارے محلے کے اندر ہی ایک کانسٹیبل رہتا ہے اس کے بھائی نے یہ سارے مذاکرات کروائے۔ علی کو جب انہوں نے پکڑا تو اس کا ایک کلپ بھی کسی نے بنا لیا تھا لیکن سب بے سود ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میرے بھانجے نے کبھی کسی سیاسی جماعت کے جلوس میں شرکت نہیں کی۔ محلے سے پولیس نے ایک لڑکے کو پکڑا اور اس سے پوچھا تمہارا دوست کون ہے؟ اس نے علی کا نام لیا اور پھر وہ اسے بھی پکڑ لے گئے۔‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی عاصم نصیر نے پیر کو ایک ٹویٹ کی کہ ’کل رات میرے ایک قریبی عزیز نے 30 ہزار روپے صرف لیاقت آباد تھانے کے سب انسپکٹر کو دیے۔ قصور یہ تھا کہ 9 مئی کو ان کا بیٹا کینٹ کےعلاقہ میں کھانا کھا رہا تھا جب یہ واقعہ ہوا اور جیو فینسنگ کی نظر ہو کر ماں اور بیٹا حراست میں لیے گئے، تاہم شواہد پر چھوڑ تو دیا مگر پولیس نے دیہاڑی لگائی۔‘

کل رات میرے ایک قریبی عزیز نے30ہزار روپے صرف لیاقت آباد تھانے کے سب انسپکٹر کو دئیے اور قصور یہ تھاکہ9مئی کو انکا بیٹا کینٹ کےعلاقہ میں کھانا کھا رہا تھاجب یہ واقعہ ہوا اور جیو فینسنگ کی نظر ہو کر ماں اوربیٹا حراست میں لیے گئے تاہم شواہد پر چھوڑ تو دیا مگر پولیس نے دیہاڑی لگائی https://t.co/te3HfyC7rY

— Muhammad Asim Naseer (@AsimNaseer81) May 22, 2023

لاہور پریس کلب میں 18 مئی کو لگ بھگ پانچ خاندانوں نے پریس کانفرنس کی اور اسی سے ملتے جلتے الزامات عائد کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے جن کی عمریں بمشکل 17 سے 19 سال ہیں اور وہ ایسے الزمات میں پولیس کی حراست میں ہیں جو کام ان کی عمر کے لڑکے کر ہی نہیں سکتے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US