طارق عزیز: ’دیکھتی آنکھوں، سُنتے کانوں‘ کو طارق عزیز کا وہ سلام جو پوری دنیا میں گونجا

علم و سائنس کی دنیا میں جس طرح ہر ابتدا ارسطو سے جا ملتی ہے اسی طرح برصغیر میں انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز پر دکھائے دینے والے ٹی وی پروگراموں کے ہر فارمیٹ کے بانی طارق عزیز جا نکلتے ہیں۔

یہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی کے صفحات پر 17 جون 2021 کو شائع ہوئی تھی جسے طارق عزیز کے تیسرے یوم وفات کے موقع پر دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

علم و سائنس کی دنیا میں جس طرح ہر ابتدا ارسطو سے جا ملتی ہے اسی طرح برصغیر میں انٹرٹینمنٹ اور نیوز چینلز پر دکھائے دینے والے ٹی وی پروگراموں کے ہر فارمیٹ کے بانی طارق عزیز جا نکلتے ہیں۔

اس خطے میں اُن کی حیثیت ’اُستادوں کے اُستاد‘ کی سی تھی۔

نیوز کاسٹنگ ہو یا ہوسٹنگ، اہم شخصیات کے سٹوڈیو انٹرویوز ہوں یا تعلیمی و تفریحی ٹیلی ویژن شوز سکرین پر ان سب کی ابتدا طارق عزیز نے کی۔

اداکار سہیل احمد بتاتے ہیں کہ گذشتہ دو، تین دہائیوں میں پاکستان اور آس پاس کے ممالک کے نجی ٹیلی ویژن چینلز میں جو کچھ بھی دکھایا گیا اُس کی شروعات طارق عزیز کے ہاتھوں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے انڈین سٹارز کی میزبانی میں چلنے والے ٹی وی شوز کا مرکزی آئیڈیا اور فارمیٹ طارق عزیز کے ٹی وی شوز سے مستعار لیا گیا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے انڈین نجی ٹی چینل پر مقبول ساجد خان اور رتیش دیش مکھ کا پروگرام ’یاروں کی بارات‘ بلوواسطہ طور پر اور پاکستان میں فہد مصطفیٰ کے انعامی ٹی وی شو پر طارق عزیز کے انداز کی گہری چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔

طارق عزیز پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھائی دینے والا پہلا چہرہ تھے

26 نومبر 1964 کو پاکستان ٹیلی ویژن نے جب لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کیا تو طارق عزیز اُس پر دکھائی دینے والا پہلا چہرہ تھے۔ وہ پی ٹی وی پر 56 برس کی طویل مدت تک نظر آتے رہے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ انھوں نے پی ٹی وی کے علاوہ کسی بھی نجی ٹی وی کے لیے کبھی کام نہ کیا حالانکہ پرائیویٹ سیکٹر سے انھیں بھاری معاوضے کی پیشکشیں کی جاتی رہیں۔

سنہ 2000 میں جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی شروعات ہوئی تو پی ٹی وی کے سٹارز اور سپر سٹارز کو منھ مانگے معاوضوں پر پرائیویٹ چینلز نے ہائر کیا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ عوام کو اپنے چینل سے وابستہ کرنا تھا۔

اس مہم کے تحت لگ بھگ پی ٹی وی کے پلیٹ فارم سے معروف ہونے والا ہر چہرہ پرائیویٹ چینلز پر جلوہ گر ہوا، لیکن طارق عزیز پرائیویٹ سیکٹر کی دسترس سے باہر رہے، حالانکہ وہ چاہتے تو نجی ٹی وی شعبے سے اچھی خاصی رقم بنا سکتے تھے۔

زندگی کے آخری 16 برسوں میں طارق عزیز کے ساتھپروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرنے والے آغا قیصر بتاتے ہیں کہ نجی ٹی وی کے ہر قابل ذکر میڈیا ہاؤس کی خواہش رہی کہ طارق عزیز اُن کی ٹی وی سکرین پر آ کر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگائیں، لیکن انھوں نے قومی ٹی وی سے وابستہ رہنا ہی اپنے لیے اعزاز سمجھا۔

آغا قیصر نے ایک معروف میڈیا ہاؤس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے ’رمضان ٹرانسمیشن‘ کی پیشکش ہوئی مگر لاکھوں روپے کی آفر کے باوجود انھوں نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔

’جب میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے لاکھوں روپے ٹھکرا دیے ہیں، تو طارق صاحب نے کہا تھا کہ چاہتا ہوں میری بات اور آواز قومی ادارے ( پی ٹی وی) کے ذریعے ہی قوم تک پہنچے۔‘

آغا قیصر نے بتایا کہ طارق عزیز بیماری میں بھی ریکارڈنگ کینسل نہیں کرایا کرتے تھے۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ طارق صاحب کو شدید بخار تھا، ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ ریکارڈنگ کینسل کر دیتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ ’نئیں یار لو گ گھراں نوں مایوس واپس جاون گئے‘ (نہیں دوست لوگ مایوس گھروں کو لوٹیں گے)۔ کیمرے آن ہوتے تو شدید بخار میں بھی اُن کے جسم میں بجلی کوند جاتی۔'

طارق عزیز کے کیمروں کے سامنے آنے کے حوالے سے سہیل احمد کہتے ہیں کہ ’طارق عزیز ونگ سے یوں سٹیج پر آتے تھے جیسے شیر میدان میں نکلتا ہے۔‘

150 روپے سے 10لاکھ فی گھنٹہ تک کا سفر

طارق عزیز اپنے کیریئر میں ملک کے سب سے مہنگے ٹی وی ہوسٹ رہے ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا انھوں نے ایک گھنٹے کا معاوضہ دس لاکھ روپے تک بھی وصول کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک گھنٹے سے جتنے منٹ زیادہ ہوتے تو اس کا معاوضہ الگ ملتا تھا۔

لیکن یہ تو ان کے کیریئر کے عروج کا زمانہ تھا۔

وہ سنہ 1960میں ریڈیو لاہور سے وابستہ ہوئے جہاں ان کا معاوضہ ڈیڑھ سو روپے طے ہوا تھا۔

وہ سنہ 1936میں جالندھر کے آرائیں خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں عبدالعزیز نے قیام پاکستان سے گیارہ سال قبل اپنے نام کے ساتھ ’پاکستانی‘ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ چند افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میاں عبدالعزیز پاکستانی نے اپنے انگریز افسر کے دانت توڑ دیے تھے کیونکہ افسر نے بانی پاکستان کے حوالے سے کچھ ناشائستہ الفاظ کہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

رفیع خاور ننھا، جن کی موت 35 سال بعد بھی ایک معمہ ہے

سارا جہاں نور جہاں کا دیوانہ تھا اور وہ اعجاز کی دیوانی

سلامت علی خان نے لتا منگیشکر کی شادی کی پیشکش کیوں ٹھکرائی

طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ساہیوال منتقل ہوئے۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اپنے قریبی دوست مہدی حسن کے ساتھ لاہور کے لیے یہ کہتے ہوئے نکلے کہ ’آج کے بعد ہم نے گھروالوں سے کچھ نہیں لینا (یعنی اپنا خرچہ اب خود اٹھائیں گے۔)‘

طارق عزیز کو سامنے والے چوبارے سے کون دیکھتا تھا؟

لاہور میں وہ دونوں اُردو بازار اور اولڈ کیمپس لا کالج سے ملحقہ محلے کی سڑک پر چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے۔

طارق عزیز بتایا کرتے تھے کہ ’ہم دونوں صبح ہونے سے پہلے وہاں سے اٹھ جایا کرتے کیونکہ ہم دونوں اپنے آپ کو ہیروز سمجھتے تھے اور ہمیں شک تھا کہ سامنے والے چوبارے سے ہمیں کوئی دیکھتا ہے۔‘

طارق عزیز پر اُن کی ابتدائی زندگی میں ترقی پسند نظریات کے گہرے اثرات رہے تاہم بعد ازاں وہ عملی سیاست بھی کرتے رہے۔ پاکستانی سوسائٹی میں اُن کا تشخص فنکار اور براڈکاسٹر سے بڑھ کر رہا یہی وجہ ہے کہ انھیں سیاست میں بھی سنجیدہ لیا گیا۔

طارق عزیز نے سنہ 1997کے عام انتخابات میں لاہو ر سے قومی اسمبلی کی نشست سے آج کے وزیر اعظم عمران خان کو بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ حملہ کیس کے بعد طارق عزیز عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔

طارق عزیز، بھٹو کے ساتھی اور جنرل ضیاالحق کے دوست

ایک زمانے میں طارق عزیز سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ انھوں نے بھٹو صاحب کے ہمراہ سرکاری وفد کے ساتھ مختلف ممالک خاص طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔

ان کی زندگی میں ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے بائیں بازو کی سیاست سے آغاز کیا اور پھر بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے دوست بن گئے اور کچھ عرصے بعد نون لیگ کی ٹکٹ سے قومی اسمبلی بھی پہنچ گئے؟ ان سوالات کے جواب میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’بھٹو پڑھے لکھے، ذہین، خوبصورت انسان تھے، وہ مجھے پسند بھی تھے لیکن یہاں کوئی بھی بالشویک سیاسی پارٹی نہیں تھی۔‘

’ہمار ے ہاں تو سیاسی رہنماؤں کو اُردو بولنی بھی نہیں آتی اور جہاں تک آپ جنرل ضیاالحق کی دوستی کا طعنہ دیتے ہیں، مجھے دوست جنرل ضیا نے بنایا تھا، میری یہ خواہش نہیں تھی۔‘

طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی تھے ان کے کالموں کامجموعہ ’داستان‘ اور پنجابی شاعری پر مشتمل کتا ب ’ہمزاد دا دکھ‘ بھی شائع ہوئی تھی۔ وہ ادب اور شاعری سے گہری رغبت رکھتے تھے اور اس کی مثال یہ ہے کہ اُن کے چاہنے والوں نے دیکھا کہ اپنے 40 سالہ طویل ٹی وی شو میں کسی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انھیں ازبر نہ ہوتا۔

طارق عزیز ایک عرصہ فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے لگ بھگ 25 فلموں میں مرکزی اور اہم نوعیت کے رول کیے۔ یہ طارق عزیز کی خوش قسمتی رہی کہ پاکستانی فلم میکرز نے ان کے لیے کردار بھی ایسے لکھے جن میں انھیں جوشِ خطابت کے مواقع ملتے رہے۔

اُن کی پہلی فلم ’انسانیت‘ تھی جس میں وہ ’کلک‘ کر گئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مشرقی اور مغربی پاکستان کا ایک وسیع سرکٹ موجود تھا اور فلم ساز اپنی فلموں کے پوسٹروں پر گھریلو، معاشرتی اور اصلاحی فلم کے سابقے بھی نمایاں لکھواتے تھے۔ پرویز ملک نے طارق عزیز کو کاسٹ کر کے فلم ’سوغات‘ بنائی تھی جس میں انھوں نے ایک سچے اور کھرے انسان کا کردار نبھایا تھا۔

فیاض شیخ کی فلم ’زخمی‘ میں انھوں نے اداکار محمد علی کے سامنے بہترین پرفارمنس دی تھی۔ مذکورہ فلم کے مکالمے ریاض شاہد نے لکھے تھے جسے طارق عزیز نے اپنی متاثر کن آواز سے یادگار بنا دیا تھا۔

ہدایتکار قمر زید ی کی فلم ’سالگرہ‘ حسن طارق کی ’کالو‘ اُن کی اہم فلمیں تھیں۔ ’ساجن رنگ رنگیلا‘ خود طارق عزیز نے پروڈیوس کی اور جو کچھ فلم سے کمایا تھا سب اس فلم پر لگا دیا۔ ’ہار گیا انسان‘ طارق عزیز کے فلمی کیریئر کی اہم فلم تھی لیکن بُری طرح فلاپ ہوئی تھی حالانکہ اس میں طارق عزیز نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جو ککھ پتی سے لکھ پتی بن کر اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگتاہے مگر پھر خدا کے عذاب کا شکار ہوتا ہے۔

طارق عزیز نے اپنے معاون کی بات سنی اور سخت لہجے میں کہاNo & Never

ٹیلی ویژن کے حوالے سے ان کا نظریہ رہا کہ اس میڈیم سے قوم کو تفریحی فراہم کرنے کے ساتھ تعلیم اور تربیت کا اہم فریضہ بھی سرانجام دیا جائے۔ آغا قیصر بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ میں نے طارق صاحب سے کہا کہ نجی ٹی وی کے انعامی شو میں معمولی سوالات پر موٹرسائیکلیں دی جا رہی ہیں، آپ بھی یہ سلسلہ شروع کریں۔ اس پر طارق صاحب نے قدرے سخت لہجے میں کہا کہ No & Never ایسا کبھی دوبارہ نہ کہنا کیونکہ میں اپنی قوم کو لالچ، حرص اور تن آسانی کی نہیں بلکہ محنت، ریاضت اور علم حاصل کرنے کی عادت ڈالنا چاہتا ہوں۔‘

صوفی تبسم کے پوتے ڈاکٹر جاوید صوفی بتاتے ہیں کہ ’سنہ 1978 میں اور میرا دوست نیلام گھر میں مہمان بنے۔ ہم دونوں دوست طارق عزیز کے روبرو تھے اور گاڑی کے لیے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔‘

’ہمیں ٹارگٹ دیا گیا تھا کہ ہم نے 22 سوالات کا جواب دے کر گاڑی جیتنا تھی۔ میں اور میرے دوست نے بیس سوالات کے جواب دیے، ہم سے دوغلطیاں ہوئیں جس کے بعد ہم گاڑی کی بجائے ٹیلی ویژن جیت کر گھر لوٹے تھے۔‘

ڈاکٹر ٹونی نے بتایا کہ ’نیلام گھر‘ کا فیڈ بیک اس قدر زبردست تھا کہ ہم پورے علاقے میں ایک طویل عرصہ تک ہم لائق فائق مشہور ہو گئے تھے۔

جب طارق عزیز نے کعبہ میں اینٹ نصب کی

طارق عزیز بتایاکرتے تھے کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ انھیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ انھوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے متبرک کام میں ایک مزدور کی حیثیت سے کچھ دیر کام کیا۔

مزید پڑھیے

جب 18 برس کی اللہ وسائی ’ملکہ ترنم‘ کہلانے لگیں

لسوڑی شاہ کا نصرت، نصرت فتح علی خان کیسے بنا

بڑے غلام علی خان: کلاسیکی موسیقی کے عظیم فنکار پاکستان چھوڑ کر انڈیا کیوں چلے گئے تھے

آغا قیصر کے مطابق طارق عزیز بتاتے تھے کہ انھیں خانہ کعبہ میں ایک اینٹ لگانے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ ’انھیں یہ سعادت خانہ کعبہ کی تعمیر نو پر تعینات ایک پاکستانی کنٹریکٹر کے تعاون سے نصیب ہوئی تھی جو اُن کا مداح تھا۔‘

دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے

’دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘ یہ وہ جملہ ہے جو ربع صدی سے زائد وقت سے ہماری سماعتوں میں گونج رہا ہے۔ طارق عزیز جب اپنے ٹی وی شو کے آغاز میں بھاگتے ہوئے لوگوں کے سامنے آتے اور یہ جملہ ادا کرتے توسب ہاتھ دیوانہ وار تالیاں بجا کر اُن کا استقبال کیا کرتے۔

سینیئر اداکار اور طارق عزیز کے قریبی دوست محمد قوی خان بتاتے ہیں کہ یہ ابتدائیہ طارق نے یوں اختراع کیا تھا کہ ایک دن اسے ایک ایسا پُرستار ملا جو آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھا۔

’اُس نے کہا طارق عزیز صاحب میں تو آپ کا ہر پروگرام سنتا ہوں، بلکہ کانوں سے سنتے ہوئے آپ کو دیکھتا ہوں، لیکن آپ مجھے کبھی مخاطب ہی نہیں کرتے۔ اس نابینا پرستار کی فرمائش پر خدا نے طارق کو یہ خیال بخشا اور اس کے دماغ میں یہ جملہ اُترا کہ ’دیکھتی آنکھوں سُنتے کانوں کو طارق کا سلام پہنچے۔‘

اور پھر ہم سب نے دیکھا کہطارق عزیز کا سلام ساری دنیا تک پہنچا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow