میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آوروں کی گاڑی سے نام نہاد دولت اسلامیہ کا پرچم ملا تھا جبکہ آسٹریلوی حکام نے مبینہ طور پر 2019 میں نوید اکرم کے دولتِ اسلامیہ سے ممکنہ روابط کے بارے میں تفتیش کی تھی۔

آسٹریلیا کے بونڈائی ساحل پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری تاحال کسی شدت پسند گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں یہ دعوے سامنے آ رہے تھے کہ دونوں حملہ آوروں نے نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کی تھی۔
لیکن آسٹریلوی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ دونوں حملہ آوروں کا کسی بڑے شدت پسند نیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اُنھوں نے اپنے طور پر یہ قدم اُٹھایا۔
اتوار کو یہودی کمیونٹی کے تہوار حنوکا کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں کی شناخت ساجد اور نوید اکرم کے نام سے ہوئی ہے جو باپ بیٹا ہیں۔ منگل کو نیو ساؤتھ ویلز کے پولیس کمشنر میل لیون نے ان دونوں افراد کے فلپائن کے سفر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ اس دورے کا مقصد کیا تھا۔‘
ساجد کی موت جائے وقوعہ پر ہی ہو گئی تھی جبکہ نوید اکرم شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
انڈین پولیس کا کہنا ہے کہ ساجد اکرم کے پاس انڈین پاسپورٹ تھا اور ان کا تعلق حیدرآباد سے تھا مگر وہ 1998 میں آسٹریلیا منتقل ہو گئے تھے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ ساجد اکرم اور ان کے بیٹے نوید شدت پسندی کی طرف کیوں مائل ہوئے، اس کا ’انڈیا یا تلنگانہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آوروں کی گاڑی سے نام نہاد دولت اسلامیہ کا پرچم ملا تھا جبکہ آسٹریلوی حکام نے مبینہ طور پر 2019 میں نوید اکرم کے دولتِ اسلامیہ سے ممکنہ روابط کے بارے میں تفتیش کی تھی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ دولت اسلامیہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرے گی یا نہیں۔ تاہم دولت اسلامیہ کے حالیہ مہینوں میں کام کرنے کے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذمہ داری قبول کرنے کے معاملے میں زیادہ محتاط ہو چکی ہے۔
سڈنی حملے کے بعد دولت اسلامیہ کے حامی اکاؤنٹس نے فائرنگ کی خبریں شیئر کرتے ہوئے اس پر جشن منایا۔ کچھ صارفین نے حملہ آوروں کو ’شیر‘ قرار دیا۔ مگر کچھ صارفین، حملہ آوروں کی کسی شدت پسند تنظیم سے وابستگی کے بھی اندازے لگانے لگے اور قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ آیا داعش اس کی ذمہ داری قبول کرے گی یا نہیں۔
آسٹریلوی حکام نے مبینہ طور پر 2019 میں نوید اکرم کے دولتِ اسلامیہ سے ممکنہ روابط کے بارے میں تفتیش کی تھیدولت اسلامیہ سے متعلق قیاس آرائیاں
دولت اسلامیہ کے حامی افراد چیٹ گروپ ’راکٹ چیٹ‘ میں اس معاملے پر بحث کر رہے تھے کہ کیونکہ حملہ آوروں کی جانب سے داعش کے ساتھ وابستگی کی کوئی ویڈیو نہیں ہے۔ لہذا اس بات کا امکان کم ہے کہ داعش اس حملے کی ذمہ داری قبول کرے گی۔
کچھ افراد کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ سے داعش کا جھنڈا ملنا ہی یہ ثابت نہیں کرتا کہ حملہ آوروں کا تعلق داعش سے تھا۔
ایک صارف نے سڈنی کی صورتحال کا موازنہ نیو اورلینز میں نئے سال کے آغاز پر لوگوں کو گاڑی تلے کچلنے والے واقعے سے کیا۔ اس واقعے میں مقامی حکام کے مطابق ایک گاڑی سے ہجومپر ہونے والے حملے میں 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکی حکام کے مطابق ملزم کی شناخت شمس الدین جبار کے نام سے ہوئی تھی، شمس الدین کی گاڑی سے حکام کو نام نہاد دولت اسلامیہ کا جھنڈا بھی ملا تھا۔
داعش نے نیو اورلینز حملے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی تھی۔ داعش نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ حملہ آور محض داعش سے ’متاثرہ‘ تھا۔
چیٹ میں بعض افراد نے تجویز دی کہ سڈنی والے حملے کو بھی داعش کو اُسی انداز میں سنبھالنا چاہیے۔
اس نوعیت کے حملوں سے متعلق داعش کی پالیسی سے متعلق مزید بات کرنے سے پہلے یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک حملہ آور اب بھی زندہ ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
جن واقعات میں حملہ آور زندہ بچ جائے، عام طور پر داعش اس پر تبصرے یا اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔
اگر حملہ آور زندہ ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ داعش سے تعلق سے انکار کر دے اور کسی اور گروپ یا تنظیم سے اپنا تعلق ظاہر کر دے۔
یہ صورتحال داعش کے لیے سبکی کا باعث ہو گی اگر داعش نے پہلے ہی اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہو۔

کیا داعش کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے؟
دولتِ اسلامیہ اپنے دُشمنوں کے خلاف تشدد کو بھڑکانے کے لیے بدنام ہے۔ مغربی ممالک اور دیگر مقامات، جہاں شہریوں پر بھی حملے ہوئے ہی، وہاں بھی داعش کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات دیے جاتے رہے ہیں۔
داعش کی جانب سے جہادی سیریئل کلرز، مغربی ممالک میں حملہ کرنے والوں اور یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔
ماضی میں داعش کسی انفرادی سطحیا ’لون وولف‘ کے طور پر کی جانے والی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔ خاص طور پر ایسے افراد جنھوں نے کھلے عام داعش سے وابستگی کا اظہار کیا ہو۔
لیکن، چند برسوں میں اس گروپ نے خاص طور پر اس طرح کے ہائی پروفائل حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا ہے۔
اس عرصے کے دوران گروپ کی جانب سے یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ اب اس کا نظریہ اس حد تک اثر دکھا چکا ہے کہ ہر کوئی اس کے نام سے حملہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ لہذا داعش کا اثر نمایاں ہو رہا ہے اور اب اسے یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ یہ حملہ داعش نے کرایا ہے۔
اس طرح کے حملے میں ہر مرتبہ داعش پر اُنگلیاں اُٹھتی ہیں۔ یہ اس تنظیم کے نزدیک اس کا اثر و رسوخ ظاہر کرتا ہے اور اس سے دُشمنوں میں خوف پھیلتا ہے۔ لہذا داعش کی منطق ہے کہ اس کے نظریے نے اپنا کام کر دیا ہے۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کا اب ایک خاص معیار ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ایک خاص طرح کا ابہام رکھ کر گروپ خوف پھیلانا چاہتا ہے کہ اس کی جانب سے کی گئی اشتعال انگیزی اور پیغام رسانی زیادہ تباہ کن ہے اور اس کا زیادہ اثر ہو رہا ہے۔
اس سے گروپ حملہ آوروں کے ساتھ براہ راست تعلق سے بھی بچ جاتا ہے، جن کا پس منظر غیر مستحکم یا ناقابلِ اعتبار ہو سکتا ہے۔