یہ 9 دسمبر کی ایک سرد صبح تھی اور انڈیا میں ہیروں کے ایک دفتر کے باہر زیادہ ہلچل بھی نہیں تھی۔ مگر ہاتھ میں کاغذ کی کئی تہوں میں لپٹا ایک چھوٹا سا پیکٹ تھامے ساجد محمد اور ستیش کھٹیک کے لیے یہ کوئی معمولی دن نہیں تھا۔ ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔
یہ 9 دسمبر کی ایک سرد صبح تھی اور انڈیا میں ہیروں کے ایک دفتر کے باہر زیادہ ہلچل بھی نہیں تھی۔ مگر ہاتھ میں کاغذ کی کئی تہوں میں لپٹا ایک چھوٹا سا پیکٹ تھامے ساجد محمد اور ستیش کھٹیک کے لیے یہ کوئی معمولی دن نہیں تھا۔ ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔
ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع پنا میں ان کے پاس موجود پیکج میں ایک ہیرا تھا۔
پنا کے ہیرے کے دفتر میں تعینات ایک سرکاری ماہر انوپم سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ستیش اور ساجد کو جو ہیرا ملا تھا وہ 15.34 قیراط کا ہے جس کی مالیت تقریباً 50 سے 60 لاکھ ہے۔
ساجد پھلوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے مالک ہیں جبکہ ان کے دوست ستیش گوشت کی دکان چلاتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ساجد نے بتایا کہ ’جب آپ کو کوئی ہیرا ملتا ہے تو آپ کو خود بخود سمجھ آ جاتا ہے۔ اس کی چمک بجلی کی طرح ہوتی ہے۔ یہ سوچ کر کہ آپ کو ہیرا ملا ہے، آپ کے جسم میں جھرجھری سی پیدا ہو جاتی ہے۔‘
اُس لمحے کو یاد کرتے ہوئے جب انھیں ہیرا ملا تھا، ستیش کہتے ہیں، ’ہمیں اتنی جلدی اتنی بڑی دولت ملنے کی کبھی امید نہیں تھی۔ اب ہم اپنی بہنوں کی شادی اچھی طرح سے کر سکیں گے۔‘
انڈیا میں ’ڈائمنڈ سٹی‘
مدھیہ پردیش کے شہر پنا کو انڈیا میں 'ڈائمنڈ سٹی' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن شہر کی اس شناخت کے پیچھے غربت اور روزگار کی کمی کی ایک لمبی داستان ہے۔
یہاں کان کنی محض کام نہیں بلکہ امید اور غیر یقینی کے درمیان لیا جانے والا فیصلہ ہے۔ ساجد اور ستیش نے بھی اچھے دنوں کی امید میں یہی راستہ اختیار کیا۔
جہاں بہت سے لوگوں کی پوری زندگی ہیرا تلاش کرنے میں گزر جاتی ہے وہیں ان دونوں دوستوں کو صرف 20 دنوں کی محنت کے بعد یہ کامیابی حاصل ہو گئی۔
ساجد اور ستیش بچپن کے دوست ہیں اور ان کی زندگی بھی کم و بیش ایک جیسی ہی ہے۔
دونوں کے پنا کے رانی گنج علاقے کے رہائشی ہیں اور یہاں کے جئی دیگر باسیوں کی طرح ان دونوں کی پچھلی نسلوں نے اپنی زندگی ہیروں کی تلاش میں گزار دی تھی۔
ساجد کہتے ہیں کہ 'ہمارے والد اور دادا نے بھی برسوں زمین کھودی لیکن انھیں کبھی ہیرا نہیں ملا۔'
ستیش کے خاندان کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔
لیکن ماضی کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود بڑھتے ہوئے گھریلو اخراجات اور بہنوں کی شادیوں کی پریشانی کی وجہ سے دونوں دوستوں نے اپنے آباؤ اجداد کی طرح نومبر میں بیلچہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
پنا میں رہنے والوں کے نقطہ نظر سے ان دونوں کا یہ فیصلہ بالکل بھی حیران کن نہیں تھا۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں سینکڑوں خاندان نسلوں سے ہیروں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں، دو نوجوان دوستوں کا یہ فیصلہ بالکل بھی حیران کن نہیں تھا لیکن 20 دنوں میں ہی ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا ہے۔
پنا میں ہیروں کی کھوج
پنا میں کوئی بھی شخص ریاستی حکومت سے آٹھ مربع میٹر زمین محض 200 انڈین روپے سالانہ پر لیز پر لے کر قانونی طور پر ایک سال کے لیے وہاں ہیروں کی کان کنی کر سکتا ہے۔
تاہم اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آپ کو ہیرا ملے گا۔
ساجد اور ستیش نے اسی طرح زمین حکومت سے لیز پر لی اور کھدائی شروع کی۔ تقریباً 20 دن کی محنت کے بعد 8 دسمبر کی صبح انھیں وہ پتھر مل گیا جو ان کی زندگی کا رُخ بدل سکتا تھا۔
جب اگلے دن وہ اپنی کھوج لے کر پنا کے ہیروں کے دفتر پہنچے تو وہاں اس کی جانچ کی گئی۔ اس کا وزن 15.34 قیراط تھا۔ اور ماہرین کے مطابق یہ جواہرات کے معیار کا ہیرا ہے۔
جب انوپم سنگھ سے اس کی قیمت کے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہیرے کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں پر منحصر ہے اس لیے اس کی درست قیمت بتانا مشکل ہے۔ 'تآہم موجودہ اندازوں کے مطابق اس کی قیمت 50 سے 60 لاکھ انڈین روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔'
ان کے مطابق پنا میں اب تک کا سب سے مہنگا ہیرا سال 18-2017 میں موتی لال پرجاپتی کو ملا تھا۔
انوپم سنگھ کا کہنا ہے کہ اس ہیرے کا وزن 42.58 قیراط تھا اور وہ چھ لاکھ فی قیراط کے حساب سے نیلام ہوا تھا۔ اس ہیرے کی کل قیمت ڈھائی کروڑ سے زیادہ تھی۔
انوپم سنگھ سے جب نیلامی میں فروخت نہ ہونے والے ہیروں کے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ہیرے پانچ نیلامیوں تک میں فروخت ہو جاتے ہیں۔
ان کے مطابق اگر کوئی ہیرا پانچ نیلامیوں میں بھی فروخت نہیں ہوتا تو جس شخص کو وہ ہیرا ملا ہوتا وہ حکومت کو مقررہ رائلٹی ادا کر کے اسے واپس لے سکتا ہے اور پھر اسے نجی بازار میں فروخت کر سکتا ہے۔
حکومت نیلامی سے حاصل ہونے والی کل رقم کا 12 فیصد اپنے پاس رکھتی ہے جبکہ باقی رقم ہیرا تلاش کرنے والوں کے پاس جاتی ہے۔
’پہلی بار لگ رہا ہے جیسے زندگی بدلنے والی ہے‘
ساجد اور ستیش کی بہنوں کا کہنا ہے کہ انھیں پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ان کی زندگی بدلنے والی ہے۔
ان کے بھائیوں کے مطابق یہ رقم تصور سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ان کی ماہانہ آمدنی چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں۔
ساجد کی بہن صبا بانو کا کہنا ہے کہ ہیرے کی خبر پہلی بار خاندان میں نئی امید لے کر آئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میرے والد اور دادا کو اتنی کامیابی کبھی نہیں ملی۔ میرے بھائی اور ستیش نے کہا ہے کہ وہ ہماری شادیاں کروائیں گے۔ ہمارا پورا خاندان خوش ہے۔'
ساجد اور ستیش کہتے ہیں جس روز انھیں ہیرا ملا وہ پوری رات سو نہیں سکے۔ ان کے پیسوں سے زیادہ محفوظ مستقبل، اپنی بہنوں کی شادی، گھر اور استحکام زیادہ ضروری تھے۔
ستیش کہتے ہیں کہ یہاں علاقے میں اور کئی کام نہیں اس لیے بیشتر لوگ کن کنی میں اپنی قسمت آماتے ہیں اور کئی لوگوں کی قسمت بدلتی بھی ہے۔