انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو شمال مشرقی ریاست منی پور میں جاری تشدد پر حزب اختلاف کے ساتھ تعطل کے درمیان پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو شمال مشرقی ریاست منی پور میں جاری تشدد پر حزب اختلاف کے ساتھ تعطل کے درمیان پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اپوزیشن کانگریس پارٹی کے ایک قانون ساز نے بدھ کو مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ عدم اعتماد لانے کا مقصد انڈین وزیراعظم کو منی پور کے اہم معاملے پر بولنے پر مجبور کرنا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں بہت عرصے سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ نریندر مودی منی پور میں نسلی بنیادوں پر ہونے والے تصادم کے معاملے پر پارلیمان میں خطاب کریں تاہم بوجوہ مودی ایسا کرنے سے گریزاں ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے رواں ہفتے کے شروع میں لوک سبھا (پارلیمان کے ایوان زیریں) کو بتایا کہ حکومت منی پور میں ہونے والے تشدد پر بات کرنے کے لیے تیار ہے لیکن انھوں نے حزب اختلاف پر اسے روکنے کا الزام عائد کیا تھا۔
شمال مشرقی ریاست میں اکثریتی میتی برادری اور قبائلی کوکی اقلیت کے درمیان تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد مئی کے اوائل سے اب تک کم از کم 130 افراد ہلاک اور دسیوں ہزار بے گھر ہو چکے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں دو خواتین کو ایک ہجوم کے ہاتھوں برہنہ پریڈ کراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر عالمی سطح پر غم و غصہ کا اظہار اور مذمت کی گئی تھی۔
اس ویڈیو نے مسٹر مودی کو بھی اس معاملے پر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کیا تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ اس واقعے نے ’بھارت کو شرمندہ کر دیا‘ اور یہ کہ حملہ آوروں کو بخشا نہیں جائے گا۔
سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب مسٹر مودی کی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے۔
سنہ 2018 میں ایک قانون ساز نے ریاست کو خصوصی زمرے کا درجہ دینے کے معاملے پر تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جسے پارلیمان میں ہونے والی 12 گھنٹوں کی بحث کے بعد ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انڈین قانون کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک صرف لوک سبھا میں پیش کی جا سکتی ہے اور اسے اس صورت میں قبول کیا جاتا ہے جب اگر کم از کم 50 قانون ساز اس کی حمایت کریں۔
ایک بار قبول ہونے کے بعد سپیکر 10 دنوں کے اندر ووٹنگ کی تاریخ کا اعلان کرتا ہے۔
اگر حکومت اپنی اکثریت ثابت نہ کر سکے تو اسے مستعفی ہونا پڑتا ہے۔
بدھ کو حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس پارٹی اور بھارت راشٹر سمیتی کے اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے دو تحریکیں پیش کی گئیں جس میں سے پہلی کو قبول کر لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
انڈین فوج کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی ’منی پور کی مائیں‘
منی پور میں ایک ماہ سے جاری پُرتشدد واقعات پر ’مودی کی خاموشی سے لوگ مایوس‘
سپیکر اوم برلا نے کہا کہ وہ تمام جماعتوں کے قائدین سے بات کرنے کے بعد بحث کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
مسٹر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اعتماد کے ووٹ میں شکست کی فکر نہیں ہو گی کیونکہ پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو 543 رکنی لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہے۔
لیکن وزیر اعظم کو اپنی حکومت کے دفاع کے لیے بات کرنے کی ضرورت ہو گی اور بظاہر حزب اختلاف کا یہی مقصد ہے۔
راشٹریہ جنتا دل کے ایک رہنما منوج جھا نے بدھ کو کہا: ’ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ نمبر ہمارے حق میں نہیں ہیں، لیکن یہ تعداد کے بارے میں نہیں ہے، وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے بعد پارلیمنٹ میں بولنا ہی پڑے گا۔‘
کانگریس لیڈر مانیکم ٹیگور نے کہا کہ اپوزیشن کو ’تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ ان کے پاس یہی آخری حربہ بچا تھا۔‘