جادو ٹونے کے الزام میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو قتل کرنے کا واقعہ جس نے پورے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا

انڈیا کی شمالی ریاست بہار میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو سفاکی سے قتل کر کے مبینہ طور پر زندہ جلانے کے واقعے کو تین ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن اس سانحے سے بچ جانے والے افراد ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔
اس واقعے کے بعد سے گاؤں کی گلیوں میں سنّاٹا چھایا ہوا ہے۔ کچھ گھروں پر تالے لگے ہیں جبکہ کچھ ایسے دکھتے ہیں جیسے انتہائی افراتفری میں چھوڑے گئے ہوں۔
BBC
اس واقعے کے بعد سے گاؤں کی گلیوں میں سنّاٹا چھایا ہوا ہے۔ کچھ گھروں پر تالے لگے ہیں جبکہ کچھ ایسے دکھتے ہیں جیسے انتہائی افراتفری میں چھوڑے گئے ہوں۔

انتباہ: اس کہانی میں کچھ ایسے مناظر اور تفصیلات شامل ہیں جو بعض لوگوں کے لیے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔

انڈیا کی شمالی ریاست بہار میں ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو سفاکی سے قتل کرکے مبینہ طور پر زندہ جلانے کے واقعے کو تین ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن اس سانحے سے بچ جانے والے افراد ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے۔

بہار کے ٹیٹگاما گاؤں کی منیشا دیوی (فرضی نام) کے لیے 6 جولائی کی رات ان کی زندگی کی سب سے خوفناک رات تھی۔

اس رات تقریباً 10 بجے ایک مشتعل ہجوم ان کے رشتہ داروں کے گھر کے باہر جمع ہوا اور صبح ہونے تک پانچ افراد مارے جا چکے تھے، جن میں ایک 71 سالہ بیوہ کاٹو اوراؤں بھی شامل تھیں۔

بہار میں پیش آنے والا یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق سنہ 2000 سے 2016 کے درمیان انڈیا میں جادو ٹونے کے شبہے میں 2500 سے زائد افراد مار دیے گئے۔ مرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔

لیکن ٹیٹگاما کے اس واقعے کی شدت اس لیے زیادہ ہے کہ ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو اکٹھے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

سماجی کارکنوں کے مطابق انڈیا کی پسماندہ قبائلی برادریوں میں جادو ٹونے اور توہم پرستی پر یقین آج بھی عام ہے، جن میں بہار کے حالیہ واقعے میں ملوث قبائل بھی شامل ہیں۔

مبینہ قاتل اور مقتول سبھی اوراؤں قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور نسلوں سے ساتھ رہ رہے تھے۔ لیکن 6 جولائی کی رات جو کچھ ہوا اس نے ان کے درمیان ایسی دراڑ ڈال دی ہے جو بظاہر جلد بھرنے والی نہیں۔

اس واقعے کے بعد سے ٹیٹگاما کی گلیوں میں سنّاٹا چھایا ہوا ہے۔ سوائے کاٹو دیوی کے چار بیٹوں اور ان کے خاندانوں کے، باقی تمام لوگ گاؤں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کچھ گھروں پر تالے لگے ہیں جبکہ کچھ ایسے لگتے ہیں جیسے انتہائی افراتفری میں چھوڑے گئے ہوں۔

بابو لال اوراؤں کا گھر جو اب سونا پڑا ہے
BBC
بابو لال اوراؤں کا گھر جو اب سونا پڑا ہے

اس رات کیا ہوا؟

بی بی سی نے مقتولین کے رشتہ داروں، پولیس اور حکام سے بات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اُس رات کیا ہوا تھا۔

منیشا دیوی کہتی ہیں کہ انھوں نے شور سنا اور ببلو اوراؤں کے گھر کے باہر بھیڑ دیکھی۔ ببلو کاٹو کے پانچ بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا تھا اور قریبی گھر میں رہتا تھا۔

ببلو اوراؤں، ان کی بیوی سیتا دیوی، ان کا بیٹا منجیت اور بہو رانی دیوی اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا جو ابھی نوعمر ہے، وہ گھر کا واحد زندہ بچ جانے والا فرد ہے۔

پولیس کی ابتدائی رپورٹ (ایف آئی آر) میں ایک دیہاتی رام دیو اوراؤں کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ آن لائن دستیاب ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ رام دیو کا بیٹا تقریباً دس دن پہلے بیمار ہو کر مر گیا تھا اور انھوں نے مبینہ طور پر کاٹو دیوی اور ان کے خاندان پر جادو ٹونے کے ذریعے اپنے بیٹے کو مارنے کا الزام لگایا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ اس کی بنیاد کیا تھی۔

پولیس کے مطابق رام دیو فرار ہے اور اس کی تلاش جاری ہے۔

قتل کی رات رام دیو مبینہ طور پر اپنے بھتیجے، کو جو بہت بیمار لگ رہا تھا، مقتولین کے گھر لایا۔

منیشا دیوی کہتی ہیں کہ انھوں نے اس نوجوان کو زمین پر پڑا دیکھا اور ایک عامل کو کچھ عمل کرتے اور منتر پڑھتے دیکھا۔

منیشا دیوی، ایک اور رشتہ دار اور واحد بچ جانے والے نوجوان نے پولیس کو اپنی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ عامل نے ’کاٹو دیوی اور ببلو کی بیوی سیتا دیوی کو ڈائن قرار دیا اور انھیں رام دیو کے خاندان کی بیماری اور موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔‘

منیشا نے بتایا: ’کاٹو کو گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور کہا گیا کہ اسے بیمار لڑکے کو آدھے گھنٹے میں ٹھیک کرنا ہو گا۔‘

سیتا دیوی جو اس وقت اپنے میکے گئی ہوئی تھیں، کو پیغام بھیجا گیا کہ اگر وہ اپنے خاندان کو زندہ دیکھنا چاہتی ہیں تو فوراً واپس آئیں۔‘

رانی دیوی نے جس طرح بستر لگایا تھا جوں کا توں لگا ہوا ہے
BBC
رانی دیوی نے جس طرح بستر لگایا تھا جوں کا توں لگا ہوا ہے

چشم دید گواہ

واقعے کی چشم دید گواہ ایک دوسری رشتہ دار کے مطابق کاٹو نے گاؤں والوں سے فریاد کی کہ وہ عقل سے کام لیں، لیکن ہجوم مزید مشتعل ہوتا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’جب ببلو اور منجیت نے مداخلت کی کوشش کی تو ہجوم نے ان پر بھی حملہ کر دیا۔ جب رانی دیوی نے اپنے شوہر کو بچانے کی کوشش کی تو انھیں بھی مارا پیٹا گیا۔ جب سیتا دیوی اپنے بیٹے کے ساتھ واپس آئیں، تو ان پر بھی حملہ کیا گیا۔‘

بعد میں اس نوجوان نے پولیس کو بتایا کہ وہ کسی طرح بھاگ کر اندھیرے میں چھپنے میں کامیاب ہو گیا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کے خاندان والوں کو مار کر آگ لگا دی گئی۔

پولیس شکایت میں گاؤں کے 23 مردوں اور عورتوں کے نام شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ’150 سے 200 نامعلوم افراد‘ کا بھی ذکر ہے جو ہجوم کا حصہ تھے۔

شکایت میں کہا گيا ہے کہ ’ہجوم کے پاس لاٹھیاں، لوہے کے راڈ اور تیز دھار ہتھیار تھے۔ انھوں نے تمام پانچ مقتولین کو رسی سے باندھا اور گاؤں کے تالاب تک گھسیٹتے ہوئے لے گئے، راستے میں انھیں مارا پیٹا گیا اور انھیں گالیاں دی جاتی رہیں۔‘

شکایت کے مطابق جب متاثرین پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی تب وہ ’نیم مردہ حالت میں تھے‘ پھر ان کی لاشوں کو بوریوں میں بند کرکے ٹریکٹر پر لے جایا گیا۔

ایک سینیئر پولیس افسر نے اگلے دن صحافیوں کو بتایا کہ متاثرین کو زندہ جلایا گیا اور ان کی جھلسی ہوئی لاشیں گاؤں کے قریب تالاب سے برآمد ہوئی ہیں۔

ضلع مجسٹریٹ انشُل کمار نے بھی ابتدا میں کہا تھا کہ پانچوں کو زندہ جلایا گیا۔ لیکن حال ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اس بارے میں حتمی رائے نہیں دیتی۔

انھوں نے کہا: ’رپورٹ میں جلنے اور تشدد کے نشانات موجود ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ موت آگ لگنے سے ہوئی یا لاشوں کو بعد میں جلایا گیا۔‘

حیران کن طور پر یہ ساری رات جاری رہنے والا تشدد مضافاتی پولیس سٹیشن سے صرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔

کمار کا کہنا تھا کہ پولیس کو ہجوم کے جمع ہونے کے 11 گھنٹے بعد واقعے کی اطلاع ملی اور انھوں نے اعتراف کیا کہ ’کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہی تھی‘ اور ’یہ ہماری ناکامی تھی‘ لیکن تاخیر کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’پورا سماج اس میں ملوث تھا۔‘

وہ جگہ جہاں پانچوں افراد کو '‍زندہ جلا دیا گيا'
BBC
وہ جگہ جہاں پانچوں افراد کو ’زندہ جلا دیا گيا‘

واقعے کے بعد متعلقہ پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ان کی جگہ آنے والے افسر سدین رام نے بی بی سی کو بتایا کہ چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں تانترک یعنی عامل بھی شامل ہے۔ باقی ملزمان مفرور ہیں۔

سدین رام نے بتایا: ’ہم نے ایف آئی آر میں غیرقانونی اجتماع، ہنگامہ آرائی، خطرناک ہتھیاروں سے شدید نقصان پہنچانے، غیرقانونی قید، ہجوم کے ہاتھوں قتل اور جرم کے شواہد مٹانے سے متعلق دفعات لاگو کی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ مجرموں کو عمر قید یا سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔

بی بی سی کی نہ تو زیرِ حراست تانترک سے بات ہو سکی ہے اور نہ ہی رام دیو سے، جو کہ ابھی تک مفرور ہیں اور ان کا کوئی اتا پتا نہیں چل سکا۔

پولیس افسر کمار نے بتایا کہ واحد زندہ بچنے والے نوجوان کو محفوظ مقام پر حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے اور اسے مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’آہستہ آہستہ صحتیاب ہو رہا ہے۔‘

ان کے بھائی جو حملے کے وقت باہر مزدوری پر گئے ہوئے تھے، کو امداد دی جا رہی ہے۔ فی الحال وہ قریبی گاؤں میں رشتہ داروں کے ساتھ مقیم ہیں۔

ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم اس ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن کمار کا کہنا ہے کہ یہ سب توہم پرستی سے جنم لینے والے ہسٹیریا (جنون) کا نتیجہ تھا جس نے ہجوم کو قتل پر آمادہ کیا۔

حکام کے مطابق اس علاقے میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور اس سے پہلے جادو ٹونے سے متعلق کوئی بھی مقدمہ درج نہیں ہوا۔

تاہم مقامی سماجی کارکن میرا دیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ قبائلی گاؤں میں تعلیم کی کمی ہے اور لوگ ڈاکٹروں یا دوائیوں کے بجائے عاملوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔

گاؤں کی پنچایت کے سربراہ سنتوش سنگھ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بچے سکول جانے کے بجائے اپنے والدین کے ساتھ قریبی اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔ ایک مقامی ٹیچر اندرآنند چودھری نے تصدیق کی کہ صرف تین بچے سکول میں داخل ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سکول نہیں آتا۔

ٹیٹگاما ریاست بہار کے پورنیہ شہر سے 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قبائلی گاؤں ہے اور یہ کل 22 خاندانوں پر مشتمل ہے۔

چاول کے کھیتوں کے پار ایک جل چکے مکئی کے کھیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک گاؤں والے نے بتایا کہ ’یہی وہ مقام ہے جہاں 6 جولائی کا المیہ پیش آیا۔‘

تنگ کچے راستے مقتولین کے گھروں تک جاتے ہیں۔ ببلو اوراؤں کی دو کمروں کی جھونپڑی جو مکئی کی چھلیوں، بانس اور مٹی سے بنی ہے، وہاں وقت جیسے تھم گیا ہو۔

اس کمرے میں جہاں منجیت اور اس کی نئی نویلی دلہن رانی دیوی سوتے تھے، بستر اب بھی قرینے سے لگا ہوا ہے، سفید چادر بچھی ہے اور مچھر دانی سلیقے سے تہہ کی گئی ہے۔

منیشا دیوی اپنے گھر کے باہر بیٹھی ہیں، اُس بے معنی قتل عام کی یادوں کے ساتھ جو انھوں نے اور دوسروں نے اُس رات اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

گاؤں کے ایک شخص نے کہا: ’ہم بے بس کھڑے تھے اور متاثرین کو اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے دیکھ رہے تھے۔ وہ منظر آج بھی ہمارا پیچھا کرتا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow