خیبر کی علی مسجد میں دھماکہ کرنے والا خودکش بمبار کون تھا؟

image

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں واقع علی مسجد میں 25 جولائی کو پولیس سرچ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی ہلاک ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد حملہ آور کے قریبی ساتھی اور سہولت کار ابوذر عرف عبدالعزیز کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا جن کے مطابق حملہ آور افغان طالبان کا سپاہی تھا۔

خودکش حملہ آور کے مبینہ سہولت کار ابوذر 22 سالہ نوجوان ہیں جس کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے ہے۔

ابوذر کا کہنا ہے کہ وہ مدرسے میں آٹھویں درجے کا طالب علم ہے اور اس کے والد اور گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وہ ٹی ٹی پی کے لیے کام کرتے ہیں۔

خیبرپختونخوا کاونٹرٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے ڈی آئی جی خالد سہیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ علی مسجد حملے کے سہولت کار ابوذر سمیت آٹھ ملزمان گرفتار کئے جا چکے ہیں۔

ان کے مطابق ابوذر کی گرفتاری کے بعد اس سے ایک خودکش جیکٹ بھی برآمد کیا گیا ہے۔ ’مجموعی طور پر اس کارروائی میں دو عدد کلاشنکوف، ایک عدد ایم فور رائفل، ایک خود کش جیکٹ، ایک پستول، مختلف بور کے کارتوس، آئی ای ڈی بنانے کے سامان سمیت مختلف دستاویزات برآمد کیے گئے ہیں۔‘

خود کش حملہ اور کون تھا؟ابوذر کے مطابق حملہ آور کا نام انصار تھا جو افغانستان سے 22 جولائی کو غیر قانونی طریقے سے لنڈی کوتل داخل ہوا تھا۔ ان کے مطابق انصار کی عمر 22 سال تھی اور وہ افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ بطور سپاہی نوکری کرتا تھا۔

ابوذر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ خودکش حملہ آور کی 20 دن بعد شادی تھی لیکن وہ تنظیم کی ہدایت پر خودکش حملہ کرنے خیبر پہنچ گیا۔

ڈی آئی جی سہیل خالد کا کہنا ہے کہ علی مسجد حملے کے بعد ٹی ٹی پی نے اس کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا جو کہ جھوٹا ثابت ہوا۔

خود کش دھماکے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)پولیس افسر کے مطابق اس حملے کے پیچھے ٹی ٹی پی ہی تھا جس کی گواہی ان کے گرفتار کارندے خود دے رہے ہیں۔

خودکش حملہ آور کا ٹارگٹ کون تھا؟مبینہ سہولت کار کے مطابق 25 جولائی کو وہ انصار کو لیکر سلطان خیل سے کیری ڈبہ گاڑی میں علی مسجد کی جانب گئے۔

’علی مسجد پہنچتے ہی مقامی لوگوں کا ہم پرشک ہوا اور انہوں نے ہم پر فائرنگ کردی۔ میں بھاگ کر آگے نکل گیا اور انصار مسجد کے اندر چلا گیا۔ مجھے مقامی لوگوں نے پکڑ لیا جبکہ انصار نے مسجد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘

مبینہ سہولت کار کے مطابق حملہ آور کا ٹارگٹ پولیس کا موبائل تھا مگر مقامی لوگوں کو ان پر شک ہوا جس کے نتیجے میں وہ ہدف تک نہ پہنچ سکے۔

افغانستان میں دہشت گردوں سے کیسے رابطہ ہوا؟ابوذر کے مطابق ان کا تعلق افغان طالبان سے تھا لیکن جب گذشتہ سال جنوری میں کاشف نامی لڑکے سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے ٹی ٹی پی جوائن کرنے کی دعوت دی اور میں نے شمولیت اختیار کرلی۔

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق لنڈی کوتل میں ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں ٹی ٹی پی ملوث ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)ابوذر کے مطابق ان کے بیشتر ساتھی پہلے افغان طالبان کے ساتھ تھے جو اب ٹی ٹی پی کے لیے کام کر رہے ہیں ۔

واضح رہے کہ 25 جولائی کو علی مسجد کے قریب مشکوک افراد کی اطلاع پر ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی نے خودکش حملہ آور کو گھیر لیا تھا جو بھاگ کر مسجد میں چھپ گیا تھا۔ جب ایڈیشنل ایس ایچ او سرچ کے لیے مسجد کے قریب پہنچا تو خودکش بمبار نے دھماکے سے خود کو اڑا دیا تھا جس میں عدنان آفریدی ہلاک اور علی مسجد مکمل منہدم ہوئی تھی۔

اس واقعہ کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے مسجد دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق لنڈی کوتل میں ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں ٹی ٹی پی ملوث ہے۔  

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US