چین میں مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے عالمی سطح پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟

چین ایسی بہت سی چیزیں تیار کرتا ہے جسے وہ پوری دنیا میں فروخت کرتا ہے۔ اگر چین میں چیزوں کی قیمتیں نیچے آتی ہیں تو یہ بعض ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جو چین سے اشیا خریدتے ہیں کیونکہ اس سے ان کا درآمدی بل کم ہو جائے گا۔
شی جنپنگ
Getty Images

چین کی معیشت کو ایک نئے قسم کے مسئلے کا سامنا ہے۔ گذشتہ دو سالوں میں پہلی بار ملک میں اشیا کی قیمتیں معمول سے کم رہی ہیں۔

مہنگائی کی پیمائش کرنے والے کنزیومر انڈیکس کے مطابق گذشتہ ماہ جولائی میں چیزوں کی قیمتوں میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 0.3 فیصد کی کمی دیکھی گئی ہے۔

ملک تفریط زر کی صورت حال سے دوچار ہے۔ تفریط زر اس وقت ہوتا ہے جب مارکیٹ میں اشیا کی مانگ کم ہو جاتی ہے۔ یہ دو صورتوں میں ہوتا ہے: یا تو پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو یا صارف پیسہ خرچ کرنے کی حالت میں نہ ہو یا خرچ نہ کرنا چاہتا ہو۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صورت حال میں چین پر مارکیٹ میں مانگ بڑھانے اور مقامی مارکیٹ میں استحکام لانے کا دباؤ ہے۔

اس سے قبل 8 اگست کو چین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ گذشتہ ماہ ملک کی درآمدات اور برآمدات دونوں ہی کم رہیں۔

اس کے بعد یہ سوال اٹھنے لگے کہ کیا کووڈ وبا کے بعد ملک کی معیشت اس رفتار سے نہیں ابھر رہی ہے جس رفتار سے توقع کی جا رہی تھی؟

یا یہ چین کی طرف سے حالیہ دنوں میں اقتصادی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں لانے کی اختیار کردہ پالیسی کا نتیجہ ہے؟

اگر سستی چینی اشیا عالمی منڈی میں پہنچیں تو دیگر ممالک کی کمپنیاں متاثر ہوں گی۔ اس کی وجہ سے کئی ممالک میں بے روزگاری بڑھے گی۔

اس سے کمپنیوں کے منافع پر بھی اثر پڑے گا۔

چین کو درپیش چیلنجز

کووڈ کی وبا سے نمٹنے کے لیے چین نے 2020 میں بہت سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔ دنیا کے تمام ممالک وبا کے اثر سے باہر نکل آئے اور آہستہ آہستہ حالات معمول پر آنے لگے لیکن چین کی معیشت ابھی بھی بحران سے نبرد آزما ہے۔

ایک جانب وبا کی وجہ سے سپلائی چین تعطل کا شکار ہوا تھا اور چین کی مقامی مارکیٹ تقریباً رُک سی گئی تھی۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر امریکہ سمیت کچھ دوسرے ممالک چین کے ساتھ تجارتی تعلقات توڑنے کی باتیں کر رہے تھے۔

منگل کو حکام نے ملک کے امپورٹ ایکسپورٹ سے متعلق ڈیٹا جاری کیا۔ اس کے مطابق گذشتہ سال جولائی کے مقابلے رواں سال جولائی میں چین کی برآمدات میں 14.5 فیصد جبکہ درآمدات میں 12.4 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

چین میں مقامی حکومتیں قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں، ریگولیٹرز کرپشن روکنے کے لیے کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے روزگاری ریکارڈ سطح پر ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار تشویش کا باعث ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ صورتحال مزید کچھ عرصے تک جاری رہی تو رواں سال چین کی اقتصادی ترقی کی شرح کم ہو سکتی ہے۔ ملک میں اخراجات پہلے ہی کم ہیں جس کی وجہ سے پیداوار بھی کم ہو سکتی ہے اور یوں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت چین کو ملکی سطح پر بھی ہلچل کا سامنا ہے۔

اس کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کچھ عرصے سے مشکلات میں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی ایورگرینڈ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے اور حکومت اس شعبے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

کووڈ کی وبا کے بعد سنہ 2020 میں چین کی تقریباً مستحکم شرح نمو تیزی سے گرنے لگی اور شرح ترقی 6.0 سے گر کر 2.2 پر رک گئی۔ اس کے بعد اس کی معیشت میں تیزی آئی اور 2021 میں یہ 8.4 تک پہنچ گئی۔

عالمی بینک کے مطابق گذشتہ سال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو درآمدات اور برآمدات دونوں میں کمی کی وجہ سے ملک کی شرح نمو 3 پر آگئی ہے جو 1976 کے بعد سب سے کم تھی (سوائے کووڈ وبا کے سال)۔

ٹریڈنگ اکنامکس کے مطابق چین نے جون 2023 میں 285.32 بلین امریکی ڈالر کی برآمدات کی تھیں جو جولائی میں کم ہو کر 281.76 بلین ڈالر رہ گئیں جبکہ جون میں درآمدات 214.70 بلین ڈالر تھیں جو جولائی میں 201.16 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔

چین میں کیا ہوا، اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

کووڈ کی وبا کے بعد زیادہ تر ممالک نے پابندیاں ہٹا دیں اور جن صارفین نے اب تک اپنا خرچ روک رکھا تھا، وہ خرچ کرنے لگے۔ مارکیٹ میں ڈیمانڈ بڑھنے لگی اور کمپنیاں ڈیمانڈ کی سپلائی کرنے لگیں۔

ادھر یوکرین پر روس کے حملے اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے درمیان بہت سی چیزوں کی مانگ تیزی سے بڑھنے لگی جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھنے لگی۔

لیکن چین میں ایسا نہیں ہوا۔ چین میں جب معیشت کووڈ کی وبا سے باہر آئی تو اس نے کچھ عرصے تک تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی، لیکن پھر چیزوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا نظر نہیں آیا۔ فروری 2021 میں کنزیومر انڈیکس گر گیا۔ ڈیمانڈ گرتی رہی اور رواں سال کے آغاز تک حالات اتنے خراب ہو گئے کہ کمپنیوں کے لیے پیداواری لاگت بھی پوری کرنا مشکل ہو گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے چین کے سامنے کم شرح نمو جیسے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔

چینی حکومت بار بار یہ عندیہ دے رہی ہے کہ معیشت کنٹرول میں ہے لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک حکومت نے معاشی نمو بڑھانے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کیا ہے۔

سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی ای ایف جی ایسٹ مینجمنٹ کے ڈینیئل مرے نے بی بی سی کو بتایا کہ 'مہنگائی بڑھانے کی کوئی خاص دوا نہیں ہے۔ حکومت کو اپنی اقتصادی پالیسی میں حکومتی اخراجات میں اضافہ، ٹیکسوں میں کمی جیسے اقدامات کا مجموعہ لانا ہوگا۔'

دہلی میں قائم فور سکول آف مینجمنٹ میں چین کے امور کے ماہر پروفیسر فیصل احمد کہتے ہیں کہ اسے دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’پہلا یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ چین کساد بازاری کی طرف جا رہا ہے، اور دوسرا یہ کہ کیا کہیں چین نے جان بوجھ کر کسی پالیسی کے تحت تو ایسا نہیں کیا ہے۔

'ہم کووڈ کے بعد معیشت میں سست روی کو سمجھ رہے ہیں، لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ 2020 میں جب انڈیا ’خود انحصار بھارت‘ کی بات کر رہا تھا تو اس وقت چین ڈوئل سرکولیشن پالیسی لایا تھا۔‘

اس نئی پالیسی کے حوالے سے چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین بیرونی ممالک پر اپنا انحصار کم کرے گا۔ حکومت ملک کے اندر ڈیمانڈ بڑھانے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی اپنی مصنوعات کی مانگ بڑھانے کے لیے کام کرے گی۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'سنہ 1978 میں ڈینگ ژیاوپنگ کی قیادت میں چینی حکومت نے 'دی گریٹ سرکولیشن' کے نام سے ایک پالیسی لائی، جس کا مقصد معیشت کو برآمدات پر مبنی بنانا تھا۔ لیکن لاک ڈاؤن کی صورتحال کے دوران، ملک کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اپنی معیشت پر اور گھریلو بازار پر توجہ دے اور صرف برآمدات پر انحصار نہ کرے۔'

ان کا کہنا ہے کہ چین اپنے آپ میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور چینی حکومت اس بات کو سمجھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’ابھی ہم چین میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اسی کا اثر ہے۔ کم قیمتوں سے وہاں کے صارفین کے لیے سامان سستا ہو جائے گا اور گھریلو کھپت بڑھے گی۔ اگر گھریلو کھپت میں اضافہ رُک جاتا ہے، تو تفریط زر اس سے نمٹنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔

’وہ دوہری سرکولیشن پالیسی کے تحت اپنی مقامی مارکیٹ پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔'

چین
Getty Images
زیرو کووڈ پالیسی

کیا چین اس چیلنج کا مقابلہ کر سکے گا؟

چین کے مرکزی بینک (پیپلز بینک آف چائنا) نے باضابطہ طور پر ان خدشات کو دور کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ جولائی میں صارفین کے انڈیکس میں کمی کے بعد دوبارہ اضافہ شروع ہو جائے گا۔

بینک نے کہا ہے کہ 'ہم نے جو پالیسیاں نافذ کی ہیں ان کا اثر ہونا شروع ہو رہا ہے۔ ہمیں صبر کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، اس یقین کے ساتھ کہ معیشت مستحکم ہو گی۔'

لیکن پن پوائنٹ ایسٹ مینجمنٹ کے چیف ماہر معاشیات زیوی ژانگ نے الجزیرہ نیوز چینل کو بتایا: 'یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ حکومت کی طرف سے نافذ کردہ پالیسیوں کا جلد اثر پڑے گا یا نہیں۔ ایسے میں تفریط زر کی حالت سے نمٹنے کے لیے حکومت کو دوسرے اقدام کرنے پڑ سکتے ہین۔'

کارنیل یونیورسٹی میں تجارتی پالیسی اور اقتصادی امور کے پروفیسر ایشور پرساد کا کہنا ہے کہ چینی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کو سرمایہ کاروں اور صارفین میں اعتماد پیدا کرنا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں: 'بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا حکومت نجی شعبے کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے، تاکہ صارفین اپنا پیسہ بچانے کے بجائے خرچ کرنا شروع کر دیں جس سے کاروباری سرمایہ کاری بڑھے اور معیشت میں تیزی آئے۔ اب تک کچھ نہیں ہوا۔ حکومت کو ٹیکس میں کٹوتیوں جیسے بہت سے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔'

وہ کہتے ہی کہ 'اگر حکومت نے افراط زر کے خطرات کو نظر انداز کرنا جاری رکھا تو ترقی کی رفتار رکنے کا خدشہ ہے۔ اور اگر معیشت گرنے لگتی ہے، تو حکومت کے لیے اسے دوبارہ پٹری پر لانا ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔'

دوسری جانب پروفیسر فیصل احمد کا کہنا ہے کہ تفریط زر کی صورتحال ایک قلیل مدتی پالیسی ہے، اگر حکومت مارچ 2024 تک صورتحال پر قابو پالتی ہے تو اس کی معیشت دوبارہ پٹری پر آجائے گی، اس سے پہلے ملکی کھپت بڑھے گی، جس سے طلب بڑھے گی، پیداوار متاثر ہوگی اور بے روزگاری کم ہوگی، جس کی وجہ سے اس کی برآمدات بڑھیں گی، لیکن اگر حکومت حالات پر قابو نہ پا سکی تو اس سے نہ صرف چین کی مشکلات بڑھیں گی، بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ ان ممالک میں بھی حالات خراب ہوں گے جو چین سے درآمد کرتے ہیں۔'

چین
Getty Images

تفریط زر کا دنیا پر کیا اثر ہوگا؟

دوسرے ممالک کی بات کریں تو چین ایسی بہت سی چیزیں تیار کرتا ہے جسے وہ پوری دنیا میں فروخت کرتا ہے۔ اگر چین میں چیزوں کی قیمتیں نیچے آتی ہیں تو یہ برطانیہ جیسے ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے جو چین سے اشیا خریدتے ہیں کیونکہ اس سے ان کا درآمدی بل کم ہو جائے گا۔

لیکن اس سے دوسرے ممالک کے پروڈیوسرز پر منفی اثر پڑے گا اور وہ چین کی سستی اشیا کے مقابلے میں اپنا سامان فروخت نہیں کر سکیں گے۔ اس سے ان ممالک میں سرمایہ کاری کم ہو سکتی ہے اور بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔

پروفیسر فیصل احمد کا کہنا ہے کہ 'چونکہ چین اپنی پیداوار سستی کر رہا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ اس سے دوسرے ممالک کی کمپنیاں متاثر ہوں گی۔ جو ممالک اپنے ملک کے اندر پیداوار کرنا چاہتے ہیں، چین کی سستی مصنوعات انھیں اپنی جانب راغب کر سکتی ہے۔'

پچھلے کئی سالوں سے بہت سے ممالک چین سے اپنی پیداوار ختم کر کے دوسرے ممالک میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکہ اس معاملے میں پیش پیش ہے۔ 2019 میں نیشنل سکیورٹی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین امریکی کاروبار کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے کمپنیوں پر زور دیا کہ وہ چین سے نکل جائیں۔

چین یہ بھی جانتا ہے کہ اس وقت بہت سے ممالک اسے پیداوار کے مرکز کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے، اس لیے وہ ایسی پالیسی چاہتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ چین میں پیداواری لاگت کو اتنا کم کردے کہ دوسرے ممالک اپنے یہاں پیداوار کے بجائے چین سے مصنوعات کی درآمد کو سستا سمجھیں۔

چین مستقبل کے تحت منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ایک طرف یہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ سپلائی چین کی ایک اہم کڑی رہے، اور دوسری طرف وہ اپنی مقامی مارکیٹ کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US