دولت کی ہوس، نائیلون کی رسی اور 10 افراد کی موت، وہ ہولناک قتل جو دہشت کی علامت بن گئے

ہر واردت میں گھر کے افراد کو نائیلون کی رسی سے گلا دبا کر قتل کیا جاتا تاکہ کوئی انھیں پہچان نہ سکے۔ اس قتلِ عام نے پونے میں جو اُس وقت کا ایک چھوٹا سا شہر تھا، میں اتنی دہشت پھیلائی کہ شہر ساڑھے چھ سے سات کے بعد ہی خاموش ہو جاتا تھا۔

سنہ 1976 میں انڈیا کے شہر پونے کا موسم سرما نہ صرف سرد تھا بلکہ ہولناک بھی تھا۔ ایک طرف جہاں ملک میں اندرا گاندھی نے سیاسی ایمرجنسی نافذ کی ہوئی تھی وہیں ’ان چاروں‘ نے پونے میں دہشت کا راج قائم کر دیا تھا۔

تقریباً 50 سال قبل پونے پر امن، پرسکون، تعلیم یافتہ شہر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بھنڈارکر لا کالج روڈ پر آج کی طرح بھیڑ نہیں تھی۔ شہر کے بیچوں بیچ بنے بڑے بڑے بنگلے اور گھر غروب آفتاب کے بعد ایک پرسکون احساس دیتے تھے۔

بھنڈارکر لا کالج روڈ کا یہ علاقہ بہت کم آبادی والا تھا۔ دسمبر کی شاموں کے سرمئی سائے اور سردی نے پونے والوں کو جما کر رکھ دیا تھا۔

یہ یکم دسمبر کا دن تھا جب شام تقریباً سات بجے چار نوجوان لڑکوں نے سنسکرت کے پروفیسر کاشی ناتھ شاستری ابھینکر کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔

سنسکرت کے پنڈت کاشی ناتھ شاستری ابھینکر، بھنڈارکر انسٹیٹیوٹ کے قریب ہی رہتے تھے۔ یہ چاروں نوجوان 88 سالہ پروفیسر سے سنسکرت کے کچھ سوالات پوچھنے کے لیے ان کے سمرتی بنگلے پر آئے تھے۔

اس وقت گھر میں کاشی ناتھ ابھینکر، ان کی اہلیہ اندرا، 20 سالہ پوتی جوئی، ان کا 19 سالہ پوتا دھنانجے اور ان کی گھریلو ملازمہ سخو بائی واگھ گھر پر موجود تھے۔

دروازے پر دستک سن کر ان کے پوتے نے ہی دروازہ کھولا، چاروں لڑکوں نے پروفیسر کاشی ناتھ ابھینکر کے بارے میں پوچھا۔ دھنانجے نے انھیں بتایا کہ پروفیسر کاشی گھر پر ہی ہیں، وہ انھیں بلا کر لاتے ہیں۔

جب وہ پروفیسر کاشی ناتھ کو بلانے کے لیے اوپر جا رہے تھے تو ایک نوجوان نے فوراً سے لپک کر ان کو پکڑ لیا اور کپڑا ٹھونس کر ان کا منھ بند کر دیا۔ پھر چاروں نے چاقو کے زور پر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔

دروازے پر شور سن کر کاشی ناتھ کی پوتی نیچے آئیں تو انھیں بھی رسی سے باندھ دیا گیا اور ان کے منھ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا۔ جب کاشی ناتھ شاستری یہ دیکھنے آئے کہ نیچے کیا ہو رہا ہے تو اس وقت تک یہ چاروں نوجوان ان کے گھر میں چوری کی واردات کرنے میں مصروف تھے۔

کاشی ناتھ نے انھیں دیکھتے ہی شور مچایا لیکن چاروں نے انھیں اور گھر میں موجود تمام افراد کو باندھ دیا اور ان کے منھ میں کپڑا ٹھونس کر گلوں پر نائیلون کی رسی باندھ دی تاکہ آواز باہر نہ جا سکے۔

چوروں نے ان کی پوتی کے ہاتھ پاؤں باندھے، انھیں سب کے سامنے برہنہ کیا اور انھیں گھر کے قیمتی سامان اور زیوارت سے متعلق بتانے پر مجبور کیا اور پھر ان تمام افراد کو دسمبر کی سرد شام میں نائیلون کی رسیوں سے گلا دبا کر سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد ان چاروں نوجوانوں نے بڑے آرام سے گھر کے باورچی خانے سے کھانا گرم کر کے کھایا، سامان کو تھیلوں میں بھرا اور گھر چھوڑ کر جانے سے قبل پورے گھر کو تیز عطر کی خوشبو سے معطر کر دیا۔

قتل
Getty Images

قاتل جو بغیر کسی سابقہ دشمنی، غصے یا نفرت کے محض عیش و عشرت کی خاطر لوگوں کی جانیں لے لیتے تھے، پہلے قتل سے بآسانی بچنے کے بعد، نوجوان اور بوڑھوں کو قتل کرنے میں بے خوف ہو چکے تھے۔

یہ سب پہلی بار مہاراشٹر میں ہوا تھا۔ مجھے اب بھی حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے، فنون لطیفہ میں دلچسپی لینے والے اور یہاں تک کہ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے کالج کی عمر کے طالب علم بھی یکے بعد دیگرے 10 قتل کر سکتے ہیں۔

راجندر جیکال، دلیپ سوتار، شانتارام جگتاپ، منور شاہ اور سوہاس چانڈک، سبھی آرٹ کالج میں پڑھ رہے تھے اور انھوں نے ایک سال کے دوران، دس قتل کیے تھے۔ یہ سب کچھ 1970 کی دہائی میں پونے میں تھا، جو اس وقت محفوظ شہر سمجھا جاتا تھا، جس کا ایک پرسکون، تعلیمی ماحول تھا اور اسے پینشنرز کے شہر کے طور پر جانا جاتا تھا۔

جوشی-ابھیانکر قتل کیس کو تقریباً پچاس سال گزر چکے ہیں جس نے مہاراشٹر کے سماجی شعور، انسانی حساسیت اور انفرادی ذہنیت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

آج بھی اس ہولناک قتل کی وراداتوں کی مثال نہیں ملتی۔

سنہ 1976-77 میں جوشی-ابھیانکر قتل عام کے وحشیانہ سلسلہ وار قتل میں 10 بے گناہوں کی جانیں گئیں اور چار مجرموں کو پہلے قتل کے تقریباً آٹھ سال بعد پھانسی دے دی گئی۔

انڈیا کی آزادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ چار لوگوں کو ایک ساتھ پھانسی دی گئی۔ کالج کے نوجوانوں نے قتل کی یہ سازش کیسے رچی، کس طرح دس قتل ہونے تک وہ پولیس سے چھپتے رہے، پولیس کو دھوکہ دینے کے لیے کس طرح ایک ایک کر کے لڑتے رہے اور آخر کار ان کا پتا کیسے چلا، اس کی سچی کہانی بہت لرزہ خیز ہے۔ یہ کسی بھی کرائم تھرلر سے زیادہ دل دہلا دینے والی ہے۔

شام ڈھلنے کے بعد جب اندھیرا چھا جاتا تو یہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا گروہ گھروں میں گھس جاتا اور چوری کر کے فرار ہو جاتا۔

ہر واردت میں گھر کے افراد کو نائیلون کی رسی سے گلا دبا کر قتل کیا جاتا تاکہ کوئی انھیں پہچان نہ سکے۔ اس قتلِ عام نے پونے میں جو اُس وقت کا ایک چھوٹا سا شہر تھا، اتنی دہشت پھیلائی کہ شہر ساڑھے چھ سے سات کے بعد ہی خاموش ہو جاتا تھا۔

تلسی باغ، لکشمی روڈ جہاں ہمیشہ بھیڑ رہتی تھی، شام ہوتے ہی وہاں اندھیرا چھا جاتا تھا۔

قتل
Getty Images

پہلا قتل ایک قریبی دوست کا تھا

پونے کی مرکزی تلک روڈ پر واقع ابھینو کلا مہاودیالا نامی مشہور کالج میں ایک گروپ پڑھتا تھا۔ اس وقت کے کسی بھی کالج کے نوجوانوں کی طرحیہ بھی مختلف ڈھابوں، کھوکھوں پر جا کر بیٹھتے تھے جنھیں ان کے اڈے کہا جاتا تھا۔

ایسا ہی ایک اڈہ سرس باغ روڈ پر واقع ’ہوٹل وشوا‘ کا تھا، جو ابھینو کالج کے قریب تھا۔ اس ہوٹل کے مالک کا بیٹا بھی ابھینو کالج میں پڑھتا تھا۔

پرکاش ہیـجڈے ابھینو کالج میں قاتلوں کا ہم جماعت تھا۔ اس کے والد سندر ہیجڈے ابھینو کلا کالج کے پیچھے ایک چھوٹا سا ریستوران (ہوٹل وشوا) چلاتے تھے۔

پرکاش نوجوان قاتلوں کا دوست بنا اور ان کے گروہ میں شامل ہو گیا لیکن ان قاتل نوجوانوں کا اسے دوست بنانے کا مقصد کچھ اور تھا۔

قاتل نوجوانوں کے گروہ کا سرغنہ راجندر جیکال تھا جس نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’جلد امیر ہونے کے لیے، آپ کو کچھ جوا کھیلنا ہو گا۔‘

ان نوجوانوں نے تاوان کے لیے پرکاش کو اغوا کرنے کی سازش رچی تھی۔ انھوں نے پرکاش کو اغوا اور بعد میں قتل کیا اور بدلے میں اس کے والد سے بھاری تاوان وصول کرنے کا منصوبہ بنایا۔

15 جنوری 1976 کو، چاروں اور ان کے ہم جماعت سہاس چانڈک بہانے سے پرکاش کو کاروے روڈ پر واقع جیکال کے ٹین سے بنے ایک کمرے میں لے گئے تھے۔

انھوں نے پرکاش کو اپنے والد کو ایک خط لکھنے پر مجبور کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ گھر چھوڑ رہے ہیں۔

اگلے دن، انھوں نے اس کے والد کو تاوان کے لیے ایک نوٹ بھیجا جس میں سندرنا ہیجڈے یعنی پرکاش کے والد سے 25 ہزار روپے کا مطالبہ کیا گیا۔

پرکاش کو غائب کر کے یہ نوجوان اس کے ہی والد کے ہوٹل پر چائے پینے اور ناشتہ کرنے آتے رہے۔ وشوا ہوٹل میں ایک ٹیبل کے نیچے ایک نوٹ چسپاں کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ تاوان کی رقم کس طرح اور کہاں ادا کرنی ہے۔

تاوان کی رقم والے بیگ کو سرس باغ کے پیشوا پارک علاقے میں ایک درخت پر رکھنے کو کہا لیکن تاوان کی دھمکیوں کے باوجود ہیجڈے نے پولیس کو اطلاع دی۔ یقیناً، جیکال گینگ کو اس متعلق کوئی سراغ مل گیا۔

کیونکہ پولیس نے جال بچھا رکھا تھا۔ لہذا جیکال گینگ نے اپنے دوست پرکاش کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسے کوتھ روڈ کی ایک ٹپری (عارضی ٹھکانہ) میں لے جایا گیا۔ یہ ٹپری بھی اس گینگ کا ٹھکانہ تھا۔ اس وقت این این ڈی ٹی کے نام سے جانے جانے والا یہ علاقہ میں بھیڑ کم ہوتی تھی۔

وہاں سے پرکاش کو سرس باغ کے علاقے میں لایا گیا۔ 15 جنوری 1976 کی سرد رات کو جیکال ، سوتر، جگتاپ اور چانڈک نے شراب پارٹی کے نام پر پرکاش کو زبردستی شراب پینے پر مجبور کیا اور پھر نائیلون کی رسی سے اس کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا۔

پرکاش کی لاش کو پیشوا پارک کے تالاب میں پھینک دیا

جنوری 1976 کی رات کو جیکال گینگ پرکاش کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے پیشوا پارک لے گئے، جو ہوٹل وشوا سے محض چند میٹر کے فاصلے پر ہے۔

ایروی پیشوا پارک میں آنے والے بچوں کی پسندیدہ تفریح وہاں کی جھیل میں کشتی رانی ہے لیکن اسی تالاب میں جیکال گینگ نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت پرکاش کی لاش کو ٹھکانے لگا دیا۔ اس کی لاش کو وہاں موجود لوہے اور لکڑی سے بنے بیرل میں رکھا، کچھ پتھر ڈالے اور بیرل کو پارک کی جھیل میں پھینک دیا۔

یہ گروہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس جھیل کی خاص دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ لکڑی کے بیرل میں سوراخ سے مچھلیاں پرکاش کی لاش کو تالاب میں کھا جائیں گی اور اس کا کوئی نام و نشان نہیں ملے گا۔ پرکاش ہیـجڈے کی لاش تقریباً ایک سال تک نہیں ملی تھی۔

ایک دوست چلا گیا اور دوسرا گینگ میں شامل ہوا

اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دوست کو دم گھٹتے اور مرتے دیکھ کر اس گینگ میں شامل نوجوان سوہاس چانڈک ہل سا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ یہ قتل اتنی آسانی سے نظر انداز کر دیا گیا اس سے ان کا حوصلہ مزید بڑھ گیا۔

وہ فوری پیسہ کمانے کا نیا طریقہ ڈھونڈ کر خوش تھے لیکن اس دوران سوہاس چانڈک نے خود کو گینگ سے دور کر لیا اور بعد میں وہ ایک اور قتل کے کیس میں گواہ کے طور پر سامنے آیا تھا جن میں باقی چاروں کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔

سوہاس چانڈک کے گینگ سے دور ہونے کے بعد جیکال کا ایک اور دوست منور شاہ جو ایک اور کالج میں پڑھتا تھا اس گروہ میں شامل ہو گیا۔ ان چاروں نے مل کر کولہاپور میں اروند کاشد نامی تاجر کا گھر لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

قتل
Getty Images

کولہاپور میں ناکام واردات

یہ دیکھ کر کہ اروند کاشد گھر پر نہیں، وہ آٹھ اگست کی رات اس کے گھر پہنچ گئے تاکہ واردات کی جا سکے لیکن اروند کاشد کی بیوی نے ان کی دستک پر دروازہ نہیں کھولا۔

اگلی رات وہ دوبارہ کاشد کے گھر پہنچے۔ اس وقت اس کی بیوی نے اپنے شوہر کو گھر آتا دیکھ کر دروازہ کھولا اور یہ چاروں گھر میں داخل ہو گئے لیکن وہاں ان کی دال نہیں گلی کیونکہ اروند کاشد جسمانی طور پر طاقتور تھا۔

یہ جان کر کہ اس کا گھر بہار کے وسط میں واقعہ ہے اور اس کے گھر کے محل و وقوع کو دیکھ کر چاروں نوجوانوں کو خطرے کا احساس ہوا۔ وہ اس سے کچھ عمومی کاروباری بات چیت کے بعد وہاں سے فرار ہو گئے اور سیدھا پونے واپس آ گئے۔

جوشی ابھیانکر کا وحشیانہ قتل

اس گینگ نے پونے آنے کے بعد بنا ریکی کے دوبارہ لوٹ مار نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے وجئے نگر کالونی میں تلک روڈ سے متصل نسبتاً پرسکون علاقے میں واقع جوشی ابھیانکر کے بنگلے کی جاسوسی کی۔

یہ جاننے کے بعد کہ ان کے گھر میں پچاس کی پیٹے کی عمر کے جوڑے کے علاوہ صرف ایک نوجوان لڑکا ہے، انھوں نے 31 اکتوبر 1976 کی رات جوشی کے دروازے پر دستک دی۔ اس وقت جوشی ابھیانکر اور ان کی اہلیہ گھر میں اکیلے تھے اور ان کا بیٹا آنند گھر پر موجود نہیں تھا۔ انھوں نے جوشی اور ان کی بیوی کو چاقو سے ڈرا کر ان کے ہاتھ ہاؤں باندھے اور ان کے منھ میں کپڑا ٹھونس کر ان کے گلے کو نائیلون کی رسی سے گھونٹ دیا۔

جوشی کا نوجوان بیٹا آنند جب گھر پہنچا تو وہ گھر میں لوٹ مار کر کے واپس جانے والے تھے۔ گھنٹی بجنے پر انھوں نے جوشی آنند کو بھی زدوکوب کرنے کے بعد برہنہ کیا اور اس کی زندگی کا خاتمہ بھی نائیلون کی رسی سے کیا۔

جیکال گینگ نے گھر سے باہر نکلتے وقت تمام شواہد کو مٹا دیا اور گھر میں ہر طرف تیز خوشبو والا عطر چھڑکا تاکہ پولیس کے جاسوس کتوں کے لیے کوئی سراغ لگانا ممکن نہ ہو۔

اب تک کے چار قتل کرنے کے بعد بھی یہ گینگ قانون کی گرفت سے آزاد تھا۔ دوسری جانب پونے کے وسط میں ایک ہی گھر میں تین افراد کے بہیمانہ قتل کی وجہ سے پولیس نے تیزی سے قتل کی تحقیقات پر کام شروع کر دیا۔

لیکن لاپتہ پرکاش ہیجڈے کی لاش نہ ملنے کی وجہ سے اس کا جوشی خاندان کی قتل کی واردات سے کچھ تعلق جوڑنا پولیس کے لیے ممکن نہیں تھا۔

دوسری طرف آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے والے یہ پڑھے لکھے نوجوان نئے جرائم کرنے میں آزاد تھے۔

انھوں نے ایک ماہ کے دوران شنکر شیٹھ روڈ کے علاقے میں اپنے اگلے شکار کی جاسوسی کی۔ اس پرسکون کالونی کے ایک سرے پر کاروباری خاندان بافنا کا ایک کشادہ بنگلہ تھا۔ اس وقت شنکر شیٹھ روڈ پر زیادہ آبادی نہیں تھی۔

جب 22 نومبر کی رات جیکال، سوتار، جگتاپ اور منور نے بافنا کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے۔ ان کی بیوی یشومتی بافنا، اپنے ایک رشتہ دار راجو جین اور ان کے بوڑھے ملازم فاروق حکیم گھر میں موجود تھے۔

جیسے ہی ملازم فاروق نے گھر کا دروازہ کھولا تو یہ گینگ کے چاروں افراد نے فوراً ہی گھر میں گھستے ہوئے اس کا منھ دبا کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔ عین اس وقت یشومتی بافنا نیچے آئیں اور انھیں دیکھ کر چیخنے لگیں۔ جیکال گینگ نے انھیں چاقو سے ڈرایا اور پوچھا کہ سیف کہاں ہے؟

جیکال نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ فوراً نچلے کمرے سے گھر کی قیمتی اشیا کو تھیلے میں بھرنا شروع کر جبکہ ایک ساتھ اوپر والی منزل پر چلا گیا۔

اسی اثنا میں بافنا کے رشتہ دار راجو نیچے آئے اور چوروں کو دیکھتے ہوئے کمرے سے متصل باتھ روم میں گھس گئے اور اندر سے کنڈی لگا کر انھوں نے چور چور کی آواز لگانا شروع کر دی۔

یہ شور سن کر اوپر جانے والا چور دوڑتا ہوا نیچے آیا اور اسے آتا دیکھ کر یشومتی نے پاس پڑا شیشہ کا ایک گلدان اس کی جانب دے مارا جس کے گرنے سے بھی شور پیدا ہوا۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر لوگ جمع ہو گئے تو وہ پھنس جائیں گے، چاروں وہاں سے فرار ہو گئے۔

بافنا خاندان صرف حاضر دماغی سے بچ گیا لیکن اس واقعے نے شہر میں مزید دہشت پھیلا دی۔

قتل
Getty Images

اس واردات میں ناکامی کے بعد یہ سمجھتے ہوئے کہ گینگ کے تین افراد کو بافنا خاندان نے دیکھ لیا ہے جیکال گینگ نے کچھ دنوں کے لیے پونے سے باہر جانے کا فیصلہ کیا لیکن اور کچھ عرصے کے بعد جیکال گینگ کے چاروں افراد بھیس بدل کر واپس پونے آ گئے۔

کاشی ناتھ ابھیانکر کے گھر میں پانچ قتل

بعد ازاں، اس گینگ نے بھنڈارکر لا کالج روڈ پر ایک علاقے کی ریکی کی اور اس کے لیے انھوں نے ایک انوکھا طریقہ تلاش کیا۔

وہ علاقے کے مختلف بنگلوں کے دروازے کھٹکھٹاتے تھے اور یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ بطور پیئنگ گیسٹ ٹھہرنے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ اس طرح ان گھروں میں افراد، مال اور حالات کا اندازہ لگاتے تھے۔ .

یہی ریکی کرتے ہوئے انھوں نے بھنڈارکر انسٹیٹیوٹ کے قریب سمرتی کے بنگلے سے نکلنے والی ایک کار کو دیکھا۔

اس گینگ نے سنسکرت کے پروفیسر کاشی ناتھ ابھینکر کے بیٹے گجانن راؤ ابھیانکر اور ان کی اہلیہ کو 'دیر ہو جائے گی، کھا لو‘ کی آواز لگاتے ہوئے باہر آتے دیکھا اور ہولناک واردت کے لیے یکم دسمبر کی رات طے ہو گئی۔

کاشی ناتھ ابھینکر کے گھر میں پانچ افراد قتل ہوئے۔

آخری پھندا اور حد سے زیادہ اعتماد

جوشی کے بعد کاشی ناتھ ابھینکر کے بنگلے میں بھی چوری کی گئی اور اسی طرح قتل کر دیا گیا۔ پولیس کمشنر سے لے کر پولیس کے تمام افسران ان وارداتوں کو سیریل کلنگ قرار دے رہے تھے۔تاہم اب تک قاتل کا کوئی سراغ نہ ملنے کی وجہ سے پولیس اور حکومت پر میڈیا کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔

اس وقت کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ مجرم نہ ملنے پر کمشنر نے بھی چھٹی پر جانے کی تیاری کر لی تھی۔ آخر کار یہ مجرم خود چل کر تھانے پہنچے اور ان کے گلے میں آخری پھندا ڈال دیا گیا۔

ایک اور دوست کو قتل کرنا

جینت گوکھلے جیکال کے دوست تھے۔ وہ ابھی ابھینو کالج کے طالب علم تھے اور جیکال گینگ کے سینئر تھے۔ گوکھلے نے جیکال کی بہت مدد کی تھی۔ جیکال کو معلوم تھا کہ گوکھلے کے والد فلموں کی ڈسٹری بیوشن کے لیے الکا ٹاکیز سنیما سے وابستہ تھے۔

جیکال گینگ کے حد سے اعتماد نے اس کو مزید لالچی بنا دیا تھا۔ انھوں نے اپنی اگلی واردات کے لیے گوکھلے خاندان کو چنا تھا۔

مارچ 1977 کی شام کو جب وہ واردات کی نیت سے گوکھلے کے گھر گئے تو جینت اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ اس وقت ان کے چھوٹے بھائی انیل گوکھلے گھر پر تھے۔ وہ ان چاروں سے واقف تھے۔ جیکال نے انیل سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے ساتھ الکا ٹاکیز تک چلیں گے اور انیل ان کے ساتھ الکا ٹاکیز تک چل پڑے۔

کیونکہ اس دن انیل کو اپنے بھائی سے الکا ٹاکیز میں ملنا تھا اور جیکال نے انھیں اپنی موٹر سائیکل پر ساتھ لے جانے کی پیشکش کی تھی۔

وہاں سے جیکال اسے دھوکے سے اپنے شیڈ میں لے گیا اور اسے بھی نائیلون کی رسی سے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔پھر اس کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے لوہے کی سیڑھی سے باندھ کر اور اس پر پتھر رکھ کر اس بنڈا گارڈن کے علاقے کے قریب دریائے مولا مٹھا میں پھینک دیا۔

اس نے سوچا تھا کہ پرکاش کی طرح اس کی لاش بھی بہہ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اسی رات انیل گوکھلے کی لاش بنڈاگارڈن کے قریب سے ملی۔ اس گینگ کو لاش کو ٹھکانے لگانے کے دوران ایک شرابی نے دیکھا تھا۔ چاروں کے وہاں سے چلے جانے کے بعد اس شخص نے جال اٹھا کر دیکھا کہ انھوں نے پانی میں کیا پھینکا ہے۔ جال میں لاش دیکھ کر وہ گھبرا گیا اور وہ فوراً قریبی بنڈاگارڈن پولیس سٹیشن میں اس واقعے کی اطلاع کرنے پہنچا

لیکن شراب نوشی کے باعث نشے کی حالت کی وجہ سے وہ صحیح طور پر بولنے سے قاصر تھا۔ پولیس نے اسے شرابی سمجھ کر لاک اپ میں بند کر دیا۔

اگلے دن انیل گوکھلے کے گھر واپس نہ آنے پر اس کی تلاش شروع کر دی۔ مدد کے بہانے اور کل کے منصوبے کی کامیابی کو جانچنے کے لیے، جیکال اپنے دوستوں کے ساتھ سیدھا بندگارڈن پولیس سٹیشن چلا گیا۔

اس نے پولیس سٹیشن جاتے ہی پولیس سے جھگڑنا شروع کر دیا کہ ’ہمارا دوست غائب ہو گیا ہے، آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا۔‘

اسے یقین تھا کہ ایسا کرنے سے اس پر کوئی شبہ نہیں ہوگا لیکن اس لاک اپ میں موجود شرابی شخص نے جیکال گینگ کو پہچان لیا۔

جیسے ہی اس نے پولیس کو بتانا شروع کیا، پولیس نے بھی معاملے کو قدرے سنجیدگی سے لیا۔ انیل کی لاش بنڈاگارڈن سے ہی ملی تھی۔ اس کے بعد شک پیدا ہوا اور جیکال گینگ کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔

ان کے ایک دوست ستیش گور جو کہ اس گینگ کے جرائم میں ملوث نہیں تھے لیکن انھیں ان کے بارے میں علم تھا، نے پولیس تفتیش میں وہ سب کچھ بتایا جو وہ جانتا تھا اور جیکال گینگ کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا۔

اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس مدھوسودن کی قیادت میں پولیس کی تفتیشی ٹیم نے تمام گواہوں اور ثبوتوں کو اکٹھا کیا اور کیس کو مضبوط کیا۔

وعدہ معاف گواہ

15 مئی 1978 کو پہلے قتل کے ڈھائی سال بعد، جیکال، چانڈک، جگتاپ، سوتر اور منور نامی پانچ افراد پر کل 10 افراد کے قتل کے الزامات عائد کیے گئے۔

حالانکہ ستیش گور گواہ تھے لیکن وہ عینی شاہد نہیں تھے۔ پھر پہلے قتل میں ملوث سوہاس چانڈک وعدہ معاف گواہ بن گئے۔

اس وقت کے ماہر اور نامور وکیل بی جی کولسے پاٹل، وجے راؤ موہتے، وجے ناہر نے ملزمان کی وکالت کی۔ بافنا خاندان کے افراد عینی شاہد تھے لیکن چانڈک کی گواہی کو قبول کرتے ہوئے جیکال، سوتار، جگتاپ اور منور کو موت کی سزا سنائی گئی۔

راجندر یلپا جیکال (عمر 25)، دلیپ گیانوبا سوتار (عمر 21 سال)، شانتارام کانوجی جگتاپ (عمر 23) اور منور ہارون شاہ (عمر 21) کو 27 نومبر 1983 کو یرواڈا جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

جوشی-ابھیناکر قتل کیس کی کوریج کرنے والے اس وقت کے صحافیوں کے مشاہدے کے مطابق ’جب مقدمہ چل رہا تھا، تمام قتل کے پیچھے کا راز آہستہ آہستہ کھلتا گیا۔ قتل کے تقریباً ایک سال بعد پرکاش ہیـجڈے کی لاش برآمد ہوئی۔ جیکال کے ان تمام وارداتوں کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا انکشاف ہوا، باقی سب نوجوان اس کے زیر اثر تھے۔

عدالت میں سماعت کے دوران بھی جیکال ایک قاتل لگتا تھا، وہ پولیس سے لڑتا تھا۔

جیکال کے والد کا لکشمی سٹریٹ پر فوٹو سٹوڈیو تھا۔ اگرچہ خاندان کی مالی حالت ٹھیک تھی لیکن جیکال اپنے خاندان سے الگ تھلگ تھا۔

پھانسی سے پہلے خود نوشت

منور شاہ نے جیل میں اپنی سوانح عمری لکھی۔ اسے ’یس آئی ایم گلٹی‘ یعنی ’ہاں میں مجرم ہوں‘ کے نام سے ریلیز کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے بھی منور نے ان ہولناک وارداتوں کی تفصیل لکھی کہ اس نے جیکال کے بگڑے ہوئے اثر میں کیسے کام کیا۔ جب سے وہ پکڑا گیا تھا، منور نے مذہب پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔

وہ قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی کتاب میں اس بارے میں تھوڑا سا پتا چلتا ہے کہ وہ کس طرح معصوم لوگوں کو مارتا تھا۔ جیکال کے بارے میں ان کے بیان سے اس کی بٹی ہوئی ذہنیت کی جھلک ملتی ہے۔

’جیسے جیکال مرغی کو زخمی کر کے تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا کرتا تھا، وہ اس کی تکلیف کا ’مزہ‘ لیتا تھا۔‘

یہ ابھی تک واضح نہیں کہ 20 سال کے نوجوانوں نے محض عیش و عشرت کے لیے اس قدر بے رحمی سے قتل جیسے جرائم کیوں کیے۔

یہ مضمون بی بی سی بی بی سی مراٹھی کے لیے اروندھتی جوشی نے تحریر کیا ہے۔

اس واقعے پر مبنی کچھ ڈراموں، فلموں اور کتابوں کے ذریعے نہ صرف ایک ظالمانہ کہانی بلکہ انسانی جذبات کے عجیب الجھاؤ کو بھی بتانے کی کوشش کی گئی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US