افغانستان میں ’شریعت کے مطابق‘ سرِعام سزائیں دینے کی روایت: ’عوام سزا دیکھنے آئیں تاکہ عبرت حاصل کر سکیں‘

'جب طالبان حکام فٹبال سٹیڈیم میں پہلے شخص کو کوڑے مارنے کے لیے لائے تو میرا دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگا کہ میں اسے سن سکتا تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں یہ سب کسی فلم یا خواب میں نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں دیکھ رہا تھا۔'
سزائیں
BBC

’جب طالبان حکام فٹبال سٹیڈیم میں پہلے شخص کو کوڑے مارنے کے لیے لائے تو میرا دل اتنی تیزی سے دھڑکا کہ میں یہ دھڑکن اپنے کانوں میں سُن سکتا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ میں یہ سب کسی فلم یا خواب میں نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں دیکھ رہا تھا۔‘

یہ 21 سالہ افغان نوجوان جمعہ خان کے الفاظ ہیں جن کا نام ہم نے ان کی حفاظت کی غرض سے تبدیل کر دیا ہے۔

22 دسمبر 2022 کو انھوں نے طالبان حکومت کے حکام کو وسطیٰ افغانستان کے شہر ترینکوٹ کے ایک فٹبال سٹیڈیم میں ہزاروں افراد کے مجمع کے سامنے 22 افراد کو کوڑے مارتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان 22 افراد میں دو خواتین بھی تھیں اور ان پر مختلف قسم کے ’جرائم‘ کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

کوڑوں کی سزا دینے سے ایک دن قبل طالبان حکام نے پورے شہر میں اس سزا کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے مساجد میں اور ریڈیو پر اعلانات کے ذریعے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سزا دیکھنے آئیں تاکہ وہ ’عبرت حاصل کر سکیں۔‘

سزائیں کہاں دی جاتی ہیں؟

سزائیں
AFP

افغانستان میں عوامی سزا کے لیے کھیلوں کے بڑے سٹیڈیم معمول کی جگہ ہیں۔ یہ ایک روایت ہے جو 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جب طالبان نے پہلی بار افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا۔

طالبان حکام کے مطابق اُس دن 22 افراد کو دی جانے والی سزا کو دیکھنے کے لیے ترینکوٹ سٹیڈیم میں 18,000 افراد موجود تھے لیکن جمعہ خان کا دعویٰ ہے کہ تماشائیوں کی تعداد 18 ہزار سے کہیں زیادہ تھی۔

جمعہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزمان سٹیڈیم کے بیچوں بیچ گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ جمعرات کا دن تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ لوگ توبہ کر رہے تھے اور خدا سے دعا کر رہے تھے کہ وہ انھیں محفوظ رکھے۔‘

بعدازاں طالبان کی سپریم کورٹ نے ٹوئٹر پر تصدیق کی کہ مجرموں کو کوڑے مارے گئے تھے، ساتھ ساتھ انھوں نے سزا پانے والوں کی تعداد اور جنس کی بھی تصدیق کی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’شرعی قانون کے تحت ہمارے رہنما اس طرح کی سزاؤں کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ لوگوں (عوام) کو ان سزاؤں کا سرعام مشاہدہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اِن سے سبق حاصل کر سکیں۔ شریعت کے مطابق ان کا نفاذ ہماری ذمہ داری ہے۔‘

جمعہ خان کا کہنا ہے کہ ہر ایک مرد کو، جن کی عمریں 18 سے 37 سال کے درمیان تھیں، 25 سے 39 کے درمیان کوڑے مارے گئے۔

جمعہ خان نے کہا کہ ’اُن میں سے کچھ رو رہے تھے اور چیخ رہے تھے اور کچھ خاموشی سے کوڑے برداشت کر رہے تھے۔ میرے ایک رشتہ دار کو اُسی روز چوری کے الزام میں 39 کوڑے مارے گئے تھے۔ میرے رشتہ دار نے بعد میں بتایا کہ 20 کوڑے کھانے کے بعد اُن کا جسم بے حس ہو گیا اور وہ مزید درد محسوس نہیں کر سکتے تھے۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے اُس دن دونوں خواتین کو سرعام کوڑے مارتے ہوئے نہیں دکھایا۔

جمعہ خان نائن الیون کے واقعے کے دو سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ 9/11 وہواقعہ ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کے اقتدار کے پہلے دور کا خاتمہ کیا۔

جمعہ نے اپنے بزرگوں سے سُنا تھا کہ کس طرح طالبان سپاہیوں نے 90 کی دہائی میں لوگوں کو سرعام مارا اور سزا دی تھی، اُن کے اعضا کاٹ دیے یا انھیں پھانسی دے دی۔ لیکن یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے تشدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

جمعہ خان کا کہنا ہے کہ سزا کے بعد لوگ جلد ہی فٹبال اسٹیڈیم سے نکلنے لگے۔

'ان میں سے زیادہ تر میری طرح نوجوان تھے۔ طالبان فوجی ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن بہت سے لوگ دیواروں اور باڑ پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔'

طالبان کی حکومت جائز حکمرانوں کے طور پر تسلیم کیے جانے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ اس طرح کی سزاؤں کے ذریعے بیرون ملک سے آنے والے منفی ردعمل سے گھبراتے ہیں۔ اوران کےسپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے کسی کو بھی عوامی سطح پر سزا دینے کے اِن واقعات کو ریکارڈ کرنے یا شائع کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔

لیکن جمعہ خان نے خفیہ طور پر اس تقریب کی ویڈیو بنائی اور اسے بی بی سی کو بھیج دیا اور دیگر عینی شاہدین نے یہ مناظر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کیے جہاں وہ تیزی سے وائرل ہو گئے۔

جمعہ کا کہنا ہے کہ اس دن اس نے جو کچھ دیکھا اس سے وہ اب بھی خوفزدہ ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ انھیں بھی مستقبل میں ایسی ہی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب میں اپنے ہر لفظ کے ساتھ بہت محتاط ہوں۔ میں نے اپنی داڑھی بڑھا لی ہے۔‘

کتنے لوگوں کو سزائیں ہوئیں؟

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ نومبر 2022 سے جب طالبان حکومت نے سرکاری طور پر سرعام سزاؤں کا اعلان کیا تھا اور سپریم کورٹ نے ان پر بیانات جاری کرنا شروع کیے تھے اُس وقت سے کم از کم 50 ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں مجموعی طور پر 346 افراد کو سزا‏‏ئیں دی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے یہ نہیں بتایا کہ ملوث افراد مرد تھے یا خواتین، لیکن کم از کم 51 کیسز کی شناخت خواتین اور 233 مردوں کے طور پر ہوئی ہے (60 کیسز ابھی تک نامعلوم ہیں)۔

ان سب کو کوڑے لگائے گئے اور کچھ کو قید کی سزا سنائی گئی۔

دو افراد کو پھانسی دی گئی اور یہ دونوں مرد تھے۔ ایک کو جنوب مغربی افغانستان کے شہر ’فرح‘ میں اور دوسرے کو مشرقی صوبہ لغمان میں یہ سزا دی گئی۔

13 نومبر 2022 کے بعد عوامی سزاؤں کی تعداد میں شدت آئی ہے کیونکہ طالبان کے سپریم لیڈر نے اپنے عدالتی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ مختلف جرائم کے ملزمان کے مقدمات کی ’احتیاط سے‘ نگرانی کریں اور ان پر ’قانون نافذ کریں۔‘

کن ’جرائم‘ میں سزا دی جاتی ہے؟

سزائیں
AFP

طالبان کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسی سزائیں افغانستان کے اسلامی نظامِ عدل کے تحت سرانجام دیتے ہیں اور یہ ’شرعی قوانین کی تشریح‘ کے عین مطابق ہیں۔

قابل سزا جرائم کی 19 اقسام ہیں جن میں چوری، قتل، زنا، مردوں کے درمیان جنسی تعلقات، غیر قانونی جنسی تعلقات، بدعنوانی، گھر سے بھاگنا، قتل اور بے حیائی شامل ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ اِن جرائم کی تعریف کیسے کی جاتی ہے، تاہم یہ سزائیں وسیع تر تشریح کے لیے کُھلی دکھائی دیتی ہیں۔

بہت سے لوگوں کو چوری کے لیے عام طور پر 39 کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے تاہم اسی جرم میں کچھ افراد کو تین ماہ سے ایک سال تک قید کی سزا بھی سُنائی جاتی ہے۔

جنسی جرائم، جنھیں طالبان کی حکومت ’زنا‘ یا ’غیر قانونی جنسی تعلق‘ یا ’غیر اخلاقی تعلق‘ کے طور پر درجہ بند کرتی ہے اس پر بھی بہت سخت سزا دی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور بین الاقوامی مبصرین کے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ’گھر سے بھاگنے‘ کا جرم ہے، اور اس میں ملنے والی سزائیں ممکنہ طور پر کمزور خواتین کو نشانہ بنائیں گی جو پہلے ہی گھریلو تشدد یا جبری یا کم عمری کی شادیوں کا نشانہ بن ہوتی ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفصیلات میں ’لواطت‘ کے چھ کیسز کا بھی تذکرہ جو افغانستان کے شرعی قانون کے تحت ایک جرم ہے۔

سب سے زیادہ سزائیں کن صوبوں میں دی جاتی ہیں؟

بی بی سی کو پتہ چلا ہے کہ 34 میں سے 21 افغان صوبوں میں عوامی سطح پر سزائیں دی گئی ہیں۔ لیکن کچھ صوبوں میں دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ سزائیں ہوئی ہیں۔

افغانستان کے مشرقی صوبہ لغمان نے سب سے زیادہ سات بار سزائیں دیے جانے کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے بعد صوبے پکتیا، غور، پروان اور قندھار ہیں۔

سزا پانے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ہلمند 48 افراد کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ بدخشاں میں 32، پروان میں 31، غور اور جوزجان میں 24، قندھار اور روزگان میں 22 اور دارالحکومت کابل میں 21 افراد کو عوامی سطح پر سزائیں دی گئی ہیں۔

ان اعدادوشمار میں صرف وہی تفصیلات شامل ہیں جن کی طالبان کی سپریم کورٹ نے سرکاری بیانات میں تصدیق کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسے بھی واقعات ہوں جو یہاں درج نہ ہوئے ہوں۔

اگرچہ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے ممالک نے طالبان سے ان واقعات کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن طالبان کے اس ضمن میں پالیسی بدلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

سرکاری بیانات میں طالبان کہتے رہتے ہیں کہ لوگوں کو سرعام سزا دینا دوسروں کے لیے ایک ’سبق‘ ہے اور ان کی دلیل ہے کہ اس طرح سزائیں دینا جرائم کو روکتی ہیں۔

دریں اثنا جمعہ خان جیسے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ہولناک مناظر دیکھ کر ذہنی طور پر مجروح ہوئے ہیں۔ جمعہ کہتے ہیں کہ سزا پانے والوں کو ذلیل و خوار چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ اپنے گھر سے نکلنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اس کے جواب میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اللہ لوگوں کی ذہنی صحت کی نگرانی کرے گا۔ ہم شریعت کے خلاف نہیں جا سکتے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US