طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ نہ صرف دنیا بلکہ افغان شہریوں کے لیے بھی ایک پراسرار شخص ہیں۔ گذشتہ دو سال کے دوران افغانستان کی چار کروڑ آبادی کی زندگیوں پر اثرانداز ہونے والے نئے قوانین اور احکامات کے پیچھے یہی شخص ہیں۔ بی بی سی نے اُن کی 65 تقاریر اور احکامات کا جائزہ لیا ہے تاکہ اُن کی شخصیت کو سمجھا جا سکے۔

اقتدار پر قبضے کے دو سال کے دوران طالبان حکومت نے افغانستان میں ایسے سخت قوانین اور قواعد نافذ کیے ہیں جو اُن کی جانب سے اسلامی شریعت کے سخت گیر نظریے کی تشریح کے عین مطابق ہیں۔
ایسے احکامات، جو ملک کی چار کروڑ آبادی کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں، کے پیچھے صرف ایک شخص ہے اور وہ افغانستان کے رہبرِ اعلیٰ ہبت اللہ اخونزادہ ہیں۔
ہبت اللہ کے بارے میں یہ اندازے لگائے گئے ہیں کہ اُن کی عمر 70 برس سے زیادہ ہے اور وہ نہ صرف دنیا کے لیے بلکہ افغان شہریوں کے لیے بھی ایک پراسرار شخص ہیں۔ اگر آپ انٹرنیٹ پر اُن کی تصویر ڈھونڈنا چاہیں گے تو آپ کو صرف دو تصاویر ملیں گی۔ ان میں سے سب سے زیادہ مقبول ایک پاسپورٹ سائز تصویر ہے جو 1990 میں بنائی گئی تھی۔
دو برس قبل افغانستان سے امریکی اور نیٹو ممالک کی افواج کے مکمل انخلا کے بعد سے وہ عوامی اجتماعات میں بہت کم دکھائی دیے ہیں۔
آج تک کسی صحافی نے اُن کا انٹرویو نہیں کیا اور نہ انھوں نے کبھی خواتین کے نوکریاں کرنے اور لڑکیوں کے سکولوں میں جانے سے روکنے جیسے متنازع فیصلوں سے متعلق کوئی جواب دیا ہے۔
عوام کی نظروں سے اوجھل رہنے والے ہبت اللہ اخونزادہ کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے بی بی سی نے ان کی تقاریر اور جاری کیے گئے احکامات کا جائزہ لیا ہے۔
ان کی جانب سے سنہ 2016 میں طالبان کا لیڈر بننے کے بعد سے اب تک 65 احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ اُن کی جانب سے سنہ 2018 کے بعد سے آنے والی عیدوں پر پانچ پیغامات جاری کیے گئے تھے جن میں سے تین طالبان کی جانب سے افغانستان پر سنہ 2021 میں قبضے کے بعد سامنے آئے۔
اس کے علاوہ ان کی رہبرِ اعلٰی بننے کے بعد سے کی گئی تمام تقاریر کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ ان تمام ترجموں کا جائزہ نیچرل لینگوج پراسیسنگ سافٹ ویئر کے ذریعے کیا گیا ہے جس کی مدد سے ہم یہ دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ وہ ایک مخصوص لفظ کتنی مرتبہ بولتے ہیں۔
ہیبت اللہ کا اسلام

طالبان کے سربراہ کی جانب سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ’اسلام‘ ہے جو انھوں نے اب تک ان تقاریر اور احکامات میں 170 مرتبہ استعمال کیا ہے۔
اوپر دی گئی تصویر میں اس لفظ کا حجم اس کے استعمال کے تناسب کے اعتبار سے سب زیادہ ہے اور اس میں وہ بارہا اس بات کی تعلیمات دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ افغانستان میں حکومت صرف اسلامی قوانین کے مطابق ہونی چاہیے۔
ہبت اللہ اخونزادہ کے لیے خدا اور ریاست میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے لیے اسلام کا مطلب ایک ایسی اسلامی امارات ہے جو شریعت کے قانون کے تحت بنائی گئی ہو۔ وہ افغان شہریوں کو اپنی زندگیوں کو اسلامی شعائر اور قواعد کے مطابق گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلام کی ایسی سخت گیر تشریح جو افغانستان میں رائج ہے وہ دنیا کی 50 دیگر مسلمان ریاستوں سے یکسر مختلف ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جانب سے بھی افغانستان میں خواتین کی آزادی سلب کرنے کے بعد طالبان حکومت پر ’صنف کی بنیاد پر تعصب‘ کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ طالبان کی جانب سے خواتین کو پارکوں، جمز اور بیوٹی پارلر میں جانے سے بھی روکا گیا ہے۔
مغرب کی جانب نظریں
اپنے پیغامات اور تقاریر میں اب تک انھوں نے صرف ایک مرتبہ ہی ’الیکشن‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ ذکر بھی اچھے پیرائے میں نہیں تھا۔ کابل میں جون 2022 میں اسلامی سکالرز کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ’میں صدر نہیں ہوں، نہ ہی منتخب نمائندہ ہوں اور نہ ایک بدعنوان سیاستدان۔‘
ہبت اللہ اخونزادہ مغربی طرزِ جمہوریت کو اب بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
دو سال قبل، کابل پر قبضے سے پہلے انھوں نے اپنی تقاریر میں لفظ ’امریکہ‘ 55 مرتبہ استعمال کیا اور اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ ان کے لہجے میں غصہ پایا گیا۔
تاہم اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی جانب سے امریکہ کا لفظ شاذ و نادر ہی استعمال کیا جاتا ہے اور جب اس کا استعمال ہوتا ہے تو وہ اس لیے کہ وہ اپنی بات کے ذریعے بین الاقوامی برادری اور امریکہ سے توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
لفظ ’خواتین‘ کا استعمال صرف 13 مرتبہ
ہیبت اللہ کی جانب سے سنہ 2018 کے بعد سے لفظ ’خواتین‘ کا استعمال 13 مرتبہ کیا گیا ہے۔
گذشتہ دو برسوں میں انھوں نے لفظ ’خواتین‘ کو تھرڈ پرسن کے صیغے میں استعمال کیا ہے یعنی ان کی جانب سے خواتین کے لفظ کو عام طور پر صرف حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ کبھی ان (خواتین سے براہ راست) سے مخاطب نہیں ہوتے۔
ان کے خواتین اور لڑکیوں کی پڑھنے اور کام کرنے کی آزادی کو روکنے کے احکامات کے باوجود ہیبت اللہ اخونزادہ اس صنف کی ضروریات پر بہت کم بحث کرتے دکھائی دیے جس کی آبادی کل آبادی کا نصف سے بھی زیادہ حصہ بنتا ہے۔
مقدس جنگ
ان کی جانب سے لفظ ’جہاد‘ اور ’مجاہدین‘ کا استعمال کل 160 مرتبہ کیا گیا ہے۔ اکثر مسلمانوں کے لیے جہاد کے لفظ کا مطلب گناہ کے خلاف لڑنا اور اچھائی کی جانب بڑھنا ہے۔ تاہم رہبرِ اعلٰی کی جانب سے استعمال کیے جانے والے الفاظ کا جائزہ لیا جائے تو اس کا استعمال اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑنے اور ایک مقدس جنگ کو فروغ دینے کے پیرائے میں کیا گیا ہے۔
’مجاہدین‘ کا مطلب وہ افراد ہیں جو جہاد کے راستے پر ہوں۔
تاہم رہبرِ اعلٰی کی جانب سے بارہا جہاد کے لیے دی گئی ترغیب اب اس لیے عجیب لگتی ہے کیونکہ یہ بات وہ طالبان جنگجوؤں کی موجودگی میں کرتے دکھائی دیتے ہیں جو جنگ کے درمیان پرورش پانے کے باوجود اب ایک ایسے افغانستان میں جی رہے ہیں جو قدرے پُرامن ہے۔
متعدد نوجوان حال ہی میں افغانستان سے پاکستان جا چکے ہیں تاکہ وہاں کی تحریکِ طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کا حصہ بن سکیں۔ یہ بھی ایک ایسی جماعت ہے جو سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔
طالبان رہنماؤں کی جانب سے عوامی طور پر تو جنگجوؤں کے یوں سرحد پر جانے کی مذمت کی گئی ہے لیکن اکثر نوجوان کہتے ہیں کہ وہ جہاد کرنے کے لیے پُرعظم ہیں۔