پشاور بحریہ ٹاون پر اس وقت تمام سرمایہ کاروں کی نظریں مرکوز ہیں مگر اس کے افتتاح کے ساتھ ہی یہ منصوبہ تنازعات کی زد میں آ گیا ہے۔ ایک جانب اس کے لیے منتخب زمین پر دو فریقین میں شدید لڑائی چل رہی ہے تو دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بحریہ ٹاون کو این او سی جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔
پشاور بحریہ ٹاون کے لیے متھرا کے علاقے میں واقع کافور ڈھیری کا انتخاب کیا گیا جس پر سابق ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی محمود جان کے خاندان اور قوم عیسی خیل کے درمیان کئی برسوں سے تنازع چل رہا ہے۔اس لڑائی کی اصل وجہ قوم عیسی خیل کی کافور ڈھیری پر دعویداری ہے، فریقین کئی برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں اور موقع ملتے ہی ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں۔پشاور میں بحریہ پراجیکٹ کے افتتاح اور خصوصاً فارم کے اجرا کے ساتھ ہی گذشتہ ایک ہفتے سے عیسی خیل اور خانان کی لڑائی میں تیزی آ گئی ہے۔ایس پی ورسک سرکل ارشد خان کے مطابق ان دونوں فریقین کی لڑائی برسوں پرانی ہے جس میں اب تک نو انسانی جانیں چلی گئی ہیں جبکہ 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس لڑائی میں 31 مقدمات درج ہیں جس میں 55 افراد مختلف دفعات کے تحت گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ایس پی ورسک ارشد خان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ کچھ روز سے پھر جھڑپ چل رہی ہے تاہم فی الوقت فائرنگ کا سلسلہ رک چکا ہے مگر مکمل فائر بندی نہیں ہوئی، پولیس کی کوشش ہے کہ معاملہ پُرامن طریقے سے حل ہو جائے۔خیبر پختونخوا اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محمود جان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عیسی خیل کی جانب سے بھاری ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں، گذشتہ آٹھ دنوں میں میرے چار غریب زمینداروں کو قتل کیا گیا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہے، آخر حکومت کی رٹ کہاں ہے؟‘سابق ڈپٹی اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ میگا ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے ان کو لڑوایا جا رہا ہے لیکن ہم حق پر ہیں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے مزید بتایا کہ سنہ 1870 سے یہ تمام اراضی کافور ڈھیری کے خانان کی ملکیت ہے، اس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، کچھ طاقتور لوگ یہ زمین ہتھیانا چاہتے ہیں مگر ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔کافور ڈھیری کے رہائشی جمشید علی نے کہا کہ ’عیسی خیل قوم اور خانان قوم میں لڑائی دن بدن خطرناک ہوتی جا رہی ہے، پچھلے تین چار دن سے راکٹ لانچرز اور مارٹرز کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے۔ اب تک چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’دھماکوں کی آوازیں پشاور کے مرکز میں سنائی دیتی ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘سابق ڈپٹی سپیکر محمود جان اور قوم عیسی خیل مشران کے درمیان 2022 میں امن معاہدے پر حلف لیا گیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)بحریہ ٹاون کے پاس این او سی نہیںپشاور بحریہ ٹاون کی راہ میں ایک رکاوٹ این او سی کا نہ ہونا ہے۔ ضلعی انتظامیہ پشاور نے اس حوالے سے متھرا تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ڈپٹی کمشنر کو بحریہ ٹاون کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔متعلقہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سلیم ایوبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بحریہ ٹاون سوسائٹی کے پاس این او سی موجود نہیں ہے اور نہ زمین خریدی گئی ہے، اس لیے ان کے دفاتر کو سیل کیا گیا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ تمام قانونی قواعد و ضوابط پورے کرنے کے بعد دفاتر کھولنے یا کام کی اجازت ملے گی۔دوسری جانب نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال نے دو روز قبل 13 ستمبر کو پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ متھرا میں نجی ہاوسنگ سوسائٹی کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ حکومتی ادارے معاملے کو حل کرنے کے لیے تمام آپشنز پر غور کریں گے۔عوام نجی ہاوسنگ میں خرید وفروخت سے گریز کریںبیرسٹر فیروز جمال کے مطابق بحریہ ٹاون اور پشاور سٹی ہاوسنگ کے پاس نہ زمین ہے اور نہ این او سی ہے، اس لیے عوام کسی بھی قسم کے لین دین سے گریز کریں۔انہوں نے کہا کہ ان کے دفاتر کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے جبکہ بل بورڈز اور اشتہارات کو ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔بحریہ ٹاؤن کے کا سرمایہ کاروں کا ردعملاس معاملے پر بحریہ ٹاون سوسائٹی کے سرمایہ کار نادر خان نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے ابھی تک پلاٹ نہیں بیچا نہ آفر کی ہے، بلکہ صرف ممبرشپ فارم فروخت کیے ہیں جو ہر کمپنی کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن فارم پر لکھا ہے کہ یہ فارم مارکیٹ سروے یا ممبرشپ رجسٹریشن کے لیے ہے۔’بحریہ قانون کے مطابق تمام قواعد و ضوابط پورے کیے جائیں گے، این او سی کے بعد پلاٹ دیے جائیں گے۔‘انہوں نے کہا یہ کوئی معمولی پراجیکٹ نہیں ہے اس پر ابھی تک اربوں روپے خرچ ہوئے۔بحریہ ٹاؤن کے فارم بلیک میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک فروخت ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: بحریہ ٹاؤن)ریئل سٹیٹ انوسٹر نادر خان کے مطابق بحریہاسکیم سے پشاور کے غریبوں کو فائدہ ہو گا، 10 ہزار نوکریاں ملیں گی اور سرمایہ کاری ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ نگراں وزیر کو کسی نے غلط بریف کیا ہے، ہم ان کے دفتر جا کر ان کو تمام تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔واضح رہے کہ بحریہ ٹاون کے فارم جاری کر دیے گئے ہیں جس کی مقررہ قیمت 70 ہزار روپے ہے، مگر ابھی سے مارکیٹ میں زیادہ ڈیمانڈ کے باعث بلیک میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک فروخت ہو رہے ہیں۔