سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت، اٹارنی جنرل کے دلائل کا آغاز

image

پاکستان کی پارلیمنٹ کے منظور کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت وقفے کے بھی جاری ہے اور اٹارنی جنرل دلائل دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اس کیس کے لیے تشکیل دیے گئے اس فل بینچ میں 15 ججز شامل ہیں۔

عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے متعلق کیس کی سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد پہلی بار یہ کارروائی لائیو نشر کی گئی۔

اس قانون میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اختیارات سمیت مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے کے لیے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی بنانے کا کہا گیا تھا۔

اس کیس میں درخواست گزار خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ اور امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ دلائل دے رہے ہیں۔

’میں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تابع ہونے کا حلف نہیں لیا‘سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں وکیل خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ اپنے دلائل میں میری رائے یا میری مرضی کے مطابق کے بجائے یہ بتائیں کہ اس قانون میں آئین اور قانون کے متصادم کیا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’میری یا آپ کی رائے کیا ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بتائیے کہ آئین کے خلاف کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں نے آئین و قانون کے تابع ہونے کا حلف اٹھایا ہے۔ اس ملک میں مارشل لا بھی لگے، اس دوران بھی فیصلے ہوئے۔ میں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تابع ہونے کا حلف نہیں لیا۔‘

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘درخواست گزار کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے کہ آپ آرٹیکل 184 تین میں عدالت میں آئے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اگر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کر دی ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔‘

’ہم 15 غیرمنتخب لوگ بیٹھ کر قانون بنائیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟‘جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ ’پاکستان میں قوانین پارلیمنٹ سے آتے ہیں۔ پوری دنیا میں چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس کا اختیار واپس لینے سے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی کیسے ہو گئی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’کیا ہم 15 غیرمنتخب لوگ بیٹھ کر قانون بنائیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ اسے عدلیہ کی آزادی اور چیف جسٹس کے اختیار سے نہ جوڑیں۔ اگر منتخب نمائندے کوئی قانون بنائیں تو اس میں کیا برا ہے۔‘

قانون کے خلاف دلائل خواجہ طارق رحیم اور امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دیے (فوٹو: سکرین گریب)جسٹس جمال خان مندوخیل نے خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ کے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار آئین نے دیا ہے۔‘

درخواست گزار امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’اگر اس قانون کی توثیق ہوئی تو یہ تاریخ کی بدترین مثال ہو گی۔‘

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اس سے قبل کیا کیا ہوا؟سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نے قانون پر عمل درآمد روکتے ہوئے حکمِ امتناع جاری کر رکھا تھا۔

اتوار کو نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایوانِ صدر میں حلف اُٹھانے کے بعد سپریم کورٹ جا کر رجسٹرار کو ہدایات جاری کیں۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مقدمے کی سماعت کے لیے اس سے قبل آٹھ رُکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت پارلیمان نے سپریم کورٹ میں بینچز کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات میں تبدیلی کر رکھی ہے۔

عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں 15 ججز کام کر رہے ہیں۔

قبل ازیں  15 ستمبر جمعے کو رجسٹرار آفس کی جانب سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے کیس کو 18 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

’عدالت آنے والے سائلین سے مہمان جیسا سلوک کریں‘قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیر کی صبح اپنی گاڑی میں پروٹوکول کے بغیر سپریم کورٹ پہنچے تو عدالت کے سٹاف نے ان کا استقبال کیا۔

سپریم کورٹ کی گیلری میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سٹاف سے مختصر گفتگو میں کہا کہ ’عدالت اور سپریم کورٹ میں لوگ خوشی سے نہیں آتے۔ وہ اپنے مسئلے ختم کرنے کے لیے آتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’براہ کرم آپ کے ان(سائلین) کے ساتھ ایسا سلوک کیجیے جیسا کہ ایک میزبان مہمان سے کرتا ہے۔‘

بینچ میں کون کون شامل ہیں؟پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مقدمے کی سماعت کے لیے تشکیل دیے گئے فل کورٹ بینچ میں چیف جسٹس قاضی قائز عیسیٰ کے علاوہ 14 ججز میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

 

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US