سنی بلوچ ملیشیاؤں پر مشتمل ’جیش العدل‘ نامی شدت پسند تنظیم کا قیام سنہ 2009 میں ایران کی جانب سے ’جنداللہ‘ گروپ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ریاست مخالف اقدامات کی پاداش میں پھانسی دیے جانے کے بعد عمل میں آیا۔ یہ تنظیم ماضی میں ایرانی سکیورٹی فورسز اور سرحدی محافظوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔
ایران کی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کے ایک سرحدی گاؤں ’سبزکوہ‘ میں رہائشی علاقے کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق جس علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ پنجگور شہر سے اندازاً 90 کلومیٹر دور اور ایران کے سرحد کے قریب واقع ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے کی گئی اس ’غیرقانونی‘ فضائی حدود کی خلاف ورزی کے نتیجے میں دو بچے ہلاک جبکہ تین لڑکیاں زخمی ہوئی ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی بیان میں ایران کے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی ہے تاہم حملے کی نوعیت، یعنی آیا اس حملے میں میزائل داغے گئے یا ڈرون حملہ کیا گیا، کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
ایران کی جانب سے اس واقعے پر اب تک کوئی باضابطہ یا سرکاری سطح پر ردعمل نہیں دیا گیا ہے تاہم ایران کی نیم سرکاری اور پاسدارانِ انقلاب سے وابستہ نیوز ایجنسی ’تسنیم نیوز‘ کے مطابق پاکستان میں جیش العدل نامی عسکریت پسند گروہ کے دو اہم ٹھکانوں کو میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے تباہ کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس آپریشن کا مرکزی ہدف پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کوہ سبز کا علاقہ تھا، جو پاکستان میں جیش العدل کے عسکریت پسندوں کا سب سے بڑے مرکز قرار دیا جاتا ہے۔
نامہ نگار بی بی سی محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی نے سبز کوہ میں میزائل گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس علاقے میں یہ میزائل گرے ہیں وہ آبادی والا علاقہ ہے جبکہ نقصان کی مزید تفصیلات اکھٹی کی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ ایران کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے گذشتہ تین روز کے دوران سرحد پار کیا جانے والا یہ تیسرا میزائل حملہ ہے۔ پیر (15 جنوری) کو پاسدارانِ انقلاب نے عراق کے کرد علاقے اربی پر 11 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور یہ دعویٰ کیا تھا عراق میں اسرائیلی اہداف (موساد کے اڈوں) کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسی طرح پیر ہی کے دن پاسداران انقلاب نے شام پر میزائل حملہ کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس نے وہاں شدت پسند گروہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے ٹھکانے تباہ کیے ہیں۔
پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں: دفتر خارجہ

پاکستان نے ایران کی جانب سے کی جانے والی اس کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی کی شدید مذمت کرتا ہے جس کے نتیجے میں دو بچے ہلاک جبکہ تین لڑکیاں زخمی ہو گئی ہیں۔
وزرات خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خودمختاری کی یہ خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اور بھی تشویشناک ہے کہ یہ غیر قانونی عمل پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے کے متعدد چینلز موجود ہونے کے باوجود ہوا ہے۔
دفتر خارجہ نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں بلایا گیا ہے تاکہ پاکستان کی خودمختاری کی اس صریحاً خلاف ورزی کی شدید مذمت کی جائے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ اس غیرقانونی اقدام کے تمام تر نتائج کی ذمہ داری پوری طرح سے ایران پر عائد ہو گی۔
جیش العدل کیا ہے؟
عبدالمالک ریگی کو ایران میں پھانسی دیے جانے کے خلاف پاکستان میں چند مظاہرے ہوئے تھے (فائل فوٹو)بی بی سی فارسی کے مطابق ’جیش العدل‘ تنظیم ایک مسلح عسکریت پسند گروہ ہے جو ایرانی حکومت کا مخالف ہے۔ یہ تنظیم خود کو ’انصاف اور مساوات کی فوج‘ اور سنی تنظیم کے طور پر متعارف کراتی ہے۔ یہ گروہ خود کو ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ’سُنی حقوق کا محافظ‘ قرار دیتا ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق سنی بلوچ ملیشیاؤں پر مشتمل ’جیش العدل‘ نامی تنظیم کا قیام سنہ 2009 میں ایران کی جانب سے عسکریت پسند گروہ ’جند اللہ‘ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ’ملک و قوم کے خلاف کام کرنے‘ کے الزام میں گرفتار اور پھانسی دینے کے چند ماہ بعد بنائی گئی تھی۔
عبدالمالک ریگی کو ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں بم دھماکے کرنے، ایرانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے اور برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے کے الزامات کے تحت پھانسی دی گئی تھی۔
دوسری جانب امریکہ کے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جنس کے مطابق ’جیش العدل‘ نامی شدت پسند تنظیم (جس کا ماضی کا نام ’جنداللہ‘ ہے) سنہ 2005 میں اُس وقت کے صدر احمدی نژاد پر حملے سمیت ایران میں متعدد دھماکوں اور حملوں میں ملوث رہی ہے اور اس تنظیم کی جانب سے یہ کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان کے سرحدی صوبے چار باہ اور زاہدان میں کی گئی ہیں۔
بی بی سی فارسی کے مطابق اپنی تشکیل کے ابتدائی برسوں میں شام میں ایران کی ’مداخلت‘ جیسے اقدام کی مخالفت کو جند اللہ کی پالیسیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ سنہ 2012 میں اس تنظیم نے اپنا نام تبدیل کر کے ’جیش العدل‘ رکھا ہے۔
گذشتہ برسوں کے دوران اس گروہ نے ایران کی فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مسلح اور خونریز جھڑپیں کی ہیں اور جنوب مشرقی ایران کے سرحدی علاقوں میں کئی مسلح حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق ایران کی حکومت ’جیش العدل‘ کو ’دہشت گرد گروہ‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں سے منسلک سمجھتی ہے اور اسے ’جیش الظلم‘ کہتی ہے۔
ایران کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کا قتل اور ایرانی سرحدی محافظوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کا اغوا اس گروہ کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق زاہدان کے معروف امام مولوی عبدالحمید نے ہمیشہ اس گروہ کی طرف سے ایرانی سرحدی محافظوں پر حملوں اور ان کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور ہر حال ہی میں چند مغویوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اُنھوں نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائیاں ’سیستان اور بلوچستان کے علاقے کے لیے نقصان دہ ہیں‘، اس لیے اس نوعیت کے حملے بند کیے جائیں۔
سنہ 2002 میں جند اللہ کے قیام کے بعد سے اس تنظیم نے بارہا ایران میں مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان میں سے ایک سب سے خونریز واقعہ سنہ 2008 کے صدارتی انتخابات کے موقع پر، زاہدان میں شیعہ مساجد میں سے ایک میں بم دھماکہ تھا جس میں 25 افراد ہلاک اور 120 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری جند اللہ نے قبول کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
جیش العدل (جند اللہ) ایران میں سکیورٹی فورسز اور سرحدی محافظوں پر ہونے والے بہت سے حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہےجیش النصر: یرغمالیوں کی پھانسی پر ’اختلاف؟‘
بی بی سی فارسی کے مطابق عبدالرؤف ریگی (جنداللہ گروپ کے بانی سربراہ عبدالمالک ریگی کے بھائی) نے 2013 کے موسم گرما میں جیش العدل گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ’جیش النصر‘ کی شکل میں ایرانی حکومت کے خلاف اپنی مسلح سرگرمیاں کا آغاز کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ایک ایرانی یرغمالی کو پھانسی دینے پر اس گروپ کے جنگجوؤں کے درمیان تنازع پیدا ہونے کے بعد عبدالرؤف ریگی نے جیش العدل گروپ کو چھوڑ کر جیش النصر گروپ بنایا تھا۔
عبدالرؤف ریگی مبینہ طور پر ستمبر 2013 میں ہلاککر دیے گئے تھے اور اس وقت ایران کی سرکاریخبر رساں ایجنسیوں بشمول ارنا، فارس اور العالم نے جیش النصر کے رہنما عبدالرؤف ریگی اور اُن کے بھتیجے ابوبکر ریگی کی ہلاکت کو اس گروہ کے ایک ’اندرونی جھگڑے‘ کے طور رپورٹ کیا تھا۔
سنہ 2016 میں ’جیش العدل‘ نے ایک اعلان کیا تھا کہ ’جیش النصر‘ کے جنگجوؤں کو ’جیش العدل‘میں ضم کر دیا گیا ہے اور یہ گروہ عملی طور پر تحلیل ہو چکا ہے۔
پاکستان، ایران: حالیہ کشیدگی کے واقعات
گذشتہ ماہ ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایک پولیس سٹیشن پر رات گئے کیے جانے والے حملے میں کم از کم 11 ایرانی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اس وقت خبر دی تھی کہ ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرحدوں میں اڈے قائم کرنے سے روکے۔
ایرانی خبر رساں ادارے نےکہا تھا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’حملہ آور پاکستان سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔‘
اس واقعے کے بعد پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں دہشت گردوں کے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایران کے ساتھ پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔
اس سے قبل بھی ایسے ہی حملے ہو چکے ہیں، جن میں گذشتہ سال 23 جولائی کا حملہ بھی شامل ہے جس میں چار ایرانی پولیس اہلکار گشت کے دوران مارے گئے تھے۔ یہ اس صوبے میں فائرنگ کے تبادلے میں دو پولیس اہلکاروں اور چار حملہ آوروں کے مارے جانے کے دو ہفتے بعد پیش آیا تھا اور جس کی ذمہ داریجیش العدل نے لی تھی۔
صوبہ سیستان و بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟
بی بی سی فارسی کے مطابق ایران کے جنوب مشرق میں صوبہ سیستان و بلوچستان کو گذشتہ کئی برسوں کے دوران سامنے آنے والے مختلف اشاریوں کے مطابق ایران کا ’سب سے محروم‘ صوبہ کہا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس صوبے کی تقریباً نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔
ایران کے صوبوں میں سیستان اور بلوچستان میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ تھی۔ اس صوبے میں ناخواندگی کی شرح پورے ایران میں سب سے زیادہ ناخواندگی کی شرح میں سے ایک ہے۔
حالیہ برسوں میں ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں مسلح گروہوں نے بارہا ایرانی فوجی دستوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ایران کا الزام ہے کہ پاکستان اُن گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاکستان میں پناہ گاہیں ہیں۔
مذہبی اور نسلی کشیدگی اور عدم اطمینان، بلوچ مسلح گروہوں کی سرگرمیاں، پاکستان کے ساتھ طویل سرحد، منشیات کی سمگلنگ کا منافع بخش کاروبار، امتیازی سلوک، غربت اور محرومی، اور مقامی حکام اور مرکزی حکومت پر عوام کا عدم اطمینان، اور غیر قانونی طور پر ہتھیاروں کی آسان رسائی کے تمام عوامل اس صوبے کی سیکورٹی کو کمزور کرنے میں کارگر ہیں۔
ایرانی حکومت کی جانب سے اس خطے میں سرگرم مسلح گروہوں کے ارکان کی گرفتاری اور سزائے موت دیے جانے کے باوجود یہ حملے جاری ہیں۔