پی ٹی آئی کے امیدواروں نے اپنے انتخابی نشانات کو پارٹی پرچم کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مثال کے طور پر کہیں چارپائی سبز اور سُرخ رنگ میں آویزاں کی گئی ہے تو کہیں چینک اور بینگن ان دو رنگوں میں نظر آ رہے ہیں۔ اس نئی حکمت عملی کو اپنانے کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار مشکلات کا شکار ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم ہو گئی ہے جس کے باعث سابق حکمراں جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے والی امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے امیدواروں کے پاس اب کوئی ایک انتخابی نشان نہیں بلکہ سینکڑوں انتخابی نشان ہیں اور اس پس منظر میں ووٹنگ کے روز اس جماعت کے ووٹرز کو ناصرف اپنے پسندیدہ امیدواروں کے نام یاد رکھنے ہوں گے بلکہ ان کے انتخابی نشان کو بھی ذہن نشین کرنا ہو گا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم اپنے امیدواروں کی نئی لسٹ بنائیں گے اور مہم چلائیں گے، ہم اپنے امیدواروں کو انتخابی نشانات کے ساتھ سامنے لائیں گے۔‘
انتخابی نشان اور پی ٹی آئی امیدوار کی کشمکش
عام انتخابات سے صرف چند ہفتوں قبل انتخابی نشان ’بلے‘ کے چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما اور امیدوار اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اپنے ووٹرز کو کیسے بتائیں کہ وہ عمران خان کی جماعت کے ہی ’اصل امیدوار‘ ہیں۔
ملک بھر میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدوار عدالتوں سے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ انھیں ’بلے‘ سے ملتا جُلتا یا ان کی پسند کا کوئی انتخابی نشان مل سکے۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کو ’وکٹ‘ بطور انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں پی ٹی آئی کے ایڈیشنل جنرل سیکریٹری عالم خان کاکڑ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انھوں نے ان اتنخابی نشانات کے لیے درخواستیں دیں جو کہ ’بلے‘ سے مشابہت رکھتے ہوں یا ان کا کرکٹ سے کوئی تعلق بنتا ہو۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’چونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وقت کم تھا اس لیے وکٹ کے علاوہ بلے سے جُڑے دیگر نشانات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کے بارے میں لوگوں کو کیسے بتائے گی؟
’بلے‘ کا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے ووٹرز کو اپنے امیدواروں کی پہچان بتانے کے لیے نئی حکمت عملی بنائی ہے۔
پی ٹی آئی امیدواروں نے اپنے انتخابی نشانات کو پارٹی پرچم کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مثال کے طور پر کہیں چارپائی سبز اور سُرخ رنگ میں آویزاں کی گئی ہے تو کہیں چینک اور بینگن ان دو رنگوں میں نظر آ رہے ہیں۔
اس نئی حکمت عملی کو اپنانے کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار مشکلات کا شکار ہیں۔
پی ٹی آئی کے روپوش رہنما عاطف خان نے نامعلوم مقام سے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے درانتی کا نشان ملا ہے اور میرے ہی حلقے میں صوبائی اسمبلی کے ایک اور امیدوار جو ہمارے امیدوار کا مخالف ہے اسے بھی درانتی کا نشان ہی دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’دیہی علاقوں میں بیشتر افراد پڑھے لکھے نہیں ہوتے، وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں لیکن وہ بیلٹ پیپر پر امیدوار کا نام نہیں پڑھ سکتے۔‘
عاطف خان نے تسلیم کیا کہ ایک انتخابی نشان نہ ہونے کے سبب ووٹرز کو، بالخصوص دیہی علاقوں میں‘ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو پہچاننے میں مشکلات پیش آئیں گی۔
’بیلٹ پیپر تو رنگین نہیں ہوتے اور پولنگ سٹیشن میں وائٹ اور بلیک بیلٹ پیپر ہوتا ہے۔ اس لیے ووٹرز کو سمجھانا ہوگا کہ ووٹ کیسے ڈالنا ہے۔‘
عاطف خان نے مزید بتایا کہ ووٹرز کی آسانی کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے ایک فہرست جاری کی جائے گی جس میں تمام امیدواروں کے نام اور ان کے انتخابی نشان درج ہوں گے۔

’ایسے انتخابی نشان دیے گئے جن پر مذاق اُڑایا جا رہا ہے‘
پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما اور خیبرپختونخوا حکومت میں سابق وزیر تیمور سلیم جھگڑا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے امیدواروں کو ایسے انتخابی نشانات بھی دیے گئے ہیں جن کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ہی حلقے میں ہم نام امیدوار بھی موجود ہیں جس سے ابہام پیدا ہو گا۔ بعض حلقوں میں ایک جیسے نشانات دو امیدواروں کو الاٹ کیے گئے ہیں، جیسے کہ ایک کو گٹار اور دوسرے کو وائلن دیا گیا ہے۔ یہ دونوں نشانات دیکھنے میں ایک جیسے نظر آتے ہیں۔‘
تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کس بنیاد پر آزاد امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے۔
انتخابی نشان کیسے الاٹ کیے جاتے ہیں؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے بی بی سی کو بتایا کہ انتخابی نشان ہر حلقے میں الاٹ کرنا ریٹرننگ آفیسر کا صوابدیدی اختیار ہے تاہم آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے والے امیدوار اپنی پسند کا نشان حاصل کرنے کے لیے درخواست بھی دے سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں سے جو انتخابی نشان بچ جاتے ہیں وہ ریٹرننگ آفیسر آزاد امیدواروں کو الاٹ کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آزاد امیدوار اپنی پسند کے انتخابی نشان کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور اگر وہ نشان پہلے سے کسی امیدوار کو الاٹ نہیں ہوا ہو گا تو ریٹرننگ آفیسرز وہ نشان امیدوار کی درخواست پر عموماً الاٹ کر دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے اپنے انتخابی نشان ’بلّے‘ سے محرومی کا پس منظر
گذشتہ برس 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لے لیا تھا۔
جس کے بعد 26 دسمبر کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔
بعدازاں 30 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی تھی اور 03 جنوری کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کی بحالی کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اپنا حکم امتناع واپس لے لیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے اور بیرسٹر گوہر خان پارٹی چیئرمین شپ سے محروم ہو گئے تھے۔
تاہم 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ’بلے‘ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا تھا اور سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔