پاکستان ایران کشیدگی: ’دعا ہے سرحد بند نہ ہو، ہماری روزی روٹی یہیں سے آتی ہے‘

ایران کی جانب سے پاکستان میں حملہ کیے جانے کے فوراً بعد سرحد کو بند کر دیا گیا تھا جسے ایک روز کی بندش کے بعد کھول تو دیا گیا لیکن سرحد کی بندش سے تربت کے مقامی افراد بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک غیر یقینی ہر شحض کے چہرے پر عیاں ہے کیونکہوہ کہتے ہیں کہ ان کا روزگار ہی سرحد پر دو طرفہ تجارت سے جڑا ہے۔
تربت
BBC

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں عام دنوں میں کافی بھیڑ ہوتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہاں سے ایران کی سرحد سے ہونے والی تجارت خصوصاً ایرانی تیل کی سپلائی ہے۔ لیکن اس بار نہ صرف بھیڑ معمول سے زیادہ تھی بلکہ یہاں آئے لوگوں میں ایک بے چینی، جلدبازی اور غیر یقینی کی سی کیفیت تھی۔

تربت میں ایرانی تیل کی ایک بڑی منڈی ہے، اس منڈی میں موجود افراد خصوصاً ایرانی تیل لانے والے اس عجلت میں دکھائی دیے کہ جلد از جلد اپنا کام مکمل کر لیں کہیں ایران اور پاکستان کے درمیان سرحد بند نہ کر دی جائے اور اس کی وجہ پاکستان اور ایران کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدہ صورتحال ہے۔

بلوچستان کے اس جنوب مغربی شہر سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ایرانی سرحد اور وہاں سے ایرانی شہر سراوان پڑتا ہے۔ یہ وہ ہی شہر ہے جہاں پاکستان نے 17 جنوری کو ایرانی میزائل حملے کے جواب میں ’دہشتگردوں کے ٹھکانوں‘ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔

یاد رہے کہ ایران کی جانب سے 16 جنوری کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ’سبز کوہ‘ میں شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق دو بچے ہلاک جبکہ تین بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔

جبکہ ایرانی حملے کا ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان نے 17 جنوری کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں ایرانی حکام کی جانب سے نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

پاکستان
BBC

مجھے اس کشیدگی کے درمیان تربت شہر میں معمول سے زیادہ سیکورٹی نظر آئی، فوج، ایف سی اور پولیس کی گاڑیاں شہر میں پیٹرولنگ کر رہی تھی، جبکہ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سنیپ جیکنگ کا عمل جاری تھا۔

جب میں نے کراچی سے تربت جانے کے لیے سفر شروع کیا تھا تو مجھے سب سے پہلے معمول سے زیادہ ٹریفک اور سیکورٹی چیکنگ کا احساس حب کے قریب ہوا تھا جہاں مال برادر گاڑیوں، آئل ٹینکرز اور کنٹینرز کی ایک بڑی تعداد طویل قطار میں کھڑی دکھائی دی۔

تربت جانے والے راستوں پر بھی سیکورٹی فورسز کے اہلکار بڑی تعداد میں تعینات تھے اور ہر آنے جانے والی گاڑی کو چیک کر رہے تھے۔ صرف مقامی فیملیز کی گاڑیوں سے کچھ نرمی کی جا رہی تھی۔

میں نے تربت پہنچ کر سیکورٹی فورسز کی متعدد گاڑیاں سرحد کی جانب جانے والے راستے پر بھی دیکھی۔

یہاں پہنچ کر جب کچھ لوگوں سے بات کی تو علم ہوا کہ 16 جنوری کو ایران کی جانب سے ہونے والے حملے نے یہاں سب کو حیران کر دیا ہے۔ کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں کبھی کشیدگی نہیں دیکھی گئی۔

دونوں ممالک میں دو طرفہ تجارت کے ساتھ ساتھ گیس پائپ لائن، بجلی ٹرانسمیشن سمیت بہت سے منصوبوں پر شراکت داری رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بارڈر مینجمنٹ سے متعلق بھی میکنازم موجود ہے۔

پاکستان
BBC

’دونوں ملک سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کا سوچیں‘

تربت کی منڈی میں موجود افراد نے مجھے بتایا کہ اتنے برسوں میں بلوچستان سے متصل ایرانی سرحد پر ہونے والا کوئی بھی واقعہ سرحد تک ہی محدود رہتا ہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ ناصرف ایران نے پنجگُور کے نزدیک گاؤں پر حملہ کیا بلکہ اسے باقاعدہ طور پر قبول بھی کیا۔

ایران کی جانب سے پاکستان میں حملہ کیے جانے کے فوراً بعد سرحد کو بند کر دیا گیا تھا جسے ایک روز کی بندش کے بعد کھول تو دیا گیا لیکن سرحد کی بندش سے تربت کے مقامی افراد بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک غیر یقینی ہر شحض کے چہرے پر عیاں ہے کیونکہوہ کہتے ہیں کہ ان کا روزگار ہی سرحد پر دو طرفہ تجارت سے جڑا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس مئی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان اور ایران کی مند-پشین سرحد پر بارڈر مارکیٹ اور ایران سے بجلی کی نئی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ جس کا مقصد ممالک میں تجارت کو فروغ دینا اور ملحقہ علاقوں میں ترقی اور خوشحالی لانا تھا۔

مجھے یہاں منڈی میں موجود افراد نے بتایا کہ جب پاکستان اور ایران نے گذشتہ برس بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا تو یہاں کے لوگ بھی بہت خوش ہوئے تھے۔

’میرے خیال میں دونوں ملک سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کا سوچیں۔‘ منڈی کے ایک دکاندار نے مجھ سے کہا۔

اس حالیہ کشیدگی کے بعد کی صورتحال پر فکر کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری روزی، روٹی یہیں سے آتی ہے۔ پٹرول کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی آتا ہے۔ بس اب دعا ہے یہ بند نہ ہو۔‘

پاکستان
BBC

اس وقت مختلف ممالک پاکستان اور ایران کو تعلقات بہتر کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ جبکہ حالیہ دنوں میں گوادر سے عمان اور خلیجی ممالک کے لیے پروازوں کو منسوخ کیا گیا تھا، اب انھیں بحال کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں جبکہ دونوں ممالک کے کشیدگی میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ ’تعلقات کی بحالی کا سن کر جہاں کچھ لوگ بہتر محسوس کررہے ہیں وہیں اب بھی ایک خوف ہے کہ کہیں آنے والے دنوں میں مزید کشیدگی نہ ہوجائے۔‘

’ایران سے تعلقات خراب کرنا کسی کے فائدے میں نہیں‘

Iran
Reuters

امریکہ میں مقیم بلوچ صحافی ملک سراج اکبر کا ایران اور پاکستان کے درمیان حالیہ واقعات پر کہنا تھا کہ ’پاکستان مزید جنگ برداشت نہیں کرسکتا۔ اور اس وقت ایران سے تعلقات خراب کرنا کسی کے فائدے میں نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حال ہی میں پاکستان کے ایک اور پڑوسی ملک افغانستان سے بھی تعلقات خراب ہوئے ہیں اور ان سب کے بیچ میں اب ایران سے بھی کشیدگی ہوئی۔ جس کا ذمہ دار ایران پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف غیر مؤثر کارروائی کو ٹھہراتا ہے۔‘

ایران اور پاکستان جن گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں یہ مقامی بلوچ قومسے تعلق رکھتے ہیں۔ اس خطے میں آباد بلوچ قوم تین ممالک میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان، دوسراپاکستان کے بلوچستان اور تیسراکچھ تعداد ان کی بلوچستان سے متصل افغانستان کے سرحد علاقے میں مقیم ہے۔

ان کے مطابق پاکستان ایران اور افغانستان کے ان علاقوں میں مقیم یہ بلوچ افراد غربت و افلاس، ناخواندگی، وسائل کی کمی اور بنیادی حقوق سے محرومی کا شکار ہیں اوراپنے حقوق کے لیے ایک بلوچ ریاست کے قیام کے لیے ایران اور پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کر رہے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار اسد بلوچ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’سرحدی علاقوں کے لوگ ناصرف شادی بلکہ ایک جیسی روایات کے نتیجے میں بھی ایک دوسرے سے جُڑے ہیں۔ اور اس وقت وہ نا چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں جسے وہ کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘

ملک سراج اکبر کا کہنا ہے کہ ’ایران اور پاکستان دونوں کے سرحدی علاقوں میں غربت اور سیاسی حالات خراب ہونے کی وجہ سے مسلح مزاحمت ہے اور اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو اس مزاحمت کو مزید تقویت ملے گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts