’گھر پر پی ٹی آئی کا جھنڈا لگانے پر‘ تلخی: پشاور میں باپ نے قطر پلٹ بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، پولیس

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھ بیر میں مبینہ طور پر والد نے اپنے بیٹے کو ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا گھر پر لگانے اور اس ضمن میں ہونے والی تلخ کلامی کے بعد قتل کر دیا ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھ بیر میں مبینہ طور پر والد نے اپنے بیٹے کو ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا گھر پر لگانے اور اس ضمن میں ہونے والی تلخ کلامی کے بعد قتل کر دیا ہے۔

اس واقعے کا مقدمہ مقتول عطاالرحمان کے بھائی عارف الرحمان کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں باپ بیٹا میں ’سیاسی گفتگو پر تکرار اور تلخ کلامی کا آغاز ہوا جس پر طیش میں آ کر والد نے اپنے پستول کی مدد سے اپنے بیٹے پر فائرنگ کر دی۔‘

اس مقدمے کے مدعی اور مقتول کے بھائی عارف الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا بھائی قطر میں بسلسلہ روزگار مقیم تھا اور وہاں سینیٹری کا کام کرتا تھا۔

عارف کے مطابق ان کے بھائی دو ماہ کی چھٹی لے کر پشاور میں اپنے گھر آیا تھا اور اسے 20 روز بعد واپس قطر جانا تھا۔

عارف کہتے ہیں کہ ان کے والد اور بھائی میں بحث گھر کی چھت پر تحریک انصاف کا پارٹی پرچم لگانے سے شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے تلخ کلامی تک پہنچ گئی اور طیش میں آ کر اُن کے والد نے عطا الرحمان پر گولی چلا دی۔

بی بی سی نے جب عارف سے رابطہ کیا تو وہ کافی رنجیدہ تھے۔

اُن کے مطابق گذشتہ روز اُن کا چھوٹا بھائی عطا پاکستان تحریک انصاف کا جھنڈا گھر لے کر آیا اور اسے چھت پر لگا دیا مگر یہ بات اُن کے والد کو پسند نہ آئی۔

عارف کے مطابق والد نے بھائی کو تاکید کی کہ ’ووٹ جس کو بھی دینا ہے دو، لیکن یہ جھنڈا لگانے والی بات صحیح نہیں ہے۔‘

عارف کہتے ہیں کہ اس بات پر ان کے چھوٹے بھائی نے والد سے بحث شروع کر دی کہ جھنڈا لگانا کوئی بڑی بات نہیں ہے اور بالآخر تکرار اس حد تک بڑھ گئی کہ نور رحمان نے پستول نکال کر اپنے بیٹے پر فائرنگ کر دی۔

اس کیس کی ایف آئی آر کے مطابق عطا الرحمان کو علاج کے لیے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا جا رہا تھا مگر وہ راستے ہی میں دم توڑ گئے۔

یہ واقعہ پیش آنے کے بعد ملزم والد گھر سے فرار ہو گئے ہیں۔ ایس پی صدر ڈویژن عبدالسلام خالد کا کہنا ہے کہ ملزم کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

عارف کے مطابق ان کے والد کچھ عرصہ قبل ہی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ عارف کے مطابق ان کے والد کا تعلق بظاہر کسی سیاسی جماعت سے نہیں تاہم ان کے علاقے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت موجود ہے اور اسی جماعت کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’گھر میں تو اب غم کی فضا ہے۔ ہمارا کمانے والا بھائی اب نہیں رہا اور پورا علاقہ اس واقعے پر غمزدہ ہے۔‘

عارف کہتے ہیں کہ عطا الرحمان کی تدفین تو کردی گئی ہے مگر اب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہاکہ آگے کیا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اتنی بڑی بات نہیں تھی، بس باتوں باتوں میں تلخی اتنی بڑھی کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔‘

عدم برداشت کی وجوہات کیا ہیں؟

ڈاکٹر فوزیہ فاروق قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بطورِ پروفیسر کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی عدم برداشت اب تشدد کی شکل میں بہت زیادہ سامنے آ رہی ہے اور معاشرے میں تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں تک کہ ’قریبی سماجی رشتوں، کاروباری تعلقات اور نوکری میں بھی ہمیں یہ تناؤ نظر آتا ہے۔‘

ان کے مطابق پچھلے دو تین سالوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ماننے والے حریفوں کی طرح ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ لڑائیاں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ عدم برداشت اور تشدد کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات اور مایوسیاں بھی ہیں۔

’پاکستان کے متعلق جو عام شہریوں کے خواب اور خواہشات تھیں، اُن کے پورا نہ ہونے پر پھیلنے والی مایوسیاں اب سیاسی تناؤ میں تبدیل ہو رہی ہیں۔‘

جامعہ کراچی کی شعبہ نفسیات کی پروفیسر قدسیہ طارق اس بات سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے بڑھتی ہوئی محرومیاں اور مایوسیوں کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں کی عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پروفیسر قدسیہ کہتی ہیں کہ ’انسان میں برداشت صرف اس وقت آتا ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہو اور اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوں۔‘

ان کے مطابق سیاسی جماعتیں اس ہی بات کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور لوگوں کو کھانے اور راشن کا لالچ دے کر اپنے جلسے جلوسوں میں بلاتی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts