دورِ حاضر کے والدین اپنے بچوں کے بارے میں زیادہ حسّاس ہو گئے ہیں اور اب اکثر والدین اس بات کا برا مناتے ہیں اگر کوئی ان کے بچوں کو بغیر اجازت کے چھوئے۔ اسی پسِ منظر میں عمران اشرف کے اس چھوٹے سے عمل نے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔

پاکستانی اداکار اور میزبان عمران اشرف نے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے شو ’مذاق رات‘ میں شریک ایک چھوٹی بچی کو سٹیج پر بُلایا اور اُسے اپنے قریب بٹھا کر ہاتھ لگانے سے پہلے اُس کی والدہ سے پوچھا کہ ’میں چھو سکتا ہوں، اجازت ہے؟
بچی کی والدہ کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ہی پھر عمران اشرف نے بچی کو ہاتھ لگایا۔
عمران اشرف کے اس عمل نے کئی لوگوں کے دل جیت لیے اور چند سیکنڈز کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔
ماڈل اور اداکارہ نادیہ حُسین نے عمران اشرف کے عمل کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’بچی کو چھونے سے پہلے اجازت مانگنا سب سے بہترین عمل ہے جو میں نے کسی پاکستانی سلیبریٹی کی جانب سے دیکھا۔‘
سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک صارف نے لکھا کہ ’جس لمحے عمران اشرف نے اس بچی کی ماں سے پوچھا کہ کیا وہ اُسے چھو سکتے ہیں یا نہیں، میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ آپ کے لیے اور زیادہ احترام عمران۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ ’جس طرح آپ نے اجازت طلب کی، آپ نے اُس سے بہت عزت کمائی۔ بعض اوقات ایک حرکت ہی تبدیلی کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی تمام لڑکیوں کے والدین کی طرف سے شکریہ۔‘
واضح رہے کہ دنیا بھر میں ’می ٹو موومنٹ‘ کے بعد بے تحاشہ لوگوں نے اپنے اپنے بچپن میں بدسلوکی کے واقعات شیئر کیے۔
اس کے ساتھ ساتھ پچھلے دس پندرہ سال میں پاکستان میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کیسز منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں میں اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے سے متعلق آگاہی بھی پھیلی ہے۔
حالیہ دور کے والدین اپنے بچوں کے بارے میں زیادہ حسّاس ہو گئے ہیں اور اب اکثر والدین اس بات کا برا مناتے ہیں اگر کوئی ان کے بچوں کو بغیر اجازت کے چھوئے۔ اسی پسِ منظر میں عمران اشرف کے اس چھوٹے سے عمل نے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔
https://twitter.com/v_all_r_markhor/status/1750453325504389444?s=46&t=ZzUrzP6KI4K1tLzQcQBqjQ
’ماں سے اجازت لینا تو گناہ سمجھتے ہیں‘
تہمینہ ملک ایک سنگل مدر ہیں۔ اُن کی ایک گیارہ سال کی بیٹی اور ایک پانچ سال کا بیٹا ہے۔ بچوں کی تربیت کی بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے گھر کا اصول ہے کہ ’کسی بھی کھیل میں، کسی بھی وقت کوئی کسی کے کولہوں اور سینے کو نہیں چھوئے گا۔ غلطی سے چھو لیا تو فوری سوری بولتے ہیں۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’بیٹے کو جب بھی میں گلے لگاتی یا پیار کرتی ہوں تو اُس کو بتاتی ہوں کہ ماما نے آپ کو گلے لگانا یا چومنا ہے۔‘
’وہ بھی جب میرے پاس اس مقصد سے آتا ہے تو پہلے بولتا ہے کیونکہ اُس نے یہ ہی دیکھا ہے۔ باہر جانے سے پہلے میں بچوں کو بتا دیتی ہوں کہ کس سے ہاتھ ملانا اور کس کو پیار کرنا ہے یا کون کرے گا تو کروا لینا۔ اس بارے میں ہم بات کر لیتے ہیں۔‘
صباحت خان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’قاری صاحب آتے ہیں تو میں نظر رکھتی ہوں کہ وہ کتنے فاصلے پر بیٹھے ہیں۔ میں نے کچھ ٹیوشن والی ٹیچرز کے بارے میں شکایات سُنی ہیں۔ ہمارے لیے یہ ڈرانے والا پہلو بھی ہے کہ ہم اپنے بچے کو کیسے محفوظ رکھیں۔‘
والدین سے اجازت لینے کی بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’میری دو بیٹیاں ہیں اور میں بالکل پسند نہیں کرتی کہ ماموں، چاچو بچوں کو گودوں میں بٹھائیں۔ ماں سے اجازت لینا تو وہ گناہ سمجھتے ہیں۔ سب کے بچے ہوتے ہیں اور ان کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔‘
ویسے تو ماضی میں اس بات کو قابِل فخر اور پیار کی علامت سمجھا جاتا تھا کہ کوئی مہمان یا رشتہ دار آپ کے بچے کو توجہ دے اور اُسے پیار کرے لیکن اب اکثر والدین اس عمل کو بُرا سمجھنے لگے ہیں۔
صباحت نے بتایا کہ وہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتی ہیں اور اُن کے جیٹھ کے بچوں کی عمریں تیس تیس برس ہیں۔
’میں نے اِس چیز کا کھُل کر اظہار کیا اور بُرا منایا کہ وہ لوگ میرے بچے کو اپنے کمروں میں لے کر جائیں لیکن اِس کا بہت ہی منفی ردعمل سامنے آیا اور لڑائیاں ہو گئیں۔ شوہر کی طرف سے ردعمل آیا کہ آپ کا ذہن گندا ہے، یہ کیا غلیظ اور بے ہودہ باتیں کر کے ہمارے گھر کا ماحول خراب کر رہی ہو۔‘

’میں نے قاری کو بھی سمجھایا کہ بچوں سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے‘
موجودہ دور کے والدین اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کےلیے کیا کر رہے ہیں؟ اس بارے میں تہمینہ بتاتی ہیں کہ ’میں ہر چیز کے معاملے میں بچوں کی الجھن اور کوفت کا لیول دیکھتی ہوں۔ اگر مجھے لگے کہ کوئی بچوں کو زبردستی پکڑ یا دبوچ رہا یا پیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، چاہے وہ خاتون ہوں یا مرد، تو میں منع کرتی ہوں کہاُسے چھوڑ دیں۔‘
انھوں نے اپنی ایک بیس سال پرانی دوست کی مثال دے کر سمجھایا کہ ’اُس کو بچوں سے بے تحاشہ پیار ہے، اُس کا دل ہوتا ہے کہ وہ جب بھی آئے بچوں کو گلے لگائے اور پیار کرے۔ میرا بیٹا بہت کم پیار کے جسمانی اظہار کی طرف جاتا ہے، تو میں اپنی دوست کو بول دیتی ہوں کہ وہ تنگ ہو رہا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ وہ بُرا نہیں مناتی۔‘
ڈویلپمینٹ سیکٹر سے وابستہ محسن (فرضی نام) کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے اور خاندان کے دیگر بچوں کو تربیت دی کہ اچھا بُرا ٹچ کیا ہوتا ہے۔
اُن کے خیال میں ’بچے کو اگر اچھا نہیں لگ رہا تو اصرار نہیں کرنا چاہیے۔‘
اسی ضمن میں انھوں نے بتایا کہ اُن کے گھر ایک قاری صاحب آدھے گھنٹے کے لیے پڑھانے آتے تھے تو اُن کی بیگم کچن میں کام کرتے ہوئے قاری پر نظر رکھا کرتی تھیں۔
’میں نے قاری کو بھی سمجھا دیا تھا کہ بچوں سے کتنا فاصلہ رکھنا ہے۔ میری بیٹی سات آٹھ سال کی تھی۔ اُس نے کہا کہ وہ قاری کے ساتھ غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا انھوں نے آپ کو چھوا؟ تو وہ بولی کہ نہیں، وہ تو ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے ہوتے ہیں اور ایسی کوئی بات نہیں۔ پھر میں نے قاری سے معذرت کر لی اور کہا کہ آپ کل سے گھر نہ آئیں۔‘
’واہیات ترین کام ہے کہ آپ کسی بچے کو تکلیف دے کر لطف اندوز ہوں‘
پاکستان میں ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے مہم چلانے والی بشریٰ اقبال کہتی ہیں کہ تین اور چار سال کے بچے کو آپ کیسے سکھا سکتے ہیں کہ یہ ’گڈ ٹچ‘ یا ’بیڈ ٹچ‘ ہے اور اس سلسلے میں والدین کو احتیاط کرنی ہو گی۔
بشریٰ کے بقول ’یہ بھی اہم ہے کہ ہم بطور والدین خود اپنے بچے کی مرضی کا کتنا خیال کرتے ہیں۔ عموماً ہم بچے کو بھینچ بھینچ کر پیار کرتے ہیں اور دبوچ لیتے ہیں، وہ پسند کرتے ہیں یا نہیں کرتے لیکن ہم اُن کو اپنی گودوں میں بھر لیتے ہیں، بچہ چیخیں مار رہا ہے لیکن ابا اُس کو پکڑ کر لپیٹے جا رہے ہیں۔ دیکھیں بچوں کے ذہن تو کنفیوز ہوتے ہیں ناں تو بچے کو عادت ڈالنی چاہیے کہ اگر آپ نے اُن سے ہاتھ بھی ملانا ہے تو اُن سے پوچھا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’والدین سے اجازت لینا ایک اچھی بات ہے لیکن والدین کا اپنے بچے سے پوچھنا ایک اگلے مرحلے کی حفاظتی تربیت ہے۔‘
ریڈیو سے وابستہ صحافی بشریٰ اقبال نے سنہ 2018 میں زینب قتل کیس کے بعد ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے ایک سوشل میڈیا مہم شروع کی تھی جس میں وہ پاکستانی شہریوں کو تربیت دیتی ہیں کہ کیسے اپنے بچوں کو ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر محفوظ رکھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کی عادت ہوتی ہے بچوں کو چٹکی بھرنا۔ دنیا کا واہیات ترین کام ہوتا ہے آپ کسی بچے کو تکلیف دے کر لطف اندوز ہوں۔ بچہ پیارا ہے تو آپ اُس کے گالوں کو دبا رہے ہیں، یا اُس کی پونی کھینچ رہے ہیں، گزرتے گزرتے اُس کے کولہوں پر مار رہے ہیں، یہ سب چیزیں ہراسانی میں آتی ہیں۔ بچے کنفیوز ہوتے ہیں کہ یہ صحیح چیز ہے یا نہیں۔‘
انھوں نے ایک اور بات پر زور دیا کہ ’بچوں کو کسی کی بھی گود میں نہیں بٹھانا چاہیے۔
’لڑکیاں برے تعلق سے جڑی رہتی ہیں کیونکہ انھیں ’نہ‘ بولنا نہیں سِکھایا جاتا‘
بچوں کی نفسیات کی ماہر عنبرین فیاض علی نے بتایا کہ بچہ اگر کسی بُری نیّت سے چُھونے کے عمل سے گزرتا ہے تو اس کا اُس پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔
ایسے بچوں کو کس طرح کے ذہنی امراض ہو سکتے ہیں، اُس پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عنبرین نے کہا کہ ’بچے کو اگر ناپسندیدہ انداز سے چھوا گیا ہو تو بچوں میں بے چینی اور ڈپریشن ہو سکتا ہے اور بڑے ہو کر پرسنالٹی ڈس آرڈر بھی ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے اس ضمن میں قانون کا حوالہ دیا کہ ’18 سال کی عمر تک ہر طرح کے فیصلے میں بچے کے والدین اور سرپرست کی اجازت لازمی ہے لیکن ہمارے ہاں ’اجازت لینے‘ کا آئیڈیا ہی بہت دیر سے آیا۔ دس سال پہلے یہ موضوع عام نہیں تھا۔ اب پھر بھی لوگ بات کر رہے ہیں تو تھوڑا پتا ہوتا ہے کہ اجازت لینا کیا ہوتا ہے۔‘
ان کے بقول پاکستان میں بچوں کو چھونا اور پیار کرنا بہت عام ہے اور منع کرنے کی صورت میں اسے بڑوں کی عزت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ابھی بھی بچے یہ ساری چیزیں بتانے سے ڈرتے ہیں کہ پلیز میرے گالوں کو ہاتھ نہ لگائیں یا مجھے گلے مت لگائیں۔‘
’ہمارے ہاں انکار یا قطعیت کے خیال کو الگ نہیں کیا جاتا۔ جب بچے کو بولنے سے منع کیا جاتا ہے تو وہ ڈر جاتا ہے۔ وہیں سے یہ سب شروع ہوتا ہے۔ لڑکیاں ایک برے تعلق میں جڑی رہتی ہیں کیونکہ آپ نے کبھی انھیں ’نہ‘ بولنا سِکھایا ہی نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بچپن میں ہوئی زیادتی کے بہت سے کیسز آتے ہیں۔ بے چینی، ڈپریشن اور پرسنیالٹی ڈس آرڈر کے بالغ مریضوں میں کہیں نہ کہیں اُس کا تعلق بچپن کے کسی واقعے سے ہی ہوتا ہے۔‘