ایران میں پاکستانی مزدوروں کی ہلاکت: ’حملہ آوروں نے کہا جو پاکستانی ہیں وہ کھڑے ہو جائیں‘

سنیچر کی صبح ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد اس کمرے میں داخل ہو کر حملہ آور ہوئے جہاں پاکستانی اضلاع لودھراں اور مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے 13 مزدور رہائش پذیر تھے۔ ایک بیان میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سراوان کے نواحی علاقے میں پاکستانی مزدوروں پر اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے۔
ایران
Getty Images

سنیچر کی صبح ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد اس کمرے میں داخل ہو کر حملہ آور ہوئے جہاں پاکستانی اضلاع لودھراں اور مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے 13 مزدور رہائش پذیر تھے۔

حملہ آوروں کی فائرنگ سے نو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے مطابقسیستان و بلوچستان کے ڈپٹی سکیورٹی اینڈ لا انفورسمنٹ آفیسر علی رضا کا کہنا ہے کہ پولیس کی ٹیم فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی اور حملے میں بچنے والوں نے پولیس کو بتایا کہ تین مسلح افراد پاکستانی شہریوں پر فائرنگ کر کے فرار ہو گئے تھے۔

ایک بیان میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سراوان کے نواحی علاقے میں پاکستانی مزدوروں پر اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے۔

جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ واقعے کی فوری تحقیقات کے لیے ’ہم ایرانی حکام سے رابطے میں ہیں۔‘

ادھر حملے میں بچنے والے ایک عینی شاہد کے مطابق نو ہلاکتوں کے علاوہ دو افراد زخمی ہیں جن کی حالت نازک ہے جبکہ دو مستحکم ہیں۔

’میں لاشوں کے نیچے دب چکا تھا‘

ایران میں اس حملے میں زخمی ہونے والے ایک مزدور نے بتایا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 13 افراد ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر تھے اور ان میں سے اکثریت گاڑیوں کی مرمت کا کام کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد آدھی رات کو کمرے میں داخل ہوئے جب سب سو رہے تھے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی حملہ آوروں نے کہا ’جو پاکستانی ہیں اُٹھ کر کھڑے ہوجائیں۔۔۔ انھوں نے سب سے پوچھنا شروع کر دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک دو لوگوں نے کمرے سے بھاگنے کی کوشش کی مگر قابو پا کر ان پر تشدد کیا گیا۔ ’انھوں نے سب کو انھی کے ازار بند سے باندھ دیا اور اُلٹا لِٹا دیا۔‘

عینی شاہد مزید کہتے ہیں کہ اس کے بعد حملہ آوروں کی جانب سے کمرے میں اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ ’میں لوگوں کے درمیان موجود تھا، مجھے خوش قسمتی سے گولیاں ٹانگ اور بازو پر لگیں۔‘

’فائرنگ کرنے کے بعد وہ لوگ ایک ایک کو دیکھ رہے تھے کہ کوئی زندہ تو نہیں بچا۔ میرے ہر طرف خون تھا۔ میں لاشوں کے نیچے دب چکا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھیں خیال آیا کہ ’اگر میں مردہ بن جاؤں تو شاید میری جان بچ جائے۔ میں نے پوری قوت سے اپنی سانس روک لی۔ وہ مجھے بھی مردہ سمجھ کر کمرے سے نکل گئے۔‘

اس حملے میں بچنے والے ایک دوسرے پاکستانی مزدور نے بتایا کہ وہ خوش قسمتی سے حملہ آوروں کی آمد سے قبل رفع حاجت کے لیے بیت الخلا گئے تھے۔

انھوں نے باہر سے پہلے گولیاں چلنے اور پھر کچھ لوگوں کے باہر جانے کی آوازیں سنی جس سے انھیں کچھ حد تک اندازہ ہوا کہ حالات غیر معمولی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا سارا کمرہ خون میں لال ہوچکا تھا۔ میں خود اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔‘

’بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ 12 کے 12 لوگ مر چکے ہیں۔‘

ایسے میں شدید زخمی حالت میں موجود ایک مزدور نے انھیں کہا کہ وہ اپنا موبائل فون لے کر باہر جائیں اور ورکشاپ کے مالکان کو آگاہ کریں۔

’تھوڑی دیر بعد اور لوگ بھی پہنچ گئے۔ ایمبولینس اور پولیس بھی پہنچ گئی۔ سب لوگوں کو ہسپتال لے جایا گیا اور مجھ سے پولیس نے تفصیلی بیان لیا۔‘

ایران میں ہلاک ہونے والے پاکستانی شہری کون تھے؟

پاکستان میں ہلاک شدگان کے لواحقین نے حکومت سے لاشوں کو جلد از جلد پاکستان لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ ’لاشوں کی فوری واپسی کے لیے (ایران میں پاکستانی سفارتخانہ) ہر ممکن کوشش کرے گا۔‘

اس حملے میں ہلاک ہونے والے لودھراں کے محمد زبیر اور ان کے بھانجے ابو بکر کے قریبی دوست ملک ارشد نے بتایا کہ دونوں قریباً دو سال قبل محنت مزدوری کے لیے ایران گئے تھے اور وہاں گاڑیوں کی ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام کرتے تھے۔

ان کے بقول دونوں کام کی کمی کی وجہ سے واپس پاکستان آنے کا سوچ بھی رہے تھے جبکہ پاکستان میں ابو بکر کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ابوبکر کی والدہ بیٹے کو بار بار واپسی کا کہتی تھیں۔ ابوبکر کہتے تھے کہ شادی پر بھی تو اخراجات آئیں گے۔ اگر کام چھوڑ کر آگیا تو اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔‘

ادھر پورے خاندان کے واحد کفیل غلام شبیر کی ہلاکت پر ضلع مظفر گڑھ میں ان کے لواحقین غم میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے سوگواران میں بیوہ اور ایک بچہ چھوڑا ہے۔

غلام شبیر کے چچا محمد اکرم بتاتے ہیں کہ ’غلام شبیر ایک ماہر مستری تھا۔ وہ کوئی دس ماہ پہلے ایران گیا تھا۔ ہمارے علاقے کے کچھ لوگ ایران میں کام کر رہے تھے، انھوں نے ہی غلام شبیر کو کہا اگر وہ ان کے ساتھ چلا آئے تو اسے کافی کام مل سکتا ہے۔‘

محمد اکرم کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی باقاعدہ تنخواہ کا کام نہیں بلکہ ایک طرح سے ٹھیکداری کا نظام تھا۔ وہ جتنا کام کرتا اس کو اتنے پیسے ملتے۔‘ ان کے بقول وہ پاکستان واپس آ کر اپنی خود کی ورکشاپ کھولنا چاہتے تھے۔

اسی طرح واقعے میں ہلاک ہونے والے علی پور کے محمد اکمل نے سوگواران میں بیوہ اور تین بچے چھوڑے ہیں۔ ان کے برادر نسبتی طارق محمود کہتے ہیں کہ ’وہ دو ماہ پہلے کار واش پر مزدوری کے لیے ایران گئے۔۔۔ اپنے علاقے میں وہ ایک چھوٹی سی سنیٹری کی دکان چلاتے تھے مگر کام نہیں چل رہا تھا (اور) اس میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا تھا۔ گھر کا خرچہ بھی نہیں چل رہا تھا۔‘

اس دوران انھیں ایک دوست نے ایران ساتھ چلنے کا مشورہ دیا جہاں انھیں ’اچھے پیسے مل جایا کریں گے۔ وہ مجبوری کے عالم میں ایران چلے گئے مگر وہاں پر بھی ان کا کام اتنا اچھا نہیں تھا۔‘

طارق محمود کے مطابق محمد اکمل اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت حساس تھے۔ ’پاکستان چھوڑ کر جانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ بچوں کی فیس اور اخراجات پورے نہیں ہو رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں۔‘

علی پور سے ہی تعلق رکھنے والے محمد اظہر اور ان کے کزن محمد آصف ان نو مزدوروں میں شامل ہیں جو حملہ آوروں کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔

ان کے چچا ملک خدا بخش کے مطابق اظہر 10 سال سے ایران میں الیکڑیشن کا کام کر رہے تھے اور ان کے سوگواروں میں دو بچے اور بیوہ شامل ہیں جبکہ محمد آصف کی عمر قریب 18 سال تھی اور وہ چھ ماہ قبل اظہر کے ہیلپر کے طور پر کام کرنے ایران گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’تمام خاندان انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پیاروں کی لاشیں کب پاکستان پہنچیں گی اور کب وہ ان کی تدفین کرسکیں گے۔‘

لودھراں کے صحافی اعجاز خان سہو نے بتایا کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کے باعث محنت کش اور ہنر مند افراد جیسا کے گاڑیوں کے مستری، بورنگ کا کام کرنے والے، ڈینٹر پینٹرز نے ایران میں محنت مزدوری کرنے کا رخ کیا۔ جبکہ بھرتی کے لیے علاقے میں کچھ ایجنسیاں بھی قائم ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی لوگ ایران جاتے تھے مگر گذشتہ دو، تین سالوں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ’یہ سب غریب لوگ ہیں اور اپنے اپنے خاندانوں کے کفیل ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts