یہ مسجد نئی دہلی کے ’لوٹیئن ڈیلہی‘ نامی علاقے میں آتی ہے، جسے انگریزوں نے تقریباً ایک صدی قبل تعمیر کیا تھا۔ اس علاقے میں انڈیا کی پارلیمنٹ اور اہم وزارتیں بھی موجود ہیں لیکن انگریزوں نے مسجد کو ایک خصوصی محفوظ فہرست میں ڈالا تھا جس کے تحت اسے گرانے کی اجازت نہیں تھی۔
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک تاریخی مسجد کو منہدم کرنے کے منصوبے سے شروع ہونے والا تنازع ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ سرکاری حکام نے شہر کے علاقت مہرولی میں واقع ایک اور تاریخی مسجد کو مسمار کردیا۔
حکام کے مطابق اخونجی نامی یہ صدیوں پرانی مسجد مہرولی کے قریب سنجے ون نامی علاقے میں واقع تھی جسے 1970 کی دہائی میں دستاویزات میں گرین بیلٹ کے طور پر درج کیا گیا تھا اور 1994 میں اسے ریزرو فوریسٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا جہاں کسی بھی قسم کی نئی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی۔
لیکن 30 جنوری کی صبح دہلی میں شہری منصوبہ بندی اور ترقی سے وابستہ کے محکمے دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے اہلکاروں کی قیادت میں پولیس اس مقام پر پہنچی اور مسجد، ملحقہ مدرسے اور قبرستان کو منہدم کردیا۔
حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ یہ کارروائی ایک ’محفوظ علاقے‘ میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کی گئی۔ لیکن مسجد کی انتظامی کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ مسجد و مدرسہ علاقے کو ایک ’محفوظ زون‘ میں تبدیل کرنے سے پہلے بھی موجود تھے۔
تاہم مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے دائر ایک مقدمے کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے حکام سے ایک ہفتے کے اندر جواب طلب کیا ہے کہ انھوں نے اس کارروائی کے لیے قائم کردہ اصول اور قانون کی پیروی کی ہے یا نہیں؟
ایک ایسے ہی معاملے میں گذشتہ برس دسمبر میں دارالحکومت کی میونسپلٹی نے عوام سے اس بارے میں رائے مانگی تھی کہ آیا ٹریفک بہتر کرنے کے لیے سنہری باغ مسجد کو منہدم کرنا چاہیے یا نہیں، جو کہ دہلی کے وسطی حصّے میں واقع تقریبا 150 سال سے زیادہ پرانی تاریخی مسجد ہے۔
یہ مسجد نئی دہلی کے ’لوٹیئن ڈیلہی‘ نامی علاقے میں آتی ہے، جسے انگریزوں نے تقریباً ایک صدی قبل تعمیر کیا تھا۔ اس علاقے میں انڈیا کی پارلیمنٹ اور اہم وزارتیں بھی موجود ہیں لیکن انگریزوں نے مسجد کو ایک خصوصی محفوظ فہرست میں ڈالا تھا جس کے تحت اسے گرانے کی اجازت نہیں تھی۔
اس معاملے پر مسجد کے امام نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کیس اب زیر سماعت ہے۔ لیکن سنہری باغ مسجد کے برعکس مہرولی میں جس مسجد کو منہدم کیا گیا ہے وہ دہلی کے مضافات میں تھی اور یہ علاقہ 13ویں صدی میں دہلی کے ابتدائی مسلم حکمرانوں کا دارالحکومت تھا۔
مہرولی اور 200 ایکڑ پر پھیلے ہوئے قریبی علاقوں کو ’ہیریٹیج ایریا‘ سمجھا جاتا ہے اور یہاں 100 سے زیادہ تاریخی عمارتیں اور دیگر ڈھانچے موجود ہیں، مثلا قطب مینار کمپلیکس، جمالی کمالی مسجد، غیاث الدین بلبن کا مقبرہ اور قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ۔
کچھ مؤرخین نے نشاندہی کی ہے کہ اخونجی مسجد مغلوں کی انڈیا میں آمد سے پہلے تعمیر ہوئی تھی۔
مؤرخ سہیل ہاشمی، جن کا خاندان کئی نسلوں سے دہلی میں مقیم ہے، نے نشاندہی کی کہ اس مسجد کا تذکرہ 1920 میں ’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ (اے ایس آئی) کے ایک اہم سروے میں کیا گیا ہے، جس میں دہلی کی 3000 عمارتوں اور دیگر ڈھانچوں کی فہرست دی گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اس فہرست کی جلد تین میں صفحہ 83 اور 84 پر بالترتیب پرانی دہلی کی عیدگاہ اور مسجد اخونجی کا ذکر ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اسی فہرست کی بنیاد پر انگریزوں نے فیصلہ کیا تھا کہ نئے شہر کی تعمیر کے لیے وہ کون سے ڈھانچوں کو گِرا سکتے ہیں۔
مولوی ظفر حسن نامی ’اے ایس آئی‘ کی مدد سے تیار کی گئی فہرست میں بتایا گیا ہے کہ مسجد کی تعمیر کی تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن اس کی مرمت 1270 ہجری یعنی سنہ 1853-54 کے آس پاس ہوئی تھی۔
مؤرخ رانا صفوی، جنھوں نے مہرولی میں قرونِ وسطیٰ کے فنِ تعمیر پر ایک کتاب لکھی ہے، نے مسجد کے مسمار کرنے کو ایک المیہ قرار دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ صبح کے وقت ہوا جب اندھیرا تھا اور وہاں کوئی بھی سوال کرنے یا اسے روکنے کی کوشش کرنے والا نہیں تھا۔'
واضح رہے کہ پچھلے برس ستمبر میں ’ڈی ڈی اے‘ نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ وہ مہرولی آرکیالوجیکل پارک اور اس کے آس پاس وقف بورڈ کی ملکیت والی مساجد، قبرستان اور دیگر جائز املاک کو منہدم نہیں کرے گی۔
فی الحال اس جگہ کو پولیس نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ مدرسے کے ایک استاد نے بتایا کہ پورا کمپلیکس مکمل طور پر مسمار ہو چکا ہے اور ملبے میں کئی کتابیں بھی دبی ہوئی ہیں۔
مزمل سلمانی، جو ایک این جی او کی جانب سے مدرسہ میں کام کرتے تھے، نے بتایا کہ ’مدرسہ توڑنے کے بعد جب وہاں رہنے کی کوئی جگہ نہیں تھی تو بچوں کو قریبی عیدگاہ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ قبرستان کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے حال ہی میں دفن کی گئی کئی لاشیں منظر عام پر آ گئیں۔‘
مہرولی کے علاقے کے رہائشی صحافی مسرور خان بتاتے ہیں کہ وہ اکثر وہاں سے گزرتے تھے اور مدرسے کے طلباء کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’اب اس مدرسے میں پڑھنے والے یتیم بچوں کا کیا ہوگا؟‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ اس علاقے کی تاریخ اور ہم آہنگی کی ثقافت کی وجہ سے جذباتی طور پر اس سے منسلک تھے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’لیکن میرا خیال ہے کہ انڈیا اب مسلمانوں کی تعمیر کردہ تعمیرات کو اپنا ورثہ نہیں سمجھتا ہے۔‘