سونے کی ریفائنریوں کا فروغ پاتا کاروبار: ’ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا بھی سوئٹزرلینڈ والی پوزیشن پر آ جائے‘

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سنہ 2023 میں انڈیا میں صاف کیے گئے 900 ٹن سونے میں سے 117 ری سائیکل ذرائع سے آیا۔
تصویر
Getty Images

ستیش پرتاپ کا خاندان انڈیا میں گذشتہ کئی دہائیوں سے سونے کو ریفائن یا صاف کرنے کے کام سے وابستہ ہے۔ اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ستیش بھی جیولرز سے خام سونا اکٹھا کرتے ہیں، اسے پگھلاتے ہیں اور اسے سونے کی اینٹوں کی شکل دے کر دوبارہ جیولرز کو فروخت کرتے ہیں۔

اس وقت ان کی ملکیت میں سونے کی دو ریفائنریز چل رہی ہیں: ایک جنوبی ریاست کیرالہ جبکہ دوسری ریاست تمل ناڈو میں۔ ان کے خاندان میں بہت سے افراد اس کام سے وابستہ ہیں اور ان کی رشتہ داروں کی بھی انڈیا کے جنوبی ریاستوں میں ریفائنریز ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر روز میرے کارخانوں میں اوسطاً دو سے تین کلو سونا پگھلایا جاتا ہے۔‘

ستیش کی ریفائنری کی طرز پر انڈیا کے تقریباً ہر قصبے میں کم از کم ایک چھوٹی ریفائنری موجود ہے۔ اسے ’غیر منظم‘ ریفائننگ سیکٹر کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر انڈین گھرانوں میں 25,000 ٹن سونا موجود ہے، اور ہمیشہ اس میں سے کچھ نہ کچھ فروخت کے لیے مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے، خاص طور پر مہنگائی کے اس دور میں جب سونے کی قیمت زیادہ ہے اور معیشت کے حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ہیں تو لوگ چاہتے ہیں کہ وہ سونا فروخت کر کے کچھ رقم حاصل کر لیں۔

یہ سونا جیولرز کو فروخت کیا جاتا ہے جو اس کی صفائی اور اسے سونے کی اینٹوں کی شکل دینے کے لیے ریفائنری سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔ سونے کی یہ اینٹیں پھر جدید سٹائل کے نئے زیورات بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

ستیش کہتے ہیں کہ مقامی جیولرز ان کی طرح کے چھوٹے ریفائنرز سے ڈیل کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ چھوٹی ریفائنری والے جلدی کام کرتے ہیں اور کام کے عوض معاوضہ بینکنگ چینلز کے بجائے کیش میں قبول کرنا پسند کرتے ہیں۔

’زیادہ تر جیولرز ہم سے سونا خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ہم چھوٹی گولڈ ریفائنریاں ہر شہر میں واقع ہیں۔ کسی جیولر کی جانب سے دیا گیا سونا ہم چند گھنٹوں میں صاف کر کے واپس کر دیتے ہیں، یہ بڑی ریفائنریوں کی طرح نہیں جنھیں ری سائیکل شدہ سونے کو ریفائن کرنے میں کئی دن لگتے ہیں۔‘

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق سنہ 2023 میں انڈیا میں صاف کیے گئے 900 ٹن سونے میں سے 117 ری سائیکل ذرائع سے آیا۔

لیکن اس ری سائیکلنگ مارکیٹ پر انڈیا کے بڑے صنعتی گولڈ ریفائنرز کی نظر ہے۔

سنہ 2013 اور سنہ 2021 کے درمیان انڈیا کے بڑے پیمانے پر ریفائنرز نے اپنی صلاحیت کو 300 سے بڑھا کر 1,800 ٹن سونا سالانہ کر دیا ہے۔

لیکن ان کے لیے اپنی ریفائنریز کو چلانے کے لیے کافی غیر صاف شدہ سونا درآمد کرنا مشکل ہے۔ ایسوسی ایشن آف گولڈ ریفائنرز اینڈ منٹس کے سیکریٹری ہرشد اجمیرا کے مطابق ’درحقیقت ان کی ریفائننگ کی صلاحیت کا 50 فیصد سے بھی کم استعمال کیا جاتا ہے۔‘

اس لیے بڑے ریفائنرز بڑے شہروں میں سکریپ سونا جمع کرنے کے مراکز کھول رہے ہیں۔

ہرشد اجمیرا کا کہنا ہے کہ ’اس وقت سونے کی زیادہ تر ری سائیکلنگ غیر منظم سیکٹر (چھوٹے ریفائنرز) کے ذریعے کی جاتی ہے، جسے تبدیل کرنا ہو گا۔‘

وہ چاہتے ہیں کہ انڈیا گولڈ ریفائننگ کے لیے ایک عالمی مرکز بن جائے، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ زیادہ غیر صاف شدہ سونا درآمد کیا جائے اور بڑی فرموں کے لیے سونے کی زیادہ سے زیادہ ری سائیکلنگ پر قبضہ کر لیا جائے۔

ہرشد اجمیرا کے مطابق ’سوئٹزرلینڈ دنیا کا سب سے بڑا گولڈ ریفائننگ سینٹر اور ’ٹرانزٹ ہب‘ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انڈیا بھی اسی پوزیشن میں ہو۔‘

سی جی آر میٹالوئز انڈیا کے معروف گولڈ ریفائنرز میں سے ایک ہیں، جو ایک سال میں تقریباً 150 ٹن سونا صاف کرتے ہیں۔

دوسرے بڑے کھلاڑیوں کی طرح ان کے پاس سونے کی ’سملٹنگ‘ اور ’ریفائننگ‘ کے لیے جدید ترین آلات ہیں۔

سی جی آر کے مینیجنگ ڈائریکٹر جیمز جوزے کہتے ہیں انھوں نے ریاست کیرالہ میں سونے کی ری سائیکلنگ کے تین مراکز کھول رکھے ہیں۔

جیمز جوزے کے مطابق ’انڈین ریفائنریوں کی بہت بڑی صلاحیت ہے۔۔ ہمارے پاس بہت زیادہ اوور ہیڈز ہیں۔ اس لیے جمع کرنے کے مراکز قائم کرنے سے سکریپ گولڈ کی مقدار میں اضافہ ہو گا۔ اس سے ہماری پیداوار کو 30 فیصد سے 40 فیصد تک بڑھانے میں مدد ملے گی۔‘

تصویر
Getty Images

حالیہ برسوں میں حکومت ریفائننگ کی صنعت میں زیادہ دلچسپی لیتی نظر آئی ہے۔ سنہ 2020 میں بیورو آف انڈین سٹینڈرڈز (بی آئی ایس) نے سونے کی اینٹوں کے معیار کی ایک رینج متعارف کرائی ہے، جس میں شفافیت، وزن، نشانات اور ’ڈائمنشنز‘ شامل ہیں۔

بی آئی ایس سے منظور شدہ ریفائنرز اپنی اینٹیں براہ راست متعلقہ مارکیٹ کو فروخت کر سکتی ہیں۔

ورلڈ گولڈ کونسل انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو سوماسندرم پی آر کا کہنا ہے کہ ’یہ صنعت بتدریج زیادہ منظم اور بہتر کارکردگی کی طرف منتقل ہو رہی ہے، جس کی قیادت بیورو آف انڈین سٹینڈرڈز کے لائسنس یافتہ ریفائنریوں کے ذریعے کی جا رہی ہے، جو سونے کی بہتر مصنوعات کے لیے قابل اعتماد معیارات قائم کر رہی ہے۔ یہ انڈیا کو ایک عالمی مرکز بنائے گی۔‘

کچھ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چھوٹے ریفائنرز پر زمین تنگ ہو رہی ہے۔ کنسلٹنسی فراہم کرنے والی کمپنی میٹلز فوکس کے مطابق سنہ 2015 میں ری سائیکلنگ انڈسٹری کا 70 سے 75 فیصد حصہ غیر منظم تھا۔ سنہ 2021 تک یہ کم ہو کر 60 سے 65 فیصد رہ گیا تھا۔

بڑی ری سائیکلنگ فرموں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر ستیش پرتاب زیادہ فکرمند نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے صارفین اور مارکیٹ کو سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مقامی جیولرز ری سائیکلنگ کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں، جو ہم سے بہت زیادہ ہے۔

دوسرے چھوٹے ریفائنرز کی طرح ستیش بھی جدید ریفائننگ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

ستیش کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ذریعے ری سائیکل کیا گیا سونا اتنا ہی خالص ہے جتنا کہ ایک منظم ریفائنری کے ذریعے ری سائیکل کیا گیا سونا۔ اب ہمارے پاس شفافیت کو جانچنے کے لیے ٹیسٹنگ کی سہولت موجود ہے، اس لیے یہ کہنا غلط ہو گا کہ ہم سونے کو اس کی خالص ترین شکل میں بہتر نہیں بنا سکتے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US