انڈیا کے اُن پڑوسی ممالک سے تعلقات کیوں بگڑ رہے ہیں جنھیں ماضی میں اس کا حلیف سمجھا جاتا تھا؟

دہائیوں سے انڈیا کے اپنے دو پڑوسی ممالک چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں پیش آنے والے چند واقعات کے بعد اب تاریخی طور پر نئی دہلی کے قریب تصور کیے جانے والے پڑوسی ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ میں بھی انڈیا کے خلاف آوازیں اُٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
PM Modi
Getty Images

دہائیوں سے انڈیا کے اپنے دو پڑوسی ممالک چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں پیش آنے والے چند واقعات کے بعد اب تاریخی طور پر نئی دہلی کے قریب تصور کیے جانے والے پڑوسی ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ میں بھی انڈیا کے خلاف آوازیں اُٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

مالدیپ، نیپال اور بھوٹان کی باتیں تو اب پرانی ہو چلی ہیں مگر انڈیا اور سری لنکا کے درمیان تعلقات میں تلخی کا عنصر حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آیا جب گذشتہ ہفتے انڈین وزیرِ خارجہ جے شنکر ایک نیوز کانفرنس کے دوران سری لنکن جزیرے ’کچھاتیوو‘ کا ذکر چھیڑ بیٹھے۔

یہ پتھریلا اور ویران جزیرہ انڈیا کے جنوبی ساحل اور سری لنکا کے شمالی خطے کے درمیان واقع ہے۔ یہ جزیرہ سری لنکا کی ملکیت ہے اور اس پر دونوں ممالک کے درمیان کوئی ملکیتی تنازع بھی نہیں ہے۔

’کچھاتیوو‘ نامی یہ جزیرہ انڈیا کے مقابلے میں سری لنکا سے زیادہ قریب ہے اور یہ سنہ 1921 میں بھی سری لنکا کے برطانوی حکمرانوں کے کنٹرول میں تھا۔ تاریخی طور پر اس جزیرے پر کبھی بھی انڈیا کا قبضہ نہیں رہا۔ سنہ 1974 میں انڈیا اور سری لنکا کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اس جزیرے پر سری لنکا کے باقاعدہ اختیار کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔

لیکن اب وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ اُس وقت کانگریس حکومت کی کمزوری کے باعث یہ جزیرہ سری لنکا کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس سے قبل انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی بھی تمل ناڈو میں ایک سیاسی ریلی کے دوران اچانک اس جزیرے کا ذکر کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔

دونوں ممالک کے سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ انڈیا اپنی داخلی سیاست کے لیے سری لنکا کے ساتھ ایک غیر ضروری تنازع کھڑا کر رہا ہے۔

لیکن انڈیا میں سیاسی شخصیات کے لب ولہجے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے انھیں پڑوسی ممالک سے خراب ہوتےتعلقات پر کوئی خاص تشویش نہیں ہے۔

اس حوالے سے وزیرِاعظم نریندر مودی نے ایک جلسے میں کہا تھا کہ ’انڈیا اب پہلے جیسا کمزور ملک نہیں رہا ہے، اب اس کی طاقت پوری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے، ملک کے عوام مودی کی اس پالیسی سے بہت خوش ہیں، انھیں لگتا ہے کہ وزیراعظم مودی نے دنیا میں انڈیا کا نام بہت اونچا کر دیا ہے۔‘

دوسری جانب بنگلہ دیش میں انڈیا کے خلاف اُٹھنے والی آوازیں وزیراعظم نریندر مودی کے بیان کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

گذشتہ دنوں بنگلہ دیش میں انڈیا کی بنائی گئی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کی آوازیں سُنائی دیں اور اس مہم کے پیچھے وہاں کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں تھیں۔

سوشل میڈیا پر بھی کچھ لوگوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انڈیا دراصل بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم حسینہ واجد کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے ان کی مدد کرتا ہے۔

Bangladesh
Getty Images

ماضی میں انڈیا کے قریب سمجھے جانے والا پڑوسی ملک مالدیپ بھی نئی دہلی سے دوری اختیار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہاں گذشتہ صدارتی انتخاب ’اںڈیا واپس جاؤ‘ کے نعرے پر لڑا گیا تھا۔ اور اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ بلند کرنے والے محمد معیزہ انتخابات میں کامیاب قرار پائے تھے۔

اقتدار میں آنے کے بعد نئے صدر محمد معیزو نے مالدیپ میں موجود تقریباً 100 انڈین فوجیوں کو واپس اپنے ملک چلے جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے ملک میں غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے۔

بھوٹان اس خطے کا تیسرا ملک ہے جو انڈیا کے سائے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خیال رہے ماضی میں انڈیا کے سالانہ بجٹ میں بھوٹان کے لیے امدادی رقم مختص کی جاتی تھی۔

تاہم اب بھوٹان کی جانب سے آزاد خارجہ پالیسی بنائی جا رہی ہے اور چین سے بھی بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

گذشتہ برس بھوٹان کے وزیرِاعظم لوتے شیرنگ نے انڈیا اور چین کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والے علاقے ’ڈوکلام‘ پر بھی اپنا موقف نرم کیا تھا۔ ڈوکلام ایک متنازع پہاڑی علاقہ ہے جس پر چین اور بھوٹان دونوں اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کچھ برس پہلے انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان ٹکراؤ ہوا تھا۔

نیپال سے بھی اںڈیا کا پرانا سرحدی تنازع ہے۔ مودی حکومت کے ابتدائی دنوں میں نیپال میں باہمی تعلقات کے حوالے سے کافی جوش خروش تھا، لیکن ایک مرحلے پر نیپال کی معاملات پر اختلاف کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے۔

اب نیپال بھی چین کے قریب ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور بیجنگ کی جانب سے وہاں ہوائی اڈے، شاہراہوں کی تعمیر اور بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

سکیورٹی اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والی تجزیہ کار غزالہ امین کہتی ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پڑوسی ملکوں سے خراب ہوتے تعلقات پر انڈیا میں تشویش نہیں پائی جاتی، لیکن انڈیا اب اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتا کیونکہ خطے میں چین کے آنے کے بعد حالات بدل گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’چین کے پاس وسیع وسائل ہیں اور وہ اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے اِن ملکوں (نیپال، بھوٹان، مالدیپ وغیرہ) کو ہر طرح کی امداد کی پیشکش کر رہا ہے۔ چنانچہ ان ملکوں کا چین کی طرف راغب ہونا ایک فطری عمل ہے۔‘

غزالہ کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی واحد ایسوسی ایشن سارک اب تقریباًختم ہو چکی ہے اور رُکن ممالک کا ماننا ہے کہ اشتراک اور تعاون بڑھنے کے لیے بنائی گئی یہ تنظیم انڈیا کے رویے کی وجہ سے چل نہ سکی۔

انھوں نے کہا کہ واجپائی کی حکومت ہو یا مودی کی اُن کی ساری توجہ امریکہ سے رشتہ مضبوط کرنے پر مرکوز ہے، امریکہ انڈیا کے مڈل کلاس کے لیے ایک ڈریم لینڈ ہے اور لاکھوں طلبہ وہاں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں، مودی حکومت کا امریکہ کی طرف جھکاؤ فطری ہے۔‘

لیکن اُن کے خیال میں بڑے ممالک سے رشتہ بہتر کرنے کے لیے پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہونا انڈیا کے مفاد میں نہیں ہے۔ انڈیا کی خارجہ پالیسی پر عوامی سطح پر بھی بات چیت کی جا رہی ہے۔

بی بی سی نے چند شہریوں سے بھی اس پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

ایک نوجوان بدرالدین کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں انڈیا کی خارجہ پالیسی اچھی رہی ہے۔ لیکن اب جو پالیسی اختیار کی گئی ہے وہ انتخابی فائدے کے لیے ہے۔‘

تاہم حیدر علی نامی ایک اور شہری کا خیال ہے کہ ’پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا یہ تمام ہی چھوٹے ملک ہیں، حکومت کو پتہ ہے کہ ان سے تعلقات خراب ہونے سے ملک پر کوئی اثر نہیںپڑے گا۔‘

پیشے کے اعتبار سے لیکچرار محمود انور انڈیا کی خارجہ پالیسی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق ’حکومت نے ایسی ساکھ بنائی ہے جیسے دیکھ کر لگتا ہے کہ انڈیا پوری دنیا پر حاوی ہو گیا ہے۔ آج ہر طبقے کے لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ مودی نے دنیا میں انڈیا کا جھنڈا گاڑ دیا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US