انڈین الیکشن کے غیر متوقع نتائج جنھوں نے بی جے پی اور اپوزیشن، دونوں کو چونکا دیا

ایودھیا کی نشست بی جے پی کے وقار کے لیے اہم تھی کیونکہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں اس نے 1992 میں مسمار کی گئی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا افتتاح کیا۔ یہ حالیہ انتخابات کے دوران ایسے غیر متوقع نتائج میں شامل ہے جنھوں نے صرف بی جے پی، اپوزیشن اور عوام سب کو حیران کیا ہے۔
ایودھیا
Getty Images

نریندر مودی مسلسل تیسری مدت کے لیے انڈیا کے وزیر اعظم بن کر تاریخ رقم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی جیت اتنی آسان نہیں تھی۔

ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے انڈیا کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اپنی اکثریت کھو دی، جس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت بنانے کے لیے اتحادیوں پر انحصار کر رہے ہیں۔

اپنے طویل سیاسی کیریئر میں نریندر مودی کو کبھی بھی مخلوط حکومت کی قیادت نہیں کرنا پڑی۔ بی جے پی نے 2019 میں 303 سیٹوں میں سے 240 سیٹیں جیتی تھیں۔

کانگریس پارٹی کی قیادت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے انڈیا (انڈین نیشنل ڈیویلپمنٹ انکلوسیو الائنس ) نامی ایک گروپ کے طور پر مل کر انتخاب لڑا۔ انھوں نے توقع سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 232 نشستیں حاصل کیں۔

بی جے پی، کانگریس اور ان کی اتحادی پارٹیاں آج اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہیں لیکن ابھی تک ان کا عوامی طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

لیکن حالیہ انتخابات میں کئی ایسے غیر متوقع نتائج بھی سامنے آئے ہیں جنھوں نے نہ صرف بی جے پی اور اپوزیشن کو چونکا دیا بلکہ عوام کو بھی حیران کر دیا۔

امرت پال سنگھ، کھدور صاحب، پنجاب

ایک حیرت انگیز نتیجے خالصتان تحریک کے حمایتی اور جیل میں بند ایک رہنما نے پنجاب میں کھدور صاحب کی نشست بڑے مارجن سے جیت لی۔

امرت پال سنگھ اپنے حلقے سے تقریباً 2700 کلومیٹر دور دہشت گردی کی دفعات کے تحت جیل میں قید ہیں۔

انھوں نے انتخابات کے دوران جیل سے باہر قدم نہیں رکھا لیکن پھر بھی فیصلہ کن طور پر کانگریس کے کلبیر سنگھ زیرا کو 1.97 لاکھ ووٹوں سے شکست دی۔

ان کا انتخابی وعدہ پنجاب میں منشیات کے استعمال سے لڑنا، سابق سکھ عسکریت پسندوں کو جیل سے رہا کرانا اور سکھوں کی شناخت کا تحفظ دینا تھا۔

آزاد امیدوار کے طور پر ان کی جیت پنجاب میں مقامی جماعتوں کے بارے میں عدم اطمینان کی عکاسی کرتی ہے۔

عبدالرشید شیخ
Getty Images

عبدالرشید شیخ، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

آزاد امیدوار عبدالرشید شیخ نے کشمیر کے دو بڑے رہنماؤں، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے چیئرپرسن سجاد غنی لون کو دو لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔

57 برس کے سیاستدان سنہ 2019 سے دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں جب ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی نے ان پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔

ان کے بیٹے نے ’جیل کا بدلہ ووٹ سے‘ جیسے نعروں کے ساتھ ان کی انتخابی مہم چلائی۔

عبدالرشید شیخاپنے عوام نواز اقدامات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ گائے کی حفاظت اور مسلمانوں پر مشتعل ہجوم کے تشدد کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں۔

ایک بار سرکاری گیسٹ ہاؤس میں گائے کے گوشت کی پارٹی کا اہتمام کرنے پر اسمبلی کے اندر بی جے پی کے ممبران نے ان پر حملہ بھی کر دیا تھا۔

کشوری لال شرما، امیٹھی

کانگریس کے امیدوار کشوری لال شرما نے اتر پردیش کے علاقے امیٹھی میں وزیر اور بے جے پی کی امیدوار سمرتی ایرانی کو 1.67 لاکھ ووٹوں سے شکست دی۔

یہ سیٹ گاندھی خاندان کے لیے محفوظ سمجھی جاتی تھی لیکن سمرتی ایرانی نے سنہ 2019 میں یہاں پر راہل گاندھی کو شکست دی تھی۔

لیکن اس انتخاب میں کانگریس نے اپنے دیرینہ وفادار کشوری شرما کو میدان میں اتارا۔

کشوری شرما نے سنہ 1999 میں سونیا گاندھی کی پہلی انتخابی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

بہت سے مبصرین نے سمرتی ایرانی کے لیے اس الیکشن کو کافی آسان قرار دیا تھا لیکن کشوری شرما کی جیت نے شاید سمرتی کے سیاسی مستقبل پر سوال کھڑا کر دیا۔

اودھیش پرساد
BBC

اودھیش پرساد، فیض آباد (ایودھیا)

یہ بی جے پی کے وقار کے لیے ایک اہم نشست تھی کیونکہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں بی جے پی نے اس سال جنوری میں 1992 میں مسمار کی گئی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔

پارٹی نے شہر کو مذہبی سیاحت کے مرکز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا غیر متوقع رد عمل سامنے آیا کیونکہ مقامی لوگ ناراض ہیں کہ شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے ان کے مکانات گرائے گئے۔

کانگریس کی اتحادی جماعت سماج وادی کے اودھیش پرساد نے بی جے پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ للو سنگھ کو 54,567 ووٹوں سے ہرایا۔

اگرچہ مبصرین نے اسے بی جے پی کے لیے شرمسار قرار دیا ہے تاہم بی جے پی کے کئی حامیوں نے اس نتیجے پر ایودھیا کے ناراض باشندوں کی ہندوؤں کے ساتھ وفاداری پر سوال اٹھایا ہے۔

بدرالدین اجمل، آسام
Getty Images

بدرالدین اجمل، آسام

آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے بدرالدین اجمل کا عطر کا بڑا کاروبار ہے جو انڈیا اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ آسام میں وہ اثرورسوخ کے مالک ہیں جس کی تقریباً 35 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

کئی مسلمان اکثر ان کے پاس پانی کی بوتلیں دم کرانے کے لیے لاتے تھے اس خیال سے کہ ان میں شفا بخش خصوصیات ہیں۔

یہ ایک ایسی ریاست ہے جو بڑے پیمانے پر مذہبی بنیادوں اور فرقوں میں بٹی ہے لیکن اجمل کے پارلیمانی حلقہ دھبری میں رائے دہندگان نے تین بار کے رکن اسمبلی کو شکست دینے کا انتخاب کیا۔

کانگریس رہنما رقیب الحسین نے اجمل کو 10,12,476 کے ریکارڈ مارجن سے شکست دی، جو انڈیا کی انتخابی تاریخ کا دوسرا سب سے بڑا مارجن ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بی جے پی نے سیٹیں کیوں گنوائیں؟

سنہ 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے ترقی، تبدیلی اور انسداد بدعنوانی کے وعدوں پر الیکشن لڑا تھا جبکہ سنہ 2019 میں پلوامہ حملے کا چرچا تھا۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار بی جے پی کی ووٹرز تک پیغام رسانی واضح نہیں تھی جیسے کے گذشتہ دو انتخابات میں ہوا۔

اگرچہ بی جے پی نے مقامی مسائل کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں پر حملہ کیا لیکن یہ حربہ اتر پردیش، ہریانہ، مغربی بنگال اور مہاراشٹرا اور کچھ حد تک راجستھان جیسی ریاستوں میں کام نہ کر سکا۔

متعدد جماعتوں کے ساتھ کام کرنے والے سیاسی مشیر عبدالقادر کہتے ہیں کہ یہ ریاستیں سب سے زیادہ مذہبی طور پر منقسم ہیں جہاں لوگ بی جے پی کی سنتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم نے تقسیم در تقسیم کی کوشش کی لیکن اس بار وہ کامیاب نہیں ہوئے‘۔

عبدالقادر نے کہا کہ فیض آباد (ایودھیا) جیسی جگہوں پر لوگوں نے انھیں شکست دے دی کیونکہ انھوں نے کہا کہ مندر بننے سے باہر کے لوگوں کو فائدہ ہوا لیکن مقامی لوگوں کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔

’اپوزیشن کانگریس نے علاقائی پارٹیوں جیسا کہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی، مہاراشٹر میں شیو سینا کے ایک گروہ اور بہار میں راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ اتحاد کیا۔‘

اپوزیشن نے غریب خواتین اور بے روزگار نوجوانوں میں نقد رقم کی تقسیم اور لاکھوں لوگوں کے لیے نوکری جیسی سکیموں کا وعدہ کیا۔ یہ اقدامات ووٹرز میں مقبول ہوئے کیونکہ انڈیا اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بے روزگاری کی دور سے گزر رہا ہے۔

عبدالقادر کہتے ہیں کہ ’ان وعدوں نے اپوزیشن کے حق میں کام کیا۔ یہ لوگوں کی ضروریات کا احاطہ کر رہا تھا۔‘

نریندر مودی نے گذشتہ انتخابات میں کروڑوں نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن جب وہ لوگوں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے تو انھوں نے فوج میں چار سال کی مختصر مدت کے لیے نوکریاں نکالیں، جس سے اتر پردیش، ہریانہ اور بہار جیسی ریاستوں میں نوجوان مایوس تھے کیونکہ ان جگہوں پر سرکاری ملازمتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

سیاسی صحافی آدتیہ مینن کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں غصے کے آثار نمایاں تھے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ مقامی مسائل نے بھی بی جے پی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر ہریانہ میں لوگ فوج کی بھرتی کے عمل میں تبدیلی، بے روزگاری، کسانوں کی پریشانی یا ریزرویشن کی وجہ سے ناراض تھے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ مہاراشٹر میں مراٹھا ناراض تھے کیونکہ وہ نریندر مودی حکومت کے ذریعے دوسری ذاتوں کو اہمیت دینے کے عمل کو خود کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔

آدتیہ مینن کہتے ہیں کہ ’مختصر طور پر یہ ذات پات اور دیہی بدامنی تھی جس نے مودی حکومت کو نقصان پہنچایا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US