ملتان سلطانز کو چھوڑنا مشکل مگر حالات کے پیشِ نظر درست فیصلہ تھا: علی ترین

چند ہفتے قبل جب علی ترین کی ملتان سلطانز سے علیحدگی کے تصدیق کی گئی تو یہ لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ہی علی ترین کا پی ایس ایل سے رشتہ بھی شاید ختم ہو جائے تاہم اب اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ ایک بار پھر ایک نئی ٹیم کے مالک کے طور پر اس لیگ میں دکھائی دے سکتے ہیں۔

’ہم نے اس ٹیم کو ایک برانڈ بنانے کے لیے وقت اور پیسہ لگایا اور بہت محنت کی ہے۔ سو ملتان سلطانز کو چھوڑنا میرے لیے آسان فیصلہ نہیں تھا مگر حالات کے پیش نظر یہ مشکل مگر درست فیصلہ تھا۔‘

پاکستان سپر لیگ کے انتظامی معاملات پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کشیدگی کے بعد 31 دسمبر 2025علی ترین کاملتان سلطانز کے مالک کے طور پر آخری دن ہے اور پی سی بی کا کہنا ہے کہ آئندہ سیزن کے لیے ملتان سلطانز کو بورڈ خود چلائے گا۔

چند ہفتے قبل جب علی ترین کی ملتان سلطانز سے علیحدگی کے تصدیق کی گئی تو یہ لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ہی علی ترین کا پی ایس ایل سے رشتہ بھی شاید ختم ہو جائے تاہم اب اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ ایک بار پھر ایک نئی ٹیم کے مالک کے طور پر اس لیگ میں دکھائی دے سکتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ 18 جنوری کو اسلام آباد میں پی ایس ایل کی دو نئی ٹیموں کی نیلامی کر رہا ہے اور پی سی بی نے تصدیق کی ہے کہ علی ترین کو اس نیلامی میں شرکت کے لیے شارٹ لسٹ کر لیا گیا ہے اور اگر وہ یہ بولی جیت لیتے ہیں تو وہ پی ایس ایل کی ایک نئی ٹیم کے مالک بن سکتے ہیں۔

پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی سے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران علی ترین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے علی ترین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ سات برسوں میں علی ترین نے فرنچائز کے لیے بہت کام کیا ہے جو کچھ اُن کے اور پی ایس ایل کی انتظامیہ کے درمیان ہوا اُس پر میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ اور اگر وہ نئی ٹیم لینا چاہتے ہیں تو ہم اُن کو ضرور خوشآمدید کہیں گے۔‘

علی ترین نے نئی فرنچائز کے لیے اپنی تکنیکی درخواست سندھ کے ضلع گھوٹکی میں قائم اپنی کمپنی ڈہرکی شوگر ملز کے نام سے جمع کرائی ہے، جسے پی سی بی نے منظور کر لیا ہے۔ خیال رہے کہ ڈہرکی شوگر ملز، جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ کی ذیلی کمپنی ہے۔

بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے علی ترین نے کہا کہ ’ملتان سلطانز کو چھوڑنا میرے لیے آسان فیصلہ نہیں تھا۔ ہم نے اس ٹیم کو ایک برانڈ بنانے کے لیے وقت، پیسہ اور بہت محنت کی ہے۔ حالات کے پیش نظر یہ مشکل مگر درست فیصلہ تھا۔‘

’مجھے خوشی ہے کہ پی سی بی کے ساتھ معاملات بہتر ہوئے ہیں اور ہمیں پی ایس ایل کا حصہ بنے رہنے اور بولی میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ میں پی ایس ایل کو دل سے پسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ مزید ترقی کرے۔ میری تمام تنقید کا مقصد بھی لیگ کی بہتری ہی تھا۔‘

پی سی بی کے ساتھ ماضی میں ہونے والےاختلافات پر بات کرتے ہوئے علی ترین نے کہا کہ ’ہم دونوں ہی معاملات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے تھے۔ لیگ کی انتظامیہ کو مجھ سے پہلے بات کرنی چاہیے تھی۔‘

’کبھی کبھی صرف چائے بسکٹ پر بات کر لینا بھی کافی ہوتا ہے۔ شاید مجھے بھی کچھ باتیں عوامی سطح پر نہیں کرنی چاہیے تھیں، مگر اب معاملات ٹھنڈے ہو چکے ہیں اور یہ تعلقات نئے سرے سے شروع کرنے کا اچھا وقت ہے۔‘

علی ترین کے مطابق فرنچائز چھوڑنے کا فیصلہ وہ گزشتہ ایک سال سے زیر غور رکھے ہوئے تھے، جس کی بنیادی وجہ لیگ کے اندر انتظامی مسائل اور فائننشل ماڈل سے متعلق خدشات تھے۔

’میری تنقید کا مقصد کبھی بھی پی ایس ایل کی قدر کم کرنا نہیں تھا۔ میں پہلے ہی سالانہ 1.1 ارب روپے ادا کر رہا تھا، نئی ویلیوایشن 85 کروڑ آئی، اس کے باوجود معاہدے کے تحت مجھے 25 فیصد اضافی رقم دینا تھی۔ میرا مقصد ہمیشہ لیگ کی بہتری رہا ہے، اور جب بات سنی نہیں گئی تو عوامی سطح پر مایوسی کا اظہار کرنا پڑا۔‘

علی ترین کے نئی فرنچائز حاصل کرنے کے امکانات

اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے علی ترین کو نئی فرنچائز کی نیلامی میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے، تاہم یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ نیلامی میں اُن کو کامیابی بھی ملے گی۔

پی سی بی کے مطابق، دس اہل بولی دہندگان کو نیلامی کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، اور اوپن آکشن میں سب سے زیادہ بولی لگانے والا فرنچائز حاصل کرے گا۔ بولی کی ابتدائی قیمت کا اعلان نیلامی کے روز، بولی کے آغاز سے کچھ دیر قبل کیا جائے گا۔

علی ترین کا کہنا ہے کہ وہ نیلامی کے عمل کے لیے پُرجوش ہیں، تاہم وہ محتاط حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

ان کے مطابق وہ ایسی بولی کی دوڑ کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے فرنچائز کی قیمت غیر مناسب حد تک بڑھ جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ محدود بولی لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم مناسب قیمت پر فرنچائز حاصل کرنے کے حوالے سے پُرامید ہیں۔

’مجھے معلوم ہے کہ پی ایس ایل کے مالی اعداد و شمار بہت بڑے ہیں، اس لیے میں بہت زیادہ بولی نہیں لگاؤں گا۔ یہ ضروری نہیں کہ میں ٹیم حاصل کر ہی لوں، لیکن اگر مناسب قیمت پر موقع ملا تو ہم اگلے کئی سالوں تک پی ایس ایل کا حصہ بننے پر خوش ہوں گے۔‘

یہ امر بھییہاں قابلِ ذکر ہے کہ علی ترین نے ملتان سلطانز کی ملکیت اس وقت چھوڑی، جب اس فرنچائز کی سالانہ فیس 1.375 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔

نیلامی میں حصہ لینے کے لیے علی ترین نے 56 لاکھ 40 ہزار روپے جمع کروائے ہیں جو ناقابلِ واپسی ہیں اور یہ رقم ہر بولی دہندگان کو ادا کرنی ہوگی۔

اس کے علاوہ انھوں نے پانچ کروڑ 64 لاکھ روپے بطور سکیورٹی رقم بھی جمع کرائی ہے۔ نیلامی میں کامیابی کی صورت میں یہ رقم آئندہ مالی واجبات میں ایڈجسٹ ہو جائے گی، جبکہ ناکامی کی صورت میں سکیورٹی رقم واپس کر دی جائے گی۔

ملتان سلطانز کو چلانے پر کتنا خرچ آئے گا؟

پی سی بی کا کہنا ہے کہ آئندہ سیزن کے لیے ملتان سلطانز کو بورڈ خود چلائے گا۔ اس دوران ٹیم کے انتظامی اخراجات پی سی بی برداشت کرے گا اور آمدن میں بھی اپنا حصہ لے گا۔

پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کے مطابق ٹیم کو اگلے سیزن کے بعد فروخت کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قواعد کے باعث فروخت کا عمل وقت لیتا ہے، جسے آئندہ سیزن سے قبل مکمل کرنا ممکن نہیں تھا۔

یہ تیسرا موقع ہوگا جب ملتان سلطانز کو فروخت کیا جائے گا۔ یہ فرنچائز 2018 میں دبئی کی رئیل اسٹیٹ کمپنی شون گروپ کو دی گئی تھی، تاہم ایک سیزن بعد ہی سالانہ فیس کی ادائیگی پر تنازع پیدا ہوا۔

شون گروپ فرنچائز کی سالانہ فیس 52 لاکھ ڈالر ادا نہ کر سکا، جس کے بعد معاہدہ ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد پی سی بی نے ٹیم واپس لے کر دوبارہ نیلامی کرائی، جسے علی خان ترین اور ان کے چچا عالمگیر خان ترین کے کنسورشیم نے 65 لاکھ ڈالر میں حاصل کیا۔

پی سی بی کا کہنا ہے کہ وہ ملتان سلطانز کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے گا جو ٹیم کے کرکٹ اور کمرشل معاملات دیکھے گی۔ اس میں کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف کی بھرتی کے ساتھ ساتھ سیزن کے دوران تمام انتظامی اور سفری اخراجات شامل ہوں گے۔

یہ پہلا موقع ہوگا کہ پی سی بی خود کسی پی ایس ایل فرنچائز کو براہِ راست چلائے گا، تاہم 2018 میں شون گروپ سے ترین گروپ کو منتقلی کے دوران پی سی بی نے پلیئر ڈرافٹ کے عمل کی نگرانی کی تھی۔

گزشتہ سیزن میں ملتان سلطانز کے اخراجات 20 لاکھ ڈالر سے زائد رہے، جن میں سے تقریباً 12 لاکھ ڈالر کھلاڑیوں کے انتخاب پر خرچ ہوئے۔ اگرچہ اس بار فرنچائز فیس ادا نہیں کی جا رہی، تاہم ٹیم کے تمام انتظامی اخراجات اٹھانے کی وجہ سے پی سی بی کے مالی وسائل پر دباؤ پڑنے کا امکان ہے۔

پی سی بی کے حکام کا کہنا ہے کہ سپانسرشپ اور دیگر تجارتی معاہدوں سے حاصل ہونے والی آمدن سے اخراجات کا بڑا حصہ پورا ہو جائے گا۔ بورڈ کو امید ہے کہ لیگ کی مجموعی آمدن میں سے ملتان سلطانز کے حصے کے طور پر اسے اس سیزن میں تقریباً 85 کروڑ روپے واپس مل جائیں گے۔

پی ایس ایل کی فرنچائزز کیسے کماتی ہیں؟

پی ایس ایل فرنچائزز کی سب سے بڑی آمدنی سینٹرل پول سے آتی ہے، جو پاکستان کرکٹ بورڈتمام فرنچائزز میں تقسیم کرتا ہے۔ اس میں میڈیا رائٹس بھی شامل ہیں، یعنی ٹی وی اور ڈیجیٹل شوز سے حاصل ہونے والی آمدنی میں فرنچائزز کو 95 فیصد حصہ ملتا ہے۔

اسی طرح پی سی بی کے ٹائٹل سپانسرز اور گراؤنڈ سپانسرز سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بھی فرنچائزز کو 95 فیصد حصہ دیا جاتا ہے۔

فرنچائزز کو سنٹرل لائسنسنگ آمدنی میں بھی 85 فیصد حصہ دیا جاتا ہے، جو کہ مرکزی حقوق اور برانڈنگ سے حاصل ہونے والی رقم ہے۔

اس کے ساتھ سٹیڈیم سے جمع ہونے والی گیٹ منی، چاہے وہ کارپوریٹ باکس، ہاسپیٹلٹی یا جنرل ٹکٹنگ سے حاصل ہو، ٹیموں کے درمیان تقسیم کی جاتی ہے۔ اس آمدنی کا 95 فیصد حصہ تمام فرنچائزز کے درمیان برابر کی شرح سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

پی سی بی اور پی ایس ایل فرنچائزز کے درمیان مفت ٹکٹوں کے مسئلے پر ایک بڑا اختلاف رہا ہے۔ گزشتہ سیزن میں تقریباً 46 فیصد ٹکٹیں مفت تقسیم کی گئی تھیں، جس سے فرنچائزز کی آمدنی متاثر ہوئی۔

جہاں فرنچائزز کو اپنے مہمانوں کے لیے ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں اور اس کا خرچ بعد میں آمدنی میں شامل ہو جاتا ہے، وہیں پی سی بی کی جانب سے مفت تقسیم سے سنٹرل پول کی آمدنی کم ہو جاتی ہے اور ٹیموں کی کل کمائی پر اثر پڑتا ہے۔

آمدنی کے ایک بڑے حصے کے علاوہ، ہر فرنچائز اپنی ذاتی معاہدوں سے بھی کماتی ہے۔ اس میں ٹیم کے شرٹس، ہیلمٹس، اور کھلاڑی کی کٹ پر سپانسرشپ بیچنا شامل ہے، جس میں ہر ٹیم کے لیے 12 جگہیں سپانسرز کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ فرنچائز اپنی دیگر آزادانہ سپانسرشپ ڈیلز بھی کر سکتی ہے۔ یہ سب فرنچائز کی براہِ راست آمدنی کا حصہ بنتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US