انڈین حکومت کے مطابق کشمیر کی سرینگر، اننت ناگ اور بارہمولہ کی نشستوں پر کل ملا کر 58.46 فیصد ووٹنگ ہوئی جو نہ صرف 2019 میں ان ہی سیٹوں پر ہوئی 19 فیصد ووٹنگ سے تین گنا زیادہ ہے بلکہ گذشتہ 35 سال میں ہوئے سبھی انتخابات میں ہوئی ووٹنگ شرح میں سب سے زیادہ ہے۔ کیا اس کی وجہ ’انتقامی ووٹنگ‘ تھی؟

انڈیا کے پارلیمانی الیکشن کے دوران اس کے زیر انتظام کشمیر میں نتائج سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ پر بحث ہو رہی ہے۔
ایک طرف اسے مودی حکومت کی ’کشمیر پالیسی‘ کی توثیق کہا گیا تو دوسری جانب اسے کشمیریوں کی طرف سے برسوں سے دبے غصے کا اظہار قرار دیا جا رہا ہے۔
مودی کی جماعت بی جے پی والے اتحاد (این ڈی اے) کی جیت کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے ایک استقالیہ سے خطاب کے دوران کہا کہ ’جموں کشمیر میں تاریخی ووٹنگ شرح نے اُن طاقتوں کو آئینہ دِکھا دیا جو انڈیا کو دُنیا بھر میں بدنام کرتی تھیں۔‘
اس کے علاوہ بی جے پی کے کئی رہنماوٴں نے کشمیر میں الیکشن بائیکاٹ کی روایت کے خاتمے پر کہا کہ مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق فیصلوں کی توثیق ہوئی۔
واضح رہے جموں، کشمیر اور لداخ میں ان انتخابات میں ووٹنگ کی کُل شرح 60 فیصد کے قریب رہی۔
حکومت ہند کے پریس انفارمیشن بیورو کے مطابق کشمیر کی سرینگر، اننت ناگ اور بارہمولہ نشستوں پر کل ملا کر 58.46 فیصد ووٹنگ ہوئی جو نہ صرف 2019 میں ان ہی سیٹوں پر ہوئی 19 فیصد ووٹنگ سے تین گنا زیادہ ہے بلکہ گذشتہ 35 سال میں ہوئے سبھی انتخابات میں ہوئی ووٹنگ شرح میں سب سے زیادہ ہے۔
یاد رہے کہ جموں، کشمیر اور لداخ میں انڈین پارلیمنٹ کے لیے چھ سیٹیں ہیں لیکن 2019 میں لداخ کو الگ کر کے جموں کشمیر کو مرکز کے زیرانتظام خطہ قرار دیا گیا تو جموں کشمیر کی پانچ سیٹیں رہ گئیں (دو جموں اور تین کشمیر میں)۔
ان انتخابات میں جموں کی دونوں سیٹوں پر بی جے پی کو فتح ہوئی جبکہ لداخ کی سیٹ وہ ہار گئی۔ کشمیر میں بی جے پی نے کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کیا تھا بلکہ چند برس قبل وجود میں آئی ’اپنی پارٹی‘ اور سجاد غنی لون کی ’پیپلز کانفرنس‘ کی حمایت کی۔
لداخ کی سیٹ پر بی جے پی کی ہار کے علاوہ کشمیر میں اُن کے حمایت یافتہ اُمیدوار بھی لاکھوں ووٹوں کے فرق سے ہار گئے۔
انڈیا کے پارلیمانی الیکشن کے دوران اس کے زیر انتظام کشمیر میں نتائج سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ پر بحث ہو رہی ہےکیا 2019 کے فیصلے مسترد کیے گئے؟
لداخ کی واحد سیٹ جیتنے والے آزاد اُمیدوار حاجی حنیف جان نے بی جے پی کے مدمقابل ژیرنگ نمگیال کو 27 ہزار سے زائد فرق کے ووٹوں سے شکست دے دی۔
اُن کی جیت کے بعد اُن کے قریبی ساتھی سجاد کرگلی نے کہا کہ ’لداخ میں بودھ اور مسلم آبادی نے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کر کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو مسترد کیا۔ لوگوں نے آرٹیکل 370 کے خاتمے، جموں کشمیر سے لداخ کو الگ کرنے اور دونوں کو فقط مرکز کے زیرانتظام خطے بنانے کے فیصلے کو مسترد کیا۔‘
کشمیر میں ’نیشنل کانفرنس‘ کے رہنما عمرعبداللہ بارہمولہ سیٹ پر خود تو الیکشن ہار گئے لیکن اُن کی پارٹی کے دو اُمیدوار سرینگر اور اننت ناگ کی بھاری مارجن سے جیت گئے۔
انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کہی باتوں کو نتائج کے بعد دوہراتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں نے یہ ووٹ آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر سے متعلق بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف دیا۔‘
لوگ ناراض تھے تو وہ ووٹ دینے باہر کیوں نکلے؟
اس سوال پر کشمیری حلقوں میں کئی ہفتوں سے بحث جاری ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے گذشتہ پانچ برس کے دوران یہاں کی مقامی سیاسی جماعتوں کو سائیڈ لائن کرنے کی جو کوششیں کیں، یہ اُسی کا جواب تھا۔
اس بارے میں عمرعبد اللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے کارکنوں میں اتفاق نظر آتا ہے۔
دونوں جماعتوں کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی کو لگا کہ دھونس، دباوٴ اور خوف کی حکمرانی سے وہ مقامی سیاست کو کنارے کر کے یہاں بیوروکریسی کا راج قائم کر کے دنیا کو نقلی امن دکھائیں گے۔ لیکن ووٹنگ نے ثابت کر دیا کہ لوگ ملک کے انتظامی عمل میں اپنا آئینی اور قانونی کردار چاہتے ہیں۔‘
لیکن الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو ’مین سٹریم‘ کہلانے والے سیاسی گروپوں کے ان دلائل پر سوالات اُٹھے۔
محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی تین میں سے کوئی بھی سیٹ نہیں جیت پائی جبکہ نیشنل کانفرنس صرف سرینگر اور اننت ناگ کی سیٹ جیت سکی۔
یہ بھی پڑھیے

اس سے بھی بڑا سرپرائز یہ تھا کہ اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہ اور جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہنے والے عمرعبد اللہ اور محبوبہ مفتی، دونوں لاکھوں ووٹوں کے بھاری فرق سے الیکشن ہار گئے۔
اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ ریکارڈ ووٹر ٹرن آؤٹ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ لوگ یہاں کے روایتی رہنماؤں کی سیاست بچانا چاہتے تھے۔
معروف تاجر شیخ فیروز کہتے ہیں کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ اس بار بی جے پی کے خلاف ووٹ دینا ہے، لیکن بی جے پی تو کشمیر سے الیکشن میں میدان میں اُتری ہی نہیں، اُن کا کوئی اُمیدوار نہیں تھا۔ دراصل لوگوں نے تین دہائیوں سے بائیکاٹ اس لیے کیا تھا کہ دُنیا یہ جاننے کی کوشش کرے کہ کشمیری چاہتے کیا ہیں لیکن اس کا اُلٹا نتیجہ نکلا اور انڈین حکومت نے کشمیریوں پر غیر جمہوری اور انتہا پسندی کے لیبل چسپاں کیے۔‘
معروف صحافی اور تجزیہ نگار عاشق پیرزادہ کے مطابق ’یہ ووٹنگ مقامی سیاست دانوں کی وفاداری کا نہیں نئی دلّی کے خلاف غصے کا اظہار تھا۔ لوگوں نے آئینی راستے سے وہ خاموشی توڈ دی جو اُن پر زبردستی تھوپ دی گئی تھی۔‘
عاشق پیرزادہ کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 کا ہٹانا محض ایک اعلان یا ایک واقعہ نہیں تھا۔ ’سینکڑوں قوانین یہاں نافذ کیے گئے جن کی وجہ سے لوگوں کو اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنا روزگار خطرے میں لگا۔ حکومت نے تقریباً 8لاکھ ایکڑ زمین کا رقبہ غیر قانونی قرار دیا، اس پر لوگ آباد ہیں۔ سرکاری نوکریوں کی تین فہرستیں دھاندلیوں کا بہانہ بنا کر رد کردی گئیں۔ بجلی فیس میں پچاس گنا اضافہ ہوا، پراپرٹی ٹیکس لگانے کے اعلان ہوئے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو پہلی بار لگا کہ ان مسائل میں ’نہ پاکستان کچھ کر سکتا ہے نہ کوئی مسلح عسکریت پسند۔ ان مسائل پر پارلیمنٹ میں یا اسمبلی میں ہی بات ہو گی۔ لہذا لوگ ووٹ ڈالنے نکلے۔‘
57 برس کے سیاستدان انجینئیر شیخ عبدالرشید سنہ 2019 سے دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیںکیا یہ انتقامی ووٹنگ تھی؟
پارلیمانی الیکشن کے لیے ہونے والی مہم کے دوران تہاڑ جیل میں قید سابق رکن اسمبلی انجینئیر شیخ عبدالرشید نے بارہمولہ سے عمرعبداللہ اور سجاد لون کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو لوگوں کی بڑی تعداد نے اُن کے بیٹے ابرار رشید کی ریلیوں میں شرکت کی۔
ان ریلیوں میں ’جیل کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ جیسے نعرے بلند ہوئے اور اُن کی ویڈیوز پورے انڈیا میں وائرل ہو گئیں۔
آزاد امیدوار عبدالرشید شیخ نے کشمیر کے دو بڑے رہنماؤں، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے چیئرپرسن سجاد غنی لون کو دو لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔
57 برس کے سیاستدان سنہ 2019 سے دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں جب ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی نے ان پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔
معاشی اور سیاسی امور کے تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ ’یہ 100 فیصد انتقامی ووٹنگ تھی۔ کسی بھی اُمیدوار نے سڑک، بجلی یا پانی کی بات نہیں کی۔ سب نے نظریاتی سیاست کی۔ لاکھوں لوگوں نے کہا کہ ووٹ ڈالنے سے انجینیئر رشید تہاڑ سے رہا ہوں گے اور پارلیمنٹ جا کر وہ دوسرے کشمیریوں کو جیل سے رہا کروائیں گے جو برسوں سے انڈیا کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔‘