انڈیا میں بھینسیں لے جانے والے دو مسلمانوں کی مبینہ حملے میں ہلاکت: ’پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں‘

انڈیا کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور سے متصل آرنگ قصبے میں مبینہ طور پر سمگلنگ کے شبے پر ایک مشتعل ہجوم کے حملے میں دو مسلمانوں کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ ایک کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
انڈیا، بھینس
Getty Images

انڈیا کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور سے متصل آرنگ قصبے میں مبینہ طور پر سمگلنگ کے شبے پر ایک مشتعل ہجوم کے حملے میں دو مسلمانوں کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ ایک کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔

ہجوم کے حملے میں ہلاک ہونے والے چاند میاں اور گڈو خان نامی دو افراد اتر پردیش کے سہارنپور کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں۔

سنیچر کو پولیس اس حملے میں شدید زخمی نوجوان صدام قریشی کا بیان لینے کی کوشش کرے گی۔ پولیس کے مطابق صدام کے بیان سے واضح ہو جائے گا کہ اصل میں کیا ہوا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جمعہ کی رات تقریباً دو بجے ہوا جب ایک ٹرک رائے پور سے تقریباً 70 کلومیٹر دور مہاسمند-آرنگ روڈ پر واقع مہاندی کے پل پر تھا۔

پولیس نے کیا کہا؟

رائے پور دیہی علاقے کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس کیرتن راٹھور نے بی بی سی کو بتایا: 'یہ لوگ ایک ٹرک میں بھینسیں لے جا رہے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی پٹائی کی گئی۔ جبکہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ غضبناک بھیڑ سے بچنے کے لیے ان لوگوں نے پل سے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی جہاں دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔'

کیرتن راٹھور نے کہا کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے صدام قریشی کے بیان سے ہی یہ واضح ہو پائے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

انھوں نے کہا: 'پولیس اس راستے پر آس پاس کے علاقوں میں موجود سی سی ٹی وی فوٹیج کو سکین کر رہی ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی شواہد نہیں ملا ہے کہ یہ ہجومی تشدد کا معاملہ ہے۔ پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان تینوں کا پیچھا کون کر رہا تھا۔

'کچھ مشکوک لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے، لیکن ابھی تک اس معاملے میں کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔'

اخبار دی ہندو کے مطابق کیرتن راٹھور نے بتایا کہ ’پولیس کو ہیلپ لائن پر اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ جائے حادثہ پر پہنچنے کے بعد پولیس نے ان لوگوں کو مہاندی میں پل کے نیچے پایا۔

’ان میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی۔ اور دو زخمی تھے۔ دونوں زخمیوں کو مہاسمند لے جایا گیا جن میں سے ایک کی موت ہو گئی۔‘

تاہم پولیس کے بیان کے برعکس کچھ مقامی لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جمعے کو یہ تینوں نوجوان مہاسمند ضلع کے بڑودہ مویشی منڈی پہنچے تھے۔ وہاں انھوں نے بھینسیں خریدیں اور انھیں ایک ٹرک میں لاد کر اوڈیشہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ لیکن کچھ لوگوں نے راستے میں ان کا پیچھا کیا، جس کے بعد انھوں نے رائے پور جانے کا فیصلہ کیا۔

ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنتوش سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ’ان کی گاڑی مہاسمند سے رائے پور کی طرف آرہی تھی، ایسی اطلاع ہے کہ کچھ لوگوں نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا تھا۔ ایک نوجوان زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل ہے۔ وہ اس حالت میں ہے کہ بیان دے سکے۔ میں وہاں نہیں ہوں لیکن ان کا بیان لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔'

سنتوش سنگھ نے کہا کہ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ پولیس اس معاملے کی بھی تفتیش کر رہی ہے کہ یہ لوگ پُل سے کیسے گرے۔

انھوں نے انگریزی روز نامے دی ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ 'ایک مرنے والے کا پوسٹ مارٹم رائے پور میں کیا گیا ہے اور دوسرے کا پوسٹ مارٹم مہاسمند میں کیا گیا ہے۔ پولیس دونوں رپورٹوں کا انتظار کر رہی ہے۔'

تاہم کیرتن راٹھور نے کہا کہ پولیس نے جلد از جلد ایک مختصر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

انڈیا، بھینس
Getty Images

اس رات کیا ہوا؟

یہ واقعہ جمعہ کی رات 2 سے 3 بجے کے درمیان اس وقت پیش آیا جب بھینسوں سے لدا ٹرک آرنگ کے قریب مہاندی پل پر پہنچا۔ اس وقت موٹر سائیکلوں پر سوار ایک درجن کے قریب نوجوانوں نے ٹرک کو اوورٹیک کر کے اسے روکا۔

مقامی لوگوں کے مطابق اس کے بعد انھوں نے ٹرک پر سوار تینوں نوجوانوں پر گائے کی سمگلنگ کے الزام لگائے اور ان کی پٹائی شروع کردی۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے چاند میاں اور گڈو خان کو زخمی حالت میں پل سے پھینک دیا۔ چاند میاں موقع پر ہی فوت ہو گئے۔

جس کے بعد پولیس نے موقع پر پہنچ کر زخمی گڈو خان کو علاج کے لیے مقامی ہسپتال پہنچایا جہاں گڈو خان بھی دم توڑ گیا۔

ایک اور زخمی صدام قریشی کو رائے پور کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

تاہم زخمی صدام خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں صدام کا کہنا ہے کہ حملہ آور پندرہ بیس افراد تھے جنھوں نے پہلے اسے مارا پیٹا اور پھر پل سے نیچے پھینک دیا۔

مرنے والوں کے لواحقین کا کیا کہنا ہے؟

صدام قریشی اور چاند میاں کے ایک رشتہ دار نے اخبار دی انڈین ایکسپریس سے بات کی ہے۔ انھوں نے اخبار کو بتایا کہ ان دونوں نے جمعہ کی صبح 2 سے 4 بجے کے درمیان اپنے گھر فون کیا تھا۔ جس وقت انھوں نے فون کیا لوگ مبینہ طور پر انھیں مار پیٹ رہے تھے۔

ان کے رشتہ دار کے مطابق: 'قریشی کے ساتھ فون پر بات چیت تقریباً 47 سیکنڈ تک جاری رہی، پوری کال کے دوران وہ مدد کے لیے چیخ رہے تھے، وہ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ انھیں نہ ماریں اور وہ ان سے پانی مانگ رہے تھے۔'

ان کے مطابق پہلا فون چاند میاں کے فون سے آیا۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے ان کی گاڑی روک لی ہے اور ان کی پٹائی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند لوگوں نے چاند کا فون چھین لیا تھا جس کی وجہ سے وہ ان سے مزید بات نہیں کر سکے۔

چاند میاں کی فون کال کے بعد تقریباً 3 بجے صدام کے فون سے کال آئی۔

ایک رشتہ دار نے اخبار کو بتایا کہ 'صدام ٹرک میں ہیلپر کا کام کرتا تھا۔ گھر والوں کو فون کرنے کے بعد اس نے فون جیب میں رکھا تھا۔ وہ چیخ رہا تھا کہ اس کے بازو اور ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ وہ التجا کر رہا تھا کہ بھیا مجھے بس ایک گھونٹ پانی پلا دو، مجھے مارو نہیں۔'

اس نے دعویٰ کیا کہ وہ فون پر 'کچھ دوسرے لوگوں کی آوازیں فون پر آ رہی تھیں جو یہ کہہ رہے تھے اسے کہاں سے لائے ہو، ہم چھوڑیں گے نہیں۔‘

ابتدائی طور پر اہل خانہ نے اسے حملہ سمجھا، اس لیے انھوں نے پولیس کو فون نہیں کیا۔ لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ معاملہ اس حد تک بڑھ جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ 'جب انھوں نے صبح 5 بجے کے قریب چاند میاں کے فون پر کال کی تو ایک پولیس افسر نے کال ریسیو کی، اور اس نے بتایا کہ چاند میاں مر چکے ہیں۔'

اخبار کے مطابق رائے پور رورل پولیس کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کیرتن راٹھور کا کہنا ہے کہ انھیں فی الحال اس کا علم نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: 'پولیس کال ریکارڈز کی جانچ کرے گی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ متاثرین نے کس سے بات کی۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US