’میرے خلاف مودی خود بھی الیکشن لڑتے تو ہار جاتے‘: ایودھیا میں بی جے پی کو شکست دینے والے دلت رہنما اودھیش پرساد

انڈیا میں ہندوؤں کے مقدس شہر ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے بعد فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کو شکست دینے والے 79 سالہ دلت لیڈر اودھیش پرساد چہار جانب شہ سرخیوں میں ہیں۔

انڈیا میں ہندوؤں کے مقدس شہر ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے بعد فیض آباد لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی کو شکست دینے والے 79 سالہ دلت لیڈر اودھیش پرساد چہار جانب شہ سرخیوں میں ہیں۔

ایودھیا کے علاقے سے باہر کے زیادہ تر لوگ باہر فیض آباد سیٹ پر بی جے پی کی غیر متوقع شکست سے بہت زیادہ حیران ہیں۔

لیکن اترپردیش کے ملکی پور کے موجودہ ایم ایل اے اودھیش پرساد کی سیاست کو قریب سے جاننے والوں کے لیے ان کی جیت غیر متوقع نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اودھیش پرساد ایودھیا میں سیاسی ہلچل کے موجب ہو سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔

ایودھیا میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ بی جے پی امیدوار للو سنگھ کی مقامی مسائل سے لاتعلقی اور لاعلمی بی جے پی کی شکست کی بڑی وجہ ہے۔

لیکن ایسے لوگ بھی کم نہیں ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ ایودھیا سے بی جے پی نہیں ہاری بلکہ اودھیش پرساد کی زمینی سطح کی سیاست نے اسے شکست دی ہے۔

اودھیش پرساد سے پوروانچل ایکسپریس وے پر ہماری ملاقات ہوئی۔ وہ ملکی پور اسمبلی حلقہ کے ایک گاؤں میں شادی میں شرکت کے بعد واپس آ رہے تھے۔

اودھیش پرساد کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے ایک قریبی شناسا کی بیٹی کی شادی تھی۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم جہاں بھی ہوں گے، چاہے کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں آئیں گے ضرور۔ اور ہم نے وعدہ پورا کیا۔ علاقے کے لوگوں سے کیا گیا ہر وعدہ ہم نے پورا کیا ہے۔‘

اودھیش پرساد سے انٹرویو لیتے ہوئے دلنواز پاشا
BBC
اودھیش پرساد سے انٹرویو لیتے ہوئے دلنواز پاشا

ریاست اترپردیش میں نو بار ایم ایل اے اور چھ بار وزیر

79 سالہ اودھیش پرساد مضبوط قدم سے چل رہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر ان کی عمر کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان کے ساتھ چلنے والے زیادہ تر کارکنان نوجوان ہیں۔

سر پر سرخ ٹوپی، گلے میں سرخ سکارف اور سفید کرتے کے ساتھ دھوتی پہنے، چھوٹے قد کے اودھیش پرساد دور سے سماجوادی پارٹی رہنما اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو کی طرح نظر آتے ہیں۔

نو بار ایم ایل اے اور ریاستی حکومت میں چھ بار وزیر رہنے والے اودھیش پرساد نے اچانک سیاست میں قدم نہیں رکھا۔ یہ ان کا ایک سوچا سمجھا قدم تھا۔

اودھیش پرساد اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’دسویں پاس کرنے کے بعد ہم ایک ایم پی کے پاس اپنی فیس معاف کرانے کے لیے ان کے دستخط کی غرض سے گئے تھے۔ اس ایم پی کا رویہ توہین آمیز تھا۔‘

اودھیش پرساد کہتے ہیں: 'میں نو جوان تھا، بہت ذلیل محسوس کر رہا تھا اور بہت غصے میں تھا اور میں نے ایک کاغذ پر لکھا: اودھیش پرساد - ایل ایل بی، ایڈووکیٹ، ایم ایل اے، وزیر داخلہ۔ اس دن طے کیے میں نے اپنے لیے تمام اہداف حاصل کر لیے ہیں، صرف ایک رہ گیا ہے۔'

31 جولائی 1945 کو سرواری گاؤں کے ایک عام کسان خاندان میں پیدا ہونے والے اودھیش پرساد نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور کانپور کے ڈی اے وی کالج سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

اودھیس پرساد نے بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد 1968 میں قانون کی ڈگری مکمل کی اور اپنے کئی اہداف حاصل کر لیے۔

سیاسی سرگرمی

اودھیش پرساد کہتے ہیں: ’ایل ایل بی کا آخری پیپر دینے کے بعد میں سیدھا فیض آباد کورٹ گیا، وہاں میرے پاس گورنمنٹ بمقابلہ صاحب کا کیس آیا۔ میں نے مؤکل سے کہا کہ مجھے ابھی تک ڈگری نہیں ملی، لیکن اس نے اصرار کیا کہ میں ہی ان کی طرف سے مقدمے کی پیروی کروں۔‘

’اس موکل نے 12 روپے فیس ادا کی تھی، مجھے ابھی تک ڈگری نہیں ملی تھی، میں ایک بڑے وکیل کے پاس گیا اور انھیں 12 روپے دے کر کیس دائر کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے دو روپے اپنے منشی کو اور دس روپے میرے انکار کے باوجود مجھے مجھے واپس کر دیے۔ یہ قانون کی تعلیم سے میری پہلی کمائی تھی۔‘

اودھیش پرساد بتاتے ہیں کہ سیاست میں آنا ان کا مقصد تھا اور وہ اپنی تعلیم کے دوران سیاست میں سرگرم ہو گئے۔

انھوں نے 1968 میں قانون کی پریکٹس شروع کی اور اس دوران وہ سیاسی طور پر بھی سرگرم رہے۔

انھوں نے اپنا پہلا الیکشن 1974 میں لڑا اور 324 ووٹوں سے ہار گئے۔ اگلے چند سالوں میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

معروف رہنما لوک نائک جئے پرکاش نے ایمرجنسی کے خلاف تحریک شروع کی۔ اودھیش پرساد بھی اس میں شامل ہوگئے۔

ایمرجنسی کے دوران ملک کے بڑے بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گيا۔ اودھیش پرساد اس عرصے میں لکھنؤ اور فیض آباد کی جیلوں میں بھی رہے۔

اودھیش پرساد کی والدہ کی وفات اس وقت ہوئی جب وہ ایمرجنسی کے دوران جیل میں تھے۔ ماں کو یاد کرتے ہوئے آج بھی ان کی آواز گھٹ جاتی ہے۔

اودھیش پرساد کہتے ہیں: 'میری ماں کی لاش چار دن تک پڑی رہی لیکن میں آخری درشن کے لیے نہیں جا سکا۔ میں اپنے والد کے آخری درشن بھی نہیں کر سکا۔ امیٹھی میں سنجے گاندھی بمقابلہ شرد یادو کے انتخابات ہو رہے تھے۔ چودھری چرن سنگھ نے ہمیں اپنے گاؤں نہ جانے کو کہا تھا، اس دوران میرے والد کا انتقال ہو گیا، اس وقت ووٹنگ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہوتی تھی، چھ سات دن تک گنتی جاری رہی، ایک دن پہلے میرے والد کی وفات ہوئی اور میں نہ جا سکا۔'

اودھیش پرساد کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی سیاست اور وکالت کو ساتھ ساتھ جاری رکھا۔

1977 میں وہ پہلی بار ایم ایل اے کے انتخاب میں کامیاب ہوئے اور بعد میں نو بار ایم ایل اے بنے۔

سیاسی قد

ایودھیا سے حیران کن جیت کے بعد اودھیش پرساد کا سیاسی قد بڑھ گیا ہے۔ اودھیش پرساد بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جو بھی ان کے سامنے ہوتا وہ ہار جاتا۔

ان کا کہنا ہے کہ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے ان کے متعلق ایودھیا سے الیکشن لڑنے کا ذہن پہلے ہی بنا لیا تھا۔

اودھیش پرساد کہتے ہیں: ’اکھلیش یادو نے اکتوبر میں ہمیں کہا تھا کہ ایم ایل اے جی آپ کو بڑا آدمی بنائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ بی بی سی لندن سے بھی آپ کے پاس انٹرویو کے لیے آئیں گے۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ہمیں ایودھیا سے ٹکٹ دیں گے۔‘

اودھیش پرساد کہتے ہیں: ’یہ ہماری جیت نہیں ہے، بلکہ ایودھیا کے عظیم لوگوں کی جیت ہے۔ اگر وزیر اعظم نریندر مودی بھی یہاں سے کھڑے ہوتے تو وہ ہار جاتے، کیونکہ عوام نے انا کی سیاست کو شکست دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘

فیض آباد پارلیمانی انتخابی حلقے سے بی جے پی امیدوار للو سنگھ کو چار لاکھ 99 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے جبکہ وہ ایودھیا اسمبلی حلقے سے چار ہزار ووٹوں کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

تاہم وہ یہ الیکشن 54 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں بی جے پی مقابلے میں نہیں تھی، اگر کوئی بڑا امیدوار میدان میں ہوتا تو حالات بدل سکتے تھے۔

اودھیش پرساد کہتے ہیں: ’یہ للو سنگھ نہیں جو میرے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے، بلکہ مودی خود تھے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ (بی جے پی رہنما آدتیہ یوگی) یہاں بار بار آ رہے تھے، وزیر اعظم روڈ شو کر رہے تھے، یہاں تک کہ صدر کا پروگرام بھی یہاں منعقد کیا گیا۔ بی جے پی نے یہاں اپنی انتخابی مہم پر پورا زور لگا دیا۔‘

مہنگائی، بے روزگاری اور پیپر لیک جیسے مسائل کو جیت کی وجہ بتاتے ہوئے اودھیش پرساد کہتے ہیں: ’ہر گاؤں میں لوگ تکلیف میں ہیں، لیکن کوئی ان کی بات نہیں سن رہا ہے۔ صرف وہی لوگ بی جے پی کی شکست سے حیران ہیں جو بہت دور ہیں اور زمینی حقیقت سے ناواقف ہیں۔‘

اودھیش پرساد کہتے ہیں: ’میں نے اپنی زندگی میں 11 الیکشن لڑے ہیں۔ یہ میرا پہلا الیکشن تھا جو میرے بجائے عوام لڑ رہی تھی۔‘

79 سالہ اودھیش پرساد کا ماننا ہے کہ انھیں سیاست میں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔

اودھیش کہتے ہیں: ’ہم ملک کے بابائے قوم مہاتما گاندھی، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، لوہیا، چودھری چرن سنگھ کے خوابوں کا ملک بنانا چاہتے ہیں۔ آج ملک میں مہنگائی، بدعنوانی اور بے روزگاری ہے۔ جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہو جاتا اور جب تک ہماری سانس ہے، ہم سیاست میں سرگرم رہیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US