بچپن میں سکول سے چھٹی ہوتے ہی مودی واد نگر ریلوے سٹیشن پر اپنے والد کے چائے کے سٹال پر پہنچ جاتے تھے۔ مودی کو آر ایس ایس میں لانے کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ ہیں لکشمن راؤ انعامدار عرف وکیل صاحب۔

حال ہی میں منعقد ہونے کے بعد انڈین الیکشن کے بعد نریندر مودی مسلسل تیسری بار انڈیا کے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔
اس الیکشن میں ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) انڈیا کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اکثریت قائم نہ رکھ سکی اور 543 کے ایوان میں 240 نشستیں حاصل کر پائی۔
تاہم اس کے باوجود اپنے اتحادیوں کی مدد سے بی جے پی مسلسل تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ نریندر مودی نے تیسری بار انڈیا کے وزیرِ اعظم کے طور پر حلف اُٹھا لیا ہے۔
مگر بچپن سے بحث کرنے کے عادی اور دائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے نریندر مودی کون ہیں؟
بچپن سے بحث کرنے کے عادی
مودی اپنے سکول کے دنوں میں ایک اوسط طالب علم ہوا کرتے تھے۔
نیلنجن مکھ اوپادھیائے انڈین وزیراعظم کے بارے میں اپنی کتاب ’نریندر مودی - دی مین، دی ٹائمز‘ کے لیے بی این ہائی سکول میں ان دنوں مودی کے استاد پرہلاد بھائی پٹیل سے بات کی۔
مکھ اوپادھیائے لکھتے ہیں کہ مودی کے استاد نے ان کو بتایا کہ ’نریندر اس زمانے میں بہت بحث کرتے تھے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا اپنا ہوم ورک کلاس مانیٹر کو دکھا دو۔‘
مودی نے صاف انکار کر دیا کہ ’یا تو وہ اپنا کام استاد کو دکھائیں گے، ورنہ کسی کو نہیں۔‘

مودی نے ’مگر مچھوں سے بھرا تالاب پار کیا‘
مودی کے مخالفین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں خود اعتمادی کی کوئی کمی نہیں۔
مودی کے ایک اور سوانح نگار اینڈی مارینو اپنی کتاب ’نریندر مودی اے پولیٹیکل بائیوگرافی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مودی کے بچپن میں شرمشتھا جھیل کے قریب ایک مندر ہوا کرتا تھا۔ اس پر لگے جھنڈے کو کئی مواقعوں پر تبدیل کیا جاتا تھا۔ ایک بار موسلا دھار بارشوں کے بعد اس جھنڈے کو تبدیل کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
’نریندر مودی نے فیصلہ کیا کہ وہ تیر کر جھیل کے پار جائیں گے اور جھنڈا تبدیل کریں گے۔ اس وقت جھیل میں بہت سے مگر مچھ ہوا کرتے تھے۔ کنارے پر کھڑے لوگ مگرمچھوں کو ڈرانے کے لیے ڈھول بجاتے رہے جبکہ نریندر مودی اکیلے تیر کر جھیل کے پار گئے اور مندر کا جھنڈا تبدیل کر دیا۔ جب وہ واپس آئے تو لوگوں نے انھیں کندھوں پر اٹھا لیا۔‘
لیکن کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی اور ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
چائے کی دکان
نریندر مودی بچپن سے ہی گھر کے کاموں میں مدد کرتے تھے۔ سکول سے چھٹی ہوتے ہی مودی واد نگر ریلوے سٹیشن پر اپنے والد کے چائے کے سٹال پر پہنچ جاتے تھے۔
نریندر مودی یہ بات ہمیشہ لوگوں کو فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔
کئی افراد جنھوں نے مودی پر کتاب لکھی، ان میں سے اکثر آر ایس ایس کے نظریات کے حامی ہیں۔ ان تمام افراد نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان دنوں کے بارے میں لکھا جب وہ واد نگر اور احمد آباد میں چائے بیچا کرتے تھے۔
کئی میڈیا رپورٹ کے مطابق مودی سٹیشن پر چائے بیچنے کے بعد گیتا مندر بس سٹاپ کے پاس واقع اپنے ماموں کی کینٹین پر ان کی مدد کرتے تھے۔
پولیٹیکل سائنس میں ڈگری
نریندر مودی کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ پرائمری کے بعد جام نگر کے سینک سکول میں داخلہ لیں لیکن ان کے خاندان کے مالی حالات نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔
دوسری جانب مودی کے والد بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ پڑھائی کے لیے واد نگر سے باہر جائیں۔ مودی نے ایک مقامی ڈگری کالج میں داخلہ لیا تاہم غیر حاضریوں کی وجہ سے انھیں کالج چھوڑنا پڑا۔
بعد ازاں انھوں نے دلی یونیورسٹی سے بی اے اور پھر گجرات یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
جب کچھ لوگوں نے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون کے تحت مودی کی ایم اے کی ڈگری کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے گجرات یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ مودی نے 1983 میں ایم اے کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا تھا۔
بعد میں تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب گجرات یونیورسٹی کے پروفیسر جینتی بھائی پٹیل نے دعوٰی کیا کہ مودی کی ڈگری میں جن مضامین کا ذکر ہے وہ پولیٹیکل سائنس کے ایم اے کے نصاب میں کبھی شامل ہی نہیں تھے۔
گجرات یونیورسٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
جب مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تو یشودا بین کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کی گئییشودا بین سے شادی
سنہ 2014 میں بی جے پی کی جانب سے وزارتِ عظمی کے لیے نامزد کیے جانے کے بعد نریندر مودی نے سرِ عام تسلیم کیا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔
گجرات میں وڈودرا (جسے بڑودہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) سے لوک سبھا کی سیٹ کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ انھوں نے جو حلف نامہ داخل کیا اس میں نریندر مودی نے بیوی کے نام والے کالم میں ’یشودا بین‘ لکھا۔
اس سے قبل نریندر مودی کے خاندان کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب تھی۔
جب مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تو یشودا بین کو سرکاری سکیورٹی فراہم کی گئی۔
تاہم وہ الٹا اس سکیورٹی سے پریشان دکھائی دیں۔ انھوں نے مہیسا کے پولیس اہلکار کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت ایک درخواست دی کہ انھیں بتایا جائے کہ ان کے حقوق کیا ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھیں ان محافظوں کی وجہ سے کافی پریشانی ہوتی ہے۔ ’میں سرکاری بس میں سفر کرتی ہوں اور میرے ساتھ کار میں محافظ گھومتے ہیں۔ وہ لوگ ساتھ ہوتے ہیں تو ڈر لگتا ہے۔‘
اپنی درخواست میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے محافظوں سے ڈر لگتا ہے۔
’اندرا گاندھی پر ان کے محافظوں نے حملہ کیا تھا اور انھیں مار دیا تھا۔ اس وجہ سے مجھے میرے باڈی گارڈز سے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے مجھے ان کی تمام معلومات دیں اور بتائیں انھیں کس کے احکامات پر میرے ساتھ رکھا گیا ہے۔‘
مودی کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں لانے کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ ہیں لکشمن راؤ انعامدار عرف وکیل صاحبمودی کے استاد ’وکیل صاحب‘
مودی کو آر ایس ایس میں لانے کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ ہیں لکشمن راؤ انعامدار عرف وکیل صاحب۔
اس زمانے میں وکیل صاحب گجرات میں آر ایس ایس کے ریاستی پرچارک ہوا کرتے تھے۔
ایم وی کامتھ اور کالندی راندیری اپنی کتاب ’نریندر مودی: دی آرکیٹیکٹ آف اے ماڈرن سٹیٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک بار مودی کے والدین بہت افسردہ تھے کہ وہ دیوالی پر گھر نہیں آئے۔ اس دن وکیل صاحب انھیں آر ایس ایس کی رکنیت دلوا رہے تھے۔‘
وکیل صاحب کی وفات 1984 میں ہوئی لیکن مودی انھیں کبھی نہیں بھولے۔ مودی نے آر ایس ایس کے ایک اور کارکن راجا بھائی نینے کے ساتھ مل کر وکیل صاحب پر ایک کتاب 'سیتو بند' لکھی ہے۔

واجپائی کی کال جس نے مودی کا سیاسی کیریئر بدل دیا
یہ یکم اکتوبر 2001 کی بات ہے جب مودی ہوائی حادثے میں ہلاک ہونے والے ایک صحافی دوست کی آخری رسومات میں شرکت کر رہے تھے کہ ان کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
دوسری طرف اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تھے۔ انھوں نے مودی سے پوچھا وہ کہاں ہیں اور انھیں شام کو ملنے کے لیے بلا لیا۔
شام کو جب مودی 7 ریس کورس روڈ پہنچے تو واجپائی نے ان کے ساتھ مذاق میں کہا کہ ’آپ بہت صحت مند لگ رہے ہیں، آپ بہت دنوں سے دہلی میں ہیں، پنجابی کھانا کھا کر آپ کا وزن بڑھ رہا ہے۔ آپ کو گجرات جا کر وہاں کام کرنا چاہیے۔‘
اینڈی مارینو لکھتے ہیں، ’مودی کو لگا کہ شاید انھیں گجرات میں پارٹی سیکریٹری کے طور ذمہ داریاں دی جائیں گی۔ انھوں نے انتہائی معصومیت سے پوچھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اب ان ریاستوں کے معاملات نہیں دیکھنے پڑیں گے جن کی وہ دیکھ بھال کر رہے ہیں؟ جب واجپائی نے انھیں بتایا کہ کیشو بھائی پٹیل کے بعد وہ گجرات کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے تو مودی نے یہ عہدہ لینے سے صاف انکار کر دیا۔‘
’انھوں نے کہا کہ وہ گجرات میں پارٹی کو ٹھیک کرنے کے لیے مہینے کے 10 دن دے سکتے ہیں لیکن وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے۔ واجپائی نے انھیں منانے کی بہت کوشش کی لیکن مودی نہیں مانے۔ بالآخر اڈوانی کو انھیں فون کر کے بتانا پڑا کہ سب نے آپ کا نام منظور کر لیا ہے، جا کر حلف اٹھا لیں۔‘
واجپائی کی کال آنے کے چھٹے دن مودی نے گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر حلف اٹھا لیا۔
گجرات فسادات
وزیر اعلی بننے کے صرف چار ماہ بعد ہی مودی کو پہلے چیلنج کا سامنا اس کرنا پڑا جب ایودھیا سے واپس آنے والی ٹرین کو گودھرا میں آگ لگا دی گئی جس کے نتیجے میں 58 افراد ہلاک ہو گئے۔
اگلے دن وشوا ہندو پریشد نے ریاست گیر بندش کی کال دی جس کے بعد گجرات میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ اس سے 2000 سے زیادہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مودی پر الزام ہے کہ انھوں نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری کارروائی نہیں کی۔
اس دوران ایک پریس کانفرنس سے بات کرتے ہوئے مودی نے ایک متنازع بیان دیا کہ ’ہر عمل کا برابر اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔‘
اس کے ایک دن بعد انھوں نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ’عمل اور ردعمل کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ ہم کوئی ایسا عمل نہیں چاہتے ہیں اور نہ ہی ردعمل۔‘
’واجپائی مودی سے استعفیٰ لینا چاہتے تھے‘
گجرات فسادات کے برسوں بعد جب ایک صحافی نے اٹل بہاری واجپائی کے پرنسپل سیکریٹری برجیش مشرا سے پوچھا کہ واجپائی نے گجرات فسادات کے بعد مودی کو برطرف کیوں نہیں کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’واجپائی چاہتے تھے کہ مودی استعفیٰ دے دیں۔
’لیکن وہ حکومت کے سربراہ تھے، پارٹی کے نہیں۔ پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ مودی جائیں۔‘
مشرا کا کہنا تھا کہ واجپائی کو پارٹی کی رائے کے سامنے جھکنا پڑا۔

جب مودی نے ٹوپی پہننے سے انکار
ایک دفعہ جب مولانا سید امام نے نریندر مودی کو نیٹ کی ٹوپی پہننے کے لیے دی تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ٹوپی پہننے سے کوئی ’سیکولر‘ نہیں بن جاتا۔
تاہم یہ الگ بات ہے کہ 2014 کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے سکھوں کی پگڑی سمیت کئی طرح کی ٹوپیاں پہنی تھیں۔
گجرات ماڈل
گجرات فسادات سے جڑے داغوں کو مٹانے کے لیے نریندر مودی نے بطور وزیراعلی اپنے دور میں گجرات میں ہونے والی معاشی ترقی کو پیش کرنے کی کوشش کی۔
مودی اسے ’گجرات ماڈل‘ کہتے ہیں۔
اس ماڈل کے تحت پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دیا گیا، سرکاری کمپنیوں کے نظام میں بہتری لائی گئی اور 10 فیصد کی متاثر کن شرح نمو حاصل کی گئی۔
جب 2008 میں مغربی بنگال میں ٹاٹا موٹرز کے سنگور میں پلانٹ لگانے کے خلاف تحریک چلی تو مودی نے کمپنی کو نہ صرف گجرات میں پلانٹ لگانے کی دعوت دی بلکہ انھیں پلانٹ لگانے کے لیے زمین، ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر سہولیات بھی فراہم کیں۔
ٹاٹا کمپنی کے مالک رتن ٹاٹا اس سے بہت خوش ہوئے اور انھوں نے نے مودی کی بہت تعریف کی۔
جہاں کچھ لوگ گجرات ماڈل سے بہت متاثر ہیں وہیں کئی حلقوں کی جانب سے اس کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
مشہور صحافی روتم وورا نے انڈین اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’وائبرنٹ گجرات‘ کے آٹھ ایڈیشنز میں کھربوں کروڑ روپے کے سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے لیکن ان میں سے بیشتر مکمل نہیں ہوئے۔
’اگر فی کس آمدنی کی بنیاد دیکھیں تو گجرات یقیناً انڈیا میں پانچویں نمبر پر تھا، لیکن نریندر مودی کے عروج سے پہلے ہی گجرات کا شمار انڈیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں ہوتا تھا۔‘

برینڈ مودی کے تخلیق کار
گجرات فسادات کے بعد مودی کو نہ صرف انڈیا میں بلکہ عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے انھیں ویزا جاری کرنے سے منع کر دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مخالفت کے باوجود نریندر مودی کیسے اتنی عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
مودی کی طرزِ حلومت پر لکھی گئی کتاب ’سینٹر سٹیج - ان سائیڈ مودی ماڈل آف گورننس‘ کے مصنف ادے مہورکر کہتے ہیں کہ ’نریندر دامودر مودی نے برانڈ مودی بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر انگلیوں سے وی (وکٹری) کا نشان بنانا، خود اعتمادی یا گھمنڈ، بھرپور چال، ان کا 'ٹریڈ مارک' آدھی آستین والا کرتہ ہو یا چست چوڑی دار پاجامہ، ہر ایک چیز کو سوچ سمجھ کر ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘
دنیا کو مودی کی جو تصویر کے سامنے پیش کی گئی ہے، وہ ایک نئے دور کے شخص کی ہے جو لیپ ٹاپ استعمال کرتا ہے، مالیاتی اخبار پڑھتا ہےاور جس کے ہاتھ میں ڈی ایس ایل آر کیمرا ہے۔
کبھی وہ اوبامہ کی سوانح عمری پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ٹریک سوٹ پہنے دکھائی دیتے اور کبھی سر پر کاؤ بوائے ہیٹ پہنے۔
نریندر مودی ہماچل پردیش کے سابق وزیر اعلی شانتا کمار کے ساتھمودی کا طرزِ زندگی
نریندر مودی انڈیا میں عام طور پر ’سوشلسٹ‘ سیاست دانوں کی پہچان سمجھی جانے والی کھادی کا کپڑا پہنتے ہیں۔ نہ ہی وہ آر ایس ایس کے لیڈران کی طرح خاکی پتلون پہن کر ہاتھ میں چھڑی لیے گھومتے نظر آتے ہیں۔
وہ مہنگے بنا فریم والے بلغاری کے چشمے پہنتے ہیں اور ان کی جیب میں اکثر مونٹ بلین کا قلم ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں لگژری موواڈو گھڑی ہوتی ہے۔
مودی کبھی ٹھنڈا پانی نہیں پیتے تاکہ ان کی آواز خراب نہ ہو۔ وہ ہمیشہ اپنی جیب میں کنگھی رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک ایک بھی ایسی تصویر سامنے نہیں آئی ہے جس میں ان کے بال بگڑے ہوئے ہوں۔
وہ روزانہ صبح 4:30 بجے اٹھ کر یوگا کرنے کے بعد اپنے آئی پیڈ پر اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
انھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں ایک دن بھی چھٹی نہیں کی ہے۔
معروف صحافی ونود کے ہوزے نے 'کاروان' میگزین میں اپنے مضمون ’دی ایمپورر ان کراؤنڈ: دی رائز آف نریندر مودی‘ میں لکھا: ’مودی کو ڈرامائی انداز پر عبور حاصل ہے۔ وہ بے باک اور پراعتماد ہیں۔ وہ اس قسم کے رہنما ہیں جو اپنے پیروکاروں کو قائل کر سکتے ہیں کہ جب تک وہ موجود ہیں تب تک سب کچھ قابو میں رہے گا۔‘
’وہ کاغذ کا استعمال کیے بغیر لوگوں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولتے ہیں۔ جیسے ہی وہ اپنی تقریر شروع کرتے ہیں لوگوں پر خاموشی چھا جاتی ہے۔ لوگ اپنے موبائل فون سے کھیلنا بند کردیتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے منھ کھلے رہ جاتے ہیں۔‘
’اکیلا ہوں، کس کے لیے بد دیانتی کروں؟‘
معروف سوشالوجسٹ پروفیسر آشیش نندی مودی کو ایک سخت شخصیت قرار دیتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’وہ فلمیں نہیں دیکھتے۔ شراب اور سگریٹ نہیں پیتے۔ زیادہ مسالے دار کھانا نہیں کھاتے۔ تنہا کھچڑی کھاتے ہیں۔ مخصوص تہواروں پر اپواس رکھتے ہیں جیسے نوراتری پر۔ جب وہ دن میں صرف لیموں والا پانی یا چائے کا ایک کپ پیتے ہیں۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ مودی تنہا رہتے ہیں اور اپنی والدہ یا بھائی بہن سے رابطہ نہیں کرتے۔ بعض اوقات انھیں وہیل چیئر پر موجود اپنی والدہ کی خدمت کرتے دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ایک اچھی شخصیت ظاہر کرتے ہیں۔
ایک بار انھوں نے ہمانچل پردیش میں انتخابی ریلی کے دوران کہا تھا کہ ’میرے اپنے خاندان سے قریبی تعلقات نہیں۔ میں اکیلا ہوں۔ میں کس کے لیے بددیانتی کروں گا؟ میرا ذہن اور جسم قوم کی خدمت کے لیے مختص ہیں۔‘