اندام نہانی کے تفصیلی معائنے کے دوران خواتین کی پریشانی اور الجھن کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟

نسوانی صحت کے مسائل اورتولیدی صحت کے لیے خواتین کا اندرونی معائنہ ایک عام بات ہے تاہم کئی خواتین اس مرحلے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں اور اس طریقہ کار کے دوران ذہن پر مزید بوجھ لیے واپس جاتی ہیں۔
Getty Images
Getty Images

’آپ یہاں کاؤچ پر لیٹ جائیں، گھٹنے موڑ لیں۔۔۔ ابھی ڈاکٹر صاحبہ آ کر چیک کریں گی۔‘

اگر آپ خاتون ہیں اور آپ کو اپنی تولیدی صحت کے کسی بھی مسئلے کے معائنے کے لیے گائناکولوجسٹ کے پاسجانے کا اتفاق ہوا ہو تو ایسی صورت حال کا سامنا آپ کو بھی ہوا ہو گا۔

ہو سکتا ہے کہ بہت سی خواتین اس مرحلے سے متعلق پہلے سے آگاہ ہوں لیکن کئی خواتین ایسی بھی ہیں جن کا پالا اس صورت حال سے پہلی بار پڑا ہو گا اور کوئی شبہ نہیں کہ اس صورتحال میں وہ ایک دھچکے یا ذہنی صدمے سے بھی گزری ہوں۔

نسوانی صحت کے مسائل اور تولیدی صحت کے لیے خواتین کا اندام نہانی کے ذریعے اندرونی معائنہ ایک معمول کی بات ہے تاہم کئی خواتین اس مرحلے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتیں اور اس طریقہ کار کے دوران ذہن پر مزید بوجھ لیے واپس جاتی ہیں۔

خواتین کے لیے معمول کا سمجھا جانے والا یہ معائنہ بعض خواتین کے لیے بے چینی یا تکلیف کا باعث کیوں بنتا ہے اس بارے میں ہم نے چند ایسی خواتین کے تجربات جاننے کی کوشش کی ہے جن کے لیے اچانک کیا جانے والا یہ معائنہ ذہنی تکلیف کا باعث بن چکا ہے۔

واضح رہے کہ گائنی سے متعلقہ مسائل میں زیادہ تر ایک آلے کو وجائنا (اندام نہانی) سے اندر ڈال کر چیک اپ کیا جاتا ہے جس کو سپیکیولم کہا جاتا ہے۔ اس دوران مریض کے ساتھ اعتماد بحال کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ پرسکون اور آرام دہ محسوس کر سکے۔

سپیکیولم
Getty Images
گائنی سے متعلقہ مسائل میں زیادہ تر ایک آلے کو وجائنا (اندام نہانی) سے اندر ڈال کر چیک اپ کیا جاتا ہے جس کو سپیکیولم کہا جاتا ہے

مہرین کی شادی کو اس وقت تقریباً ایک سال ہونے کو تھا اور وہ خواہش کے باوجود حاملہ نہیں ہو پا رہی تھیں۔ اس کے لیے ڈاکٹر نے ان کا تفصیلی طبی معائنہ کیا وہ اس معائنے کی وجہ سے پہنچنے والےذہنی صدمے کو اب بھی بھول نہیں پائیں۔

’مجھے کہا گیا کہ میری اووریز اور فیلوپن ٹیوبز (تولیدی نظام کا ایک حصہ) کا ایکسرے کیا جائے گا اور سپیکیولم کا استعمال بھی ہو گا۔ میں بس ریلیکس رہوں۔‘

وہ کہتی ہیں ’مجھے لٹایا گیا اور پھر میرے اندر ایک آلہ اور شاید کچھ باریک سے پائپس ڈالے گئے جس سے ایکسرے کیا گیا اور جب ان آلات کو باہرنکالا تو میری طبیعت خراب ہو گئی۔ اگر درست طریقے سے پہلے سے سمجھایا جاتا تو میں کم از کم دفتر سے چھٹی لے کر جاتی۔ مجھے بتایا نہیں گیا شاید اس لیے یہ معائنہ زیادہ تکلیف دہ تھا اور پھر کئی دن تک میں ڈر کے مارے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی۔‘

ایسا ہی ایک تجربہ شازیہ (فرضی نام) کا ہے جو گذشتہ دنوں اسلام آباد کے بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں شادی کے بعد اپنی ماہواری سے متعلق ایک مسئلے کے لیے ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے گئیں۔ ڈاکٹر نے انھیں یہ تو بتایا کہ ایک آلے سے ان کا اندرونی معائنہ کیا جائے گا مگر اس کی مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔

روایت پسند ماحول میں پلنے بڑھنے والی شازیہ کے چیک اپ کے دوران میڈیکل کی طالبات کو بھی ڈاکٹر نے معائنہ میں اپنے ساتھ کھڑا کیا جس پر شازیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک تو اس آلے سے پہلی بار معائنہ ہو رہا تھا تو اس کے اندر جانے کا خوف، پھر اس سے زیادہ اس بات کی بے آرامی کہ ڈاکٹر نے بنا اجازت پرائیویسی کو مجروح کیا اور جو معائنہ شاید دو منٹ میں ہونا تھا لیکچر کی وجہ سے پانچ منٹ سے زیادہ لگ گئے۔ اتنی دیر تک دھات کے آلات کو برداشت کرنا اور طالبات کے آگے برہنہ ہونے نے بھی ذہنی طور پر کئی دن پریشان کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’شاید اگر میری ڈاکٹر پہلے پوری طرح آگاہ کرتیں، اعتماد میں لیتی، معائنہ کا طریقہ کار سمجھاتیں تو اس کی تکلیف سے بڑھ کر ملنے والا صدمہ تو نہ ہوتا۔‘

’مریض کی پرائیویسی اور عزت نفس کا خیال رکھنا کورس کا حصہ ہے‘

خاتون مریض
BBC

یقیناً سب خواتین کے لیے اندرونی طبی معائنے اتنے ذہنی و جسمانی تکالیف کا سبب نہیں بنتے ہوں گے لیکن جو چند خواتین ان مراحل سے باآسانی نہیں گزر پاتیں ان کے تجربات کو سامنے رکھ کر ہم نے طبی ماہرین کے سامنے سوالات رکھے کہ ایسی صورت حال میں میڈیکل کی تعلیم اور پریکٹس میں قواعد کیا کہتے ہیں اور وہ کون سی بنیادی باتیں ہیں جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے خواتین معائنے کو اپنے لیے آسان بنا سکتی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر نابیہ طارق میڈیکل کے طلبہ کو پڑھاتی رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ میں اسسٹ کرنا سکھایا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ میڈیکل کے طلبہ کو اخلاقیات، اقدار اور مریض کی عزت نفس سے متعلق پڑھایا بھی جاتا ہے اور اس پر زور بھی دیا جاتا ہے اور مریض کی اسسمنٹ (جانچ) کے خصوصی نمبر ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق میڈیکل کے کورس میں یہ قواعد موجود ہیں کہ

  • مریض کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھا جائے
  • اس کی عزت نفس اور وقار مجروح نہ ہونے دیا جائے
  • مریض کو اعتماد اور ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ جنسی مسائل پر آپ کے ساتھ باآسانی بات کر سکے۔

پروفیسر نابیہ کے مطابق ’میڈیکل کی تعلیم کے دوران مریض کی پرائیویسی، اس کی رضا مندی اور اس کی عزت نفس کو مقدم رکھنا یہ سب کچھ پڑھایا جاتا ہے اور کورس کا حصہ ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اول تو جنسی صحت پر ہمارے ہاں بات ہی نہیں ہوتی یہ اتنا حسّاس موضوع ہے کہ خواتین کو جنسی تعلقات میں کوئی بھی مسئلہ درپیش آئے وہ اس پر زیادہ تر خاموش ہو جاتی ہیں اور بدقسمتی سے ہماری ڈاکٹرز کمیونٹی بھی اتنے حسّاس مسئلے کو ہینڈل کرنے میں اتنی زیادہ علم نہیں رکھتی۔‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم اگر پاکستان کی بات کی جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا انبار ہوتا ہے۔ 90 فیصد مریض اس طبقے سے ہوتے ہیں جس میں وہ اپنی خواہشات یا ترجیحات بتا بھی نہیں پاتے۔‘

اگر معائنے کے دوران مریض کسی طریقہ کار پر رضامند نہ ہو تو کیا کیا جاتا ہے اس پر ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل کے کورس میں ’پیشینٹ سینٹرڈ کیئر‘ ہوتی ہے، مریض کی ترجیحات پوچھی جاتی ہیں جو بھی علاج ہوتا ہے اس میں ان کی مرضی اور اجازت شامل ہوتی ہے اور ان کے معائنے سے پہلے کنسینٹ (اجازت) لازمی ہوتی ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر نابیہ نے واضح کیا کہ خواتین کا اندرونی معائنہ اسی صورت میں کیا جاتا ہے جب ان کی جنسی زندگی کا آغاز ہو چکا ہو۔

بہ بتاتی ہیں ’جن خواتین کی سیکشوئل لائف ابھی شروع نہیں ہوئی ان کا لوکل ایگزامینیشن ہم نہیں کر سکتے کیونکہ ہائمنیعنی پردہ بکارت کو ہم نہیں چھیڑ سکتے جب تک وہ شادی شدہ نہ ہوں یعنی ان کی سیکشوئیل لائف شروع نہ ہوئی ہو۔‘

اندرونی معائنہ کس صورت میں کیا جانا لازمی ہوتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نابیہ نے کہا کہ ’ریلیشن شپ کے دوران کے مسائل میں مرد پارٹنر کی طرف سے بھی ایشو ہو سکتا ہے، پپیلوک میں کہیں انفیکشن بھی ہو سکتا ہے تو ان میں معائنہ ضروری ہوتا ہے مگر اس میں مریضہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ آلہ استعمال ہو گا اور بغیر آلے کے اندر کا معائنہ نہیں ہو سکتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مریضہ کو سپیکیولم ماڈل دکھایا اور بتایا جاتا ہے۔ اکثرمریض اجازت دے دیتے ہیں لیکن ایسے مریض جو پہلے سے خوف یا فوبیا میں ہوں اور جنسی تعلق قائم کرنے میں ویسے ہی ان کو مسئلہ ہو تو وہ اس کی اجازت نہیں دیتے یا منع کر دیتے ہیں۔۔۔ جو ان کا حق ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہوتا ہے کہ اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے۔‘

خواتین کی صحت
Getty Images

’اندرونی معائنے سے پہلے خواتین کا ذہنی طور پر تیار ہونا ضروری ہے‘

تو ایسے میں معائنے کے لیے آنے والی خواتین کو چیک اپ سے قبل کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس سے وہ معائنے کے دوران پر سکون رہیں اور گھبرائیں نہیں۔

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر نابیہ نے کہا کہ اس کا ایسا فارمولہ نہیں جو سب پر لاگو ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کو معائنے سے پہلے اعتماد میں لینا لازم ہوتا ہے تاکہ وہ مطمئن رہیں۔

’بہت سی خواتین جو جنسی عمل سے گزر چکی ہوتی ہیں ان کو پتہ ہے کہ اگر اندر کوئی آلہ گیا بھی تو یہ ان کو نقصان نہیں پہنچائے گا کیونکہ وہ جنسی تعلقات میں ہونے کے باعث چیزوں کو سمجھتی ہیں۔‘

ڈاکٹر شازیہ فخر
BBC
ڈاکٹرشازیہ فخر کے مطابق خواتین ذہنی طور پر تیار ہوں گی معائنے کے دوران ریلیکس رہیں گی تو ان کے تعاون سے معائنہ آسان ہو گا

ڈاکٹرشازیہ فخر ایک ماہر گائناکولوجسٹ ہیں جو اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے شعبہ زچہ و بچہ سے عرصہ دراز سے وابستہ ہیں۔

وہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ اندرونی معائنے سے پہلے خواتین کا ذہنی طور پر تیار ہونا ضروری ہے تاکہ وہ پرسکون رہیں اور تناؤ سے بچیں۔

ڈاکٹر شازیہ کے مطابق ’معائنے کے دوران کچھ طرح کی جانچ سپیکیولم کے بغیر نہیں ہو سکتی اور کچھ معلومات اندام نہانی کے ہاتھ سے کیے گئے معائنے سے ممکن ہیں اور دونوں طریق کار کا اپنا اپنا ایک مقصد ہے۔

  • خواتین کو اگر لگتا ہے کہ گائنی سے متعلق ان کا مسئلہ ہے تو ذہنی طور پر تیار ہو کے آئیں کہ ڈاکٹر کو اندر سے معائنہ کرنا ہی ہو گا جس کے بعد ہی درست تشخیص ہو گی۔
  • کیونکہ الٹرا ساؤنڈ میں ہر چیز واضح نہیں ہو پاتی اس لیے اگر خواتین ذہنی طور پر تیار ہوں گی معائنے کے دوران پرسکون رہیں گی تو ان کے تعاون سے معائنہ آسان ہو گا۔
  • اس عمل کو آرام دہ بنانے میں ڈاکٹر جانچ کرتے وقت آلے کا سائز مریض کے مطابق استعمال کریں۔
  • انسٹرومنٹ لبریکیٹ ہو تاکہ یہ نمی کے باعث جسم میں داخل ہوتے وقت تکلیف دہ نہ ہو۔

ڈاکٹر شازیہ کے مطابق ’لبریکیشن کے لیے مختلف جیل آتے ہیں اس سے بھی بہتری ہوتی ہے لیکن بہرحال یہ تکلیف دہ تو ہے۔‘

سپیکیولم کی مدد سے وجائنال ٹنل کو تھوڑا کھول کر تولیدی اعضا کا معائنہ ہوتا ہے۔

’وجائنل چیک اپ نہیں ہو گا تو ہم اندرونی مسئلہ سمجھ نہیں سکتے‘

عنبرین ایک لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں اور ان کا تعلق بلوچستان سے ہے جہاں خواتین قدامت پسند اور روایت پسند معاشرے سے تعلق رکھنے کے باعث چیک اپ کروانے میں ہچکچاہٹ کا رجحان لیے ہوتی ہیں۔

عنبرین نے بلوچستان میں طبی مراکز میں آنے والی خواتین کے حوالے سے بتایا کہ ’پہلے تو کم عمر یا پہلی بار ماں بننے کے مرحلے کے دوران لڑکیاں چیک اپ کے لیے آتی ہیں تو ہم ان کو بتاتے ہیں کہ اندرونی چیک اپ کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

’کوئی بھی ڈاکٹر ہو جب تک وہ وجائنل چیک اپ نہیں کرے گی تب تک ہم اندرونی حالات کو سمجھ نہیں سکیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کچھ دن پہلے ایک بچی شادی کے بعد پہلا حمل ٹھہرنے پر میرے پاس معائنے کے لیے آئی تو بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ ہمیں ان کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اس میں پریشانی کی بات نہیں یہ سب نارمل چیک اپ ہوتا ہے۔ اس میں عام طور پر درد نہیں ہوتا لیکن گھبراہٹ کی وجہ سے بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تکلیف ہو رہی ہے۔‘

ٹرانس وجائنل الٹراساؤنڈ کیا ہوتا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے؟

ٹرانس وجائنل الٹرا ساؤنڈ
Getty Images

خواتین کی تولیدی صحت کے مسائل میں اندرونی معائنے کے لیے ٹرانس وجائنل الٹرا ساؤنڈ جسے ٹی وی ایس بھی کہا جاتا ہے بھی تجویز کیا جاتا ہے۔

اس عمل میں خواتین کا معائنہ کرنے کے لیے الٹرا ساؤنڈ کی پروب کو وجائنا کے راستے داخل کیا جاتا ہے اور اس عمل کے دوران جہاں ماہر اور تربیت یافتہ ڈاکٹرز احتیاط سے کام لیتی ہیں وہیں بعض خواتین اس مرحلے پر جھجھک اور ابہام کا شکار رہتی ہیں۔

اس الٹرا ساؤنڈ کے حوالے سے ہم نے ڈاکٹر مریم سے بات کی جو اسلام آباد ڈائگناسٹک سینٹرز میں الٹرا ساؤنڈ سپیشلسٹ ہیں۔

ٹی وی یو کے طریقہ کار کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ٹرانس وجائنل الٹراساؤنڈ شادی شدہ یا جنسی تعلق میں ایکٹو خواتین کا ہی کیا جاتا ہے اور غیر شادی شدہ خواتین کا نہیں کیا جاتا۔ یہ پیریڈز یعنی ماہواری کے درمیان بھی کیا جا سکتا ہے۔

اندام نہانی میں رطوبتوں کے باعث اس الٹرا ساؤنڈ کو کرتے وقت صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جس میں:

  • ٹی وی ایس الٹرا ساؤنڈ کی پروب کو استعمال سے پہلے الکوحل سواپ کے ذریعے اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے
  • ہر استعمال کے بعد الٹرا ساؤنڈ پروب کے کور کو سٹیریلائز(یعنی مشینی طریقے سے جراثیم سے پاک) کیا جاتا ہے تاکہ اگلے مریض پر استعمال کیا جا سکے
  • ہر بار مریض کے لیے اس کے استعمال سے پہلے نیا کنڈوم چڑھایا جاتا ہے جس کی پیکنگ مریض کے سامنے کھولی جاتی ہے اور استعمال کے بعد اس کو مریض کے سامنے ہی ضائع کیا جاتا ہے۔
  • ہر مریض کو مکمل پرائیویسی فراہم کی جاتی ہے اور وہ بند کمرے میں ہوتا ہے جس میں کنسلٹنٹ ریڈیالوجسٹ اور ڈاکٹر کے علاوہ کوئی اندر نہیں آتا۔
  • پروسیجر کرنے سے پہلے مریض کو پہلے سمجھایا جاتا ہے اس آلے کو وجائنل ایریا میں داخل کرنا ہے اور اس سے اندرونی معائنہ کرنا ہے اور اس کے لیے انھیں بدن کے نچلے حصے کا لباس اتارنا ہو گا،اگر مریضہ گاؤن لینا چاہیں تو وہ دیا جاتا ہے اور اگر وہ کوئی شیٹ یا چادر اوپر ڈالنے میں رضا مند ہوں تو وہ فراہم کر دی جاتی ہے

واضح رہے کہ ہر مریض کے لیے پروب کو جراثیم سے پاک کرنے کے بعد نئے کنڈوم کا استعمال اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ مریض کے لیے یہ انفیکشن کا باعث نہ بنے۔

ڈاکٹر مریم کے مطابق اس الٹرا ساؤنڈ کی تکنیک میں درد نہیں ہوتا البتہ بے آرامی کی کیفیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

’یہ بے آرامی کی کیفیت ایک طرح کا پریشر محسوس ہونا ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کا درد نہیں ہوتا نہ درد کش ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

اندام نہانی کے راستے الٹراساؤنڈ کیے جانے کے باعث چونکہ یہ انٹرنل ایگزامینیشن ہوتا ہے اس لیے اس میں پرائیویسی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US