اس سال مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع کے دوران موسم گرما کی شدت اور سہولیات کی بدانتظامی کے باعث پاکستانیوں سمیت درجنوں عازمین حج کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

حج مسلمانوں کے لیے سب سے اہم فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ حج ایک ایسا فریضہ ہے جو صاحب حیثیت مسلمان اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور ادا کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں مسلمان اس مذہبی فریضہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔
سعودی حکام کے مطابق رواں برس تقریباً 18 لاکھ افراد نے حج کا فریضہادا کیا جن میں سے 16 لاکھ بیرون ممالک سے سعودی عرب پہنچے تھے۔
تاہم اس سال مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع کے دوران موسم گرما کی شدت اور سہولیات کی بدانتظامی کے باعث پاکستانیوں سمیت درجنوں عازمین حج کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
عمان نے سرکاری سطح پر اب تک 41 عازمینِ حج کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ اس سے قبل اردن کی وزارت خارجہ نے کم از کم چھ اردنی شہریوں کیحج کے دوران ہیٹ سٹروک سے ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
بی بی سی کی عربی سروس کے مطابق وزارت خارجہ اور غیر ملکی امور کے اردنی قونصل خانے نے اردن کے 41 عازمین حج کو ان کے اہل خانہ کی خواہش پر مکہ میں تدفین کے اجازت نامے جاری کیے ہیں۔ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ افراد اردن کی جانب سے بھیجے گئے سرکاری حج وفد کا حصہ نہیں تھے۔
اردن کے سفارت خانے نے یہ بھی کہا ہے کہ اردن کے مزید 106 میں سے 84 عازمینِ حج اب تک لاپتہ ہیں۔
پاکستان حج مشن کے ڈائریکٹرعبدالوہاب سومرو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے 35 پاکستانی عازمینِ حج کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے 26 اموات حج سے قبل مکہ میں ہوئیں جبکہ مشائر کے دوران نو افراد وفات پا گئے۔ تاہم انھوں نے ان افراد کی ہلاکت کی وجوہات کے متعلق تفصیل نہیں بتائی۔
تیونس کی خبر رساں ایجنسی تیونس افریق پریس نے منگل کو بتایا کہ حج کے دوران تیونس کے 35 شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی حکام نے پیر کے روز مکہ مکرمہ میں رواں سال حج کے مناسک کے اختتام کے ساتھ درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ سعودی وزارت صحت نے ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں صبح 11 بجے سے شام چار بجے کے درمیان گرمی کی شدت کے متعلق خبردار کرتے ہوئے حجاج کو مشورہ دیا کہ ’چھتری لے کر چلیں اور گرمی سے بچنے کے لیے وافر پانی پیئیں۔‘
اتوار کو وزارت نے ایسے 2764 مریضوں کے متعلق بتایا جن کی حالت گرمی اور ہدایات پر عمل نہ کرنے سے خراب ہوئی۔ سعودی سرکاری ٹی وی کے مطابق پیر کے روز مکہ میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سیلسیئس (125.2 فارن ہائیٹ) تک بڑھ گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مرنے والوں کے لواحقین نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر اموات شدید گرمی کی وجہ سے ہوئیں۔ مزید یہ بھی کہا گیا ہے خاندان کے افراد اب بھی سعودی ہسپتالوں میں لاپتہ رشتہ داروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سینیگال کی پریس ایجنسی نے پیر کو بتایا کہ تین سینیگالی شہری حج کے دوران گرمی کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔ فرانس کے لی موندے اخبار نے گذشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ انڈونیشیا کے 136 شہری حج کے دوران فوت ہوئے، جن میں سے تین کی ہلاکت کی وجہ سن سٹروک بتائی گئی۔
ایرانی ہلال احمر سوسائٹی کے سربراہ برحسین کولیوند نے کہا ہے کہ اس سال مکہ اور مدینہ میں پانچ ایرانی عازمین کی مناسک حج کے دوران وفات ہو گئی ہے۔ تاہم انھوں نے اس کی وجہ نہیں بتائی۔
جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز کے 2019 کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سعودی عرب میں درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے حج کرنے والے عازمین کو ’انتہائی خطرے‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یاد رہے گذشتہ 30 سالوں کے دوران سعودی عرب میں حج کے دوران بھگدڑ مچنے، خیموں میں آگ لگنے اور دیگر حادثات میں سینکڑوں اموات ہوئیں ہیں۔

اردن کے ایک سرکاری اہلکار نے اعلان کیا ہے کہ ’ریگولیٹری فریم ورک سے باہر اردن سے حاجیوں کی روانگی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘
اردن کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزارت، اردن سے تعلق رکھنے والے ان عازمین حج کی تدفین کے طریقہ کار کی نگرانی کر رہی ہے جو مناسکِ حج کے دوران شدید گرمی کی وجہ سے سن سٹروک کا شکار ہو کر وفات پا گئے ہیں‘
وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو حاجی مل گئے ہیں، سعودی حکام انھیں ضروری طبی امداد فراہم کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ کی حالت بہتر جبکہ دیگر تشویشناک حالت میں ہیں۔
مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزارت 22 لاپتہ حجاج کی تلاش اور جلد از جلد ان کی واپسی کو یقینی بنانے کے حوالے سے بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزارت کے ایک اہلکار نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’اردن کے حاجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے اور حتمی تعداد کا اعلان جلد کیا جائے گا‘۔
اردنی وزارت اوقاف، اسلامی امور اور مقدس مقامات نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ سرکاری مشن میں شامل اردنی عازمین ’سب ٹھیک ہیں۔‘
اوقاف، اسلامی امور اور مقدس مقامات کے وزیر اور اردنی حج وفود کے سربراہ محمد الخلیلیح نے کہا کہ جو ہلاکتیں اور نقصانات ہوئے ان میں وہ لوگ شامل تھے جنھوں نے (سیاحتی ویزا) کے ذریعے حج کے مناسک ادا کرنے کی کوشش کی۔
جبکہ فرانسیسی خبر رساں ادارےاے ایف پی نے دو عرب سفارت کاروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ حج کے دوران شدید گرمی کے باعث کم از کم 550 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مصر سے ہے۔
اے ایف پینے دو عرب سفارت کاروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں گرمی کے باعث ہوئیں اور مرنے والوں میں سے 323 افراد کا تعلق مصر جبکہ 60 اردن کے شہری تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کا دعویٰ ہے کہ ان کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس حج کے موقع پر اب تک متعدد ممالک کے کل 577 عازمینِ حج وفات پا چکے ہیں۔
بی بی سی آزادانہ طور پر ان اموات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

حج کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تدفین کیسے کی جاتی ہے؟
سعودی عرب میں ہر سال عازمین حج شدید گرمی، ہجوم سے روندے جانے، بیمار ہونے یا سڑک پر حادثات سمیت مختلف وجوہات کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں مرنے والے کی شناخت، تدفین سمیت دیگر مراحل کی تمام ذمہ داری سعودی عرب کی حکومت اٹھاتی ہے۔
سعودی عرب کے حج قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حج کرتے ہوئے وفات پا جائے تو اس کی میت واپس اس کے ملک نہیں بھیجی جاتی بلکہ ان کی تدفین سعودی عرب میں کی جاتی ہے۔
ہر حاجی حج کی تیاری کے دوران حج درخواست فارم پر کرتا ہے جس میں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر وہ سعودی عرب کی زمین یا فضا میں مرتے ہیں تو انھیں وہیں دفن کیا جائے گا اور اس حوالے سے اگر خاندان میں کسی کی جانب سے بھی اعتراض کیا گیا تو اس کو قابل غور نہیں سمجھا جائے گا۔
مرنے والے کے اہل خانہ اس کی میت کو آبائی ملک نہیں لا سکتے اور نہ ہی سعودی حکومت سے کوئی سفارش کر سکتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی درخواست سعودی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔
سعودی عرب میں حج کے لیے جانے والے اپنی رہائش گاہ یا سڑک پر یا ہسپتال میں کسی حادثے میں ہلاک ہو جائیں تو اس کی خبر سب سے پہلے سعودی عرب میں متعلقہ ملک کے حج مشن کو دی جاتی ہے۔
کئی بار ہسپتال کے حکام یا عام لوگ براہ راست حج مشن کو یہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ اس شخص کی موت کہاں اور کیسے ہوئی ہے۔
کچھ بنیادی معلومات جیسے مرنے والے کا نام، عمر، ایجنسی، قومیت، شناختی کارڈ نمبر کلائی یا گردن پر موجود شناختی بینڈ سے حاصل کی جا سکتی ہیں جو حج کے لیے موجود تمام افراد کے لیے پہننا لازمی ہوتا ہے۔
ان بنیادی معلومات سے میت کی شناخت کی تصدیق کی جاتی ہے جبکہ اگر مرنے والے حاجی کے ساتھ کوئی رشتہ دار یا قریبی شخص ہو تو وہ بھی میت کی شناخت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حج مشن مرنے والے کے اہل خانہ اور سعودی عرب میں وزارت حج کو مطلع کرتے ہیں جبکہ یہ معلومات ویب سائٹ پر بھی اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں۔
اگر متوفی کے اہل خانہ سعودی عرب آ کر مرنے والے کا آخری دیدار کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں ہوتا تاہم اگر وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہوتے ہیں تو انھیں میت کے آخری دیدار اور جنازے میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔
میت کی شناخت کے بعد، ایک تصدیق شدہ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ یا موت کا سرٹیفکیٹ قریبی ہسپتال، حج آفس یا میڈیکل سنٹر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سعودی حکومت موت کا سرٹیفکیٹ متعلقہ ملک کے حج مشن کو دیتی ہے اور پھر اس ملک کے حج دفتر سے موت کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔
لاش کی شناخت اور موت کا سرٹیفکیٹ جاری ہونے کے بعد میت کو غسل دینے اور تدفین کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی حاجی مکہ، منیٰ اور مزدلفہ میں قیام کے دوران فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ مسجد الحرام یا کعبہ شریف میں ادا کی جاتی ہے۔
اور اگر مدینہ میں فوت ہو جائے تو مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی حاجی جدہ یا کسی اور جگہ فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ مقامی مسجد میں ادا کی جاتی ہے۔
’ہم یہاں اہم مشائر کے دنوں کے لیے آئے تھے مگر ہمارے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا گیا‘
بی بی سی نے پاکستان سے سرکاری اور پرائیوٹ حج کرنے والے افراد سے بات کرتے وہاں کے حالات و انتظامات کے متعلق جاننے کی کوشش کی ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ آمنہ (فرضی نام)اپنے شوہر کے ہمراہ سرکاری حج کرنے والے عازمین میں شامل ہیں اور حج کے انتظامات کے حوالے سے ’دلبرداشتہ‘ ہیں، وہ کہتی ہیں ’مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے۔‘
مکہ سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ہیں کہ ’اس میں شک نہیں کہ بلڈنگز میں رہائش، کھانا وغیرہ سب بہت اچھا ہے، ٹرانسپورٹ مل جاتی ہے، لیکن ہم یہاں اہم مشائر کے دنوں کے لیے آئے تھے مگر ان دنوں میں انھوں نے ہمارے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ہم نے جو پانچ دن منیٰ میں گزارے وہ اذیت ناک تھے ’خواتین اور مردوں کے بڑے بڑے ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ ہمارے مکتب میں چار سے پانچ مردوں اور اتنے ہی عورتوں کے خیمے تھے جن میں سے ایک ایک خیمے میں تقریباً 800، 800 افراد تھے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کے لیے عورتوں کے لیے صرف چھ سے آٹھ جبکہ مردوں کے لیے بھی اتنے ہی واش رومز تھے۔
خیموں کی اندورنی صورتحال کے متعلق آمنہ بتاتی ہیں کہ مکہ کی گرمی میں وہاں اے سی تھے ہی نہیں اور جو کولر لگائے گئے ان میں زیادہ اوقات کو پانی ہی نہیں ہوتا تھا ’ان خیموں میں اتنی گھٹن تھی، اتنی گھٹن کہ ہم پسینے سے شرابور رہتے اور برا حشر تھا۔‘
کھانے کے انتظامات کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ ’بس ٹھیک ہی تھا، بیگز میں لا کر دیتے تھے مگر ایسے لگ رہا تھا جیسے جانوروں کو لا کر پھینک دیتے ہیں بالکل ویسا احساس تھا۔‘
آمنہ کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ درجہ حرارت بہت زیادہ تھا تاہم انھوں نے سعودی حکومت کے انتظامات پر زیادہ خفگی کا اظہار کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانا ہے جس کا فاصلہ ایک کلومیٹر ہے تو سعودی آپ کو بھول بھلیاوں سے گھما گھما کر اس ایک کلومیٹر کے بجائے پانچ کلومیٹر گرمی میں چلا کر اس مقامتک لے کر آتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ سعودی اہلکار سنتے ہی نہیں، ان سے بات کرنا ایسے ہے جیسے دیوار سے سر ٹکرانا، انگریزی کے الفاظ میں انھیں رائٹ لیفٹ سے راستے تک نہیں بتانا آتا۔

’مزدلفہ ایک اندھیر کوٹھڑی کی طرح تھا جہاں نہ بجلی تھی نہ پانی‘
آمنہ نے حج کے دوران بدانتظامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مزدلفہ ایک اندھیر کوٹھری کی طرح تھا جہاں نہ بجلی تھی نہ پانیاور اتنی بدنظمی تھی کہ عربیوں کا جب دل چاہتا دروازے بند کر دیتے، جب دل چاہتا دروازے کھول دیتے
وہ بتاتی ہیں کہ وہاں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کو جو جگہ دی گئی تھی وہ دو دو پہاڑوں کے بیچ گہرائی میں جگہ تھی اور سوچیں رات کے وقت جب پہاڑ اپنی گیس اور ہیٹ انرجی چھوڑتے ہیں تو وہاں کیا حالات ہوں گے؟ وہ بتاتی ہیں کہ کئی افراد وہاں گھٹن کا شکار ہوئے۔
آمنہ بتاتی ہیں کہواش رومز کے حالات بدترین تھے اور اتنی گرمی میں لوگ واش رومز کے باہر سو رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں ان کے ساتھ آنے والے کئی افراد نے بتایا ہے کہ مزدلفہ سے واپسی پر انھوں نے لاشیں پڑی دیکھیں۔
ٹرینوں کے انتظامات کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ٹرینوں کے انتظامات تھے، مگر گرمی میں سٹیشنوں تک پہنچنے اور چڑھنے اترنے میں آپ اذیت سے گزرتے ہیں اور میرے جیسے 38 سال کے لوگوں اذیت میں تھے تو سوچیں ضیعف افراد کا کیا حال ہو گا۔
وہ بتاتی ہیں کہ مزدلفہ میں وہ خود گھٹن کا شکار ہوئیں اور ان کی حالت شدید خراب تھی ’پوری رات میں نے کیسے گزاری یہ میں یا میرا رب جانتا ہے، پوری رات میرے شوہر مجھے پنکھا جھلتے رہے، میں صرف یہی دعا کرتی رہی کہ اللہ میاں بس فجر کی نماز پڑھ کر میں یہاں سے نکل جاؤں‘۔
’سعودی اہلکار نہ آپ کااحساس کرتے ہیں نہ مدد‘

آمنہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ منیٰ سے واپس آئے ہیں انھیں واپسی میں کئی گھنٹے لگے ہیں اور ان تھکے ہارے حاجیوں کو رہائش سے قریبی مقام تک نہیں پہنچایا گیا ’ڈرائیوں کو راستے نہیں پتا تھے، انھوں نے گاڑیاں اوراے سی بند کر دیے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ایک کلومیٹر کے لیے ٹیکسیوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں منی سےمکہ تک ٹیکسی والے 2000 ریال مانگ رہے تھے۔
ابتدائی طبی امداد کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ گاڑیاں تو وہ لے لے کر گھومتے ہیں لیکن انھیں ڈرپ تک نہیں لگانا آتی۔
آمنہ بتاتی ہیں کہ ان کے گروپ میں ایک شخص کلیسٹروفوبک (رش والی جگہوں پر گھبراہٹ کا شکار ہونے والے افراد) تھے، جمرات میں رش دیکھ کر ان کی سانس اکھڑنے لگی تو ہم نے ان کے لیے مدد مانگی گر ایسے لگا جیسے سعودی اہلکار مریض کا مطلب تک نہیں سمجھتے، انھیں صرف محض دو لفظ آتے ہیں ’یلا حاجی، طریق‘۔۔
وہ بتاتی ہیں کہ انھیں آکسیجن کی ضرورت تھی اور جمرات میں تو ایمرجنسی ٹریٹمنٹ میسر تھی مگر واپسی پر ان کی حالت پھر خراب ہو گئی اور ہم سٹرک کنارے بیٹھے سعودیوں سے ایمبولینس مانگ رہے تھے مگر وہ بس یہی کہتے رہے ’بلاتے ہیں بلاتے ہیں‘ بلاخر ایک ایمبولینس آئی اور ڈاکٹر نے دو سیکنڈ بھی نہیں دیکھا اور بولا ’انھیں کچھ نہیں ہوا‘ اور چلا گیا۔
آمنہکہتی ہیں کہ 25 منٹ سے زیادہ وقت گزر گیا، اس موقع پر ہم نے انھیں دھمکایا کہ ہم ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بتائیں گے کہ تم حاجیوں کو کیسے ٹریٹ کر رہے ہو تو انھوں نے ویڈیوز بھی نہیں بنانے دیں اور پھر بہت دیر بعد انھیں ایک ایمبولینس ملی۔
وہ کہتی ہیں ’سعودی اہلکار نہ آپ کااحساس کرتے ہیں نہ مدد‘۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ عرفات میں پاکستانیوں کے خیمے سب سے آخر میں تھے، وہاں لکھا تھا ’یہ اختتامِ عرفات ہے‘ چلنا بہت پڑتا تھا تاہم ان کا کہنا ہے کہ عرفات میں انتظامات بہت اچھے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ میں نے 25 دنوں کا ساڑھے گیارہ لاکھ ادا کیا ہے اور یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے ’میرے جیسے حجاج این ٹی ایس پاس کرکے جانے والے والینٹیرز کا خرچہ بھی ادا کرتے ہیں مگر یہ بس بلڈنگ کی ریسپشن میں بیٹھے رہتے ہیں اور مشائر کے دنوں میں ایک بھی مدد کے لیے موجود نہیں تھا اور یہ بس یہی کہتے ہیں کہ سب کچھ سعودی حکومت کے ذمے ہے۔‘
وہکہتی ہیں کہ بے شک انتظامات سعودی حکومت کرتی ہے مگر پاکستانی وزارت کے اہلکار ان کے آگے ہمارے نمائندہ ہیں اور انتظامات کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ جتنی بدنظمی اور جس طرح سعودی اور پاکستانیوں کو پاکستانیوں سے برتاؤ کرتے دیکھا اس کے بعد میں کبھی کسی کو سرکاری طور پر حج کرنے کا مشورہ نہیں دوں گی ’زیادہ پیسے لگا کر وی آئی پی حج کر لو کیونکہ جب تک آپ آراماور ذہنی سکون میں نہیں ہو گے آپ عبادت کیسے کر سکتے ہیں۔‘

’سات کلومیٹر طویل راستے پر ڈالا گیا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ‘
حمیرا کنول (جو رواں برس حج کے سلسلے میں سعودی عرب میں ہیں) نے بتایا کہ منی سے جب ہمیں عرفات کے میدان میں لے جایا گیا اس روز ہمیں حاجیوں کی اموات کی خبریں ملنا شروع ہوئیں کہ گرمی سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ وہاں بنے کیمپوں میں بیٹھنے کی جگہ بہت محدود تھی، خطبہ حج سنانے کے لیے کوئی انتظامات نہیں تھے اور شدید گرمی میں لوگوں کو باہر بیٹھنا پڑا یا اندر جگہ پانے کے لیے لڑائی جھگڑا کرنا پڑا۔
مکہ سے بی بی سی بات کرتے ہوئے حمیرا بتاتی ہیں کہ مزدلفہ میں رات آسمان کے نیچے گزارنی ہوتی ہے لیکن وہاں پاکستان سمیت دیگر بہت سے ممالک کے عازمین کو ایک ٹرین کے پل کے نیچے گندگی سے بھری جگہ پر لے جایا گیا۔
مزدلفہ میں رات گزار کر اگلی صبح انھیں ٹرین کے ذریعے جمرات کی جانب لے جایا گیا لیکن وہاں سے واپسی کا سفر شدید تکلیف دہ بن گیا۔ حمیرا کہتی ہیں کہ ہمیں سات کلومیٹر طویل راستے پر ڈالا گیا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ بہت سے عازمین کی طبیعت اس مقام پر خراب ہوئی۔
’کیمپوں میں لوگوں کو جانوروں کی طرح رکھا گیا‘
حمیرا بتاتی ہیں کہ سعودی حکومت کی بہت سی الیکٹرک اور مینول گاڑیاں ہیں لیکن یہ بیمار اور گرمی سے بے ہوش ہونے والے عازمین کے لیے استعمال میں نہیں لائی جا رہی تھیں۔
’کیمپوں میں لوگوں کو ایسے ہی رکھا گیا تھا جیسے کسی فارم میں مرغیوں یا جانوروں کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا ہے، بستروں کے درمیان گزرنے کی جگہ تک نہیں تھی اور سینکڑوں افراد کے لیے گنتی کے چند واش روم ناکافی تھے‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ نہ آپ کسی کو شکایت کر سکتے ہیں نہ ہی مدد لے سکتے ہیں ہر ایک ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کا عادی ہے۔
حمیرا کے مطابق یہاں ایمبولینسز نہ ہونے کے برابر دکھائی دیں، لمبے لمبے روٹس پر کوئی مددگار نہ تھے۔ اگر کوئی نظر آتا ہے تو وہ پولیس اہلکار ہیں جو انگلش زبان کی یس نو بھی نہیں جانتے اور جن کا ایک ہی کام دکھائی دیتا تھا کہ لوگوں کو لمبے روٹس پر ڈال دیا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ شدید گرمی میں جب لو چل رہی ہوتی تھی تو عازمین کو کئی گھنٹوں پیدل صرف اس لیے چلایا جاتا تھا کیونکہ شارٹ راستے کی طرف پولیس نے رکاوٹیں کھڑے کر رکھی تھیں۔
حمیرا بتاتی ہیں کہ گذشتہ روز منی سے جمعرات تک جانے اور آنے میں انھیں26 کلومیٹر چلنا پڑا جبکہ وہ راستہ پندرہ منٹ کا تھا جسے پولیس نے بند کر دیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں پولیس اہلکار عورت ہو یا مرد اس پر ہاتھ اٹھانے سے بھی دریغ ہیں کرتے۔‘

’سب سے برے حالات پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے ہیں‘
خیموں کی صورتحال کے متعلق حمیرا بتاتی ہیں کہ خیموں میں اے سی تو تھے لیکن خواتین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے گھٹن تھی جس پر وہاں لڑائی دن بھر دیکھنے کو ملتی تھی۔
حمیرا کے مطابق ایک سعودی اہلکار نے انھیں بتایا کہ ’پاکستانی حکومت آپ کو غلط بتاتی ہے کہ ہم نے یہاں کیٹیگری رکھی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاونین یہاں بے بس دکھائی دیتے ہیں اور کہتے ہیں مکتب تو سعودیہ کے کنٹرول میں ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ ان سے خود بات کر لیں۔
تاہم سعودی کیمپ منیجرز کہتے ہیں یہی ہے جس کے اندر گزارہ کریں ہمارے پاس یہی سہولیات ہیں۔
حمیرا بتاتی ہیں کہ حج کے اس سفر میں انھیں مختلف ممالک کے کیمپوں کے درمیان سے گزرنے کا موقع ملا اور ’یہاں سب سے برے حالات پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے دکھائی دیتے ہیں ایسا لگتا ہے آپ تعفن زدہ ماحول میں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ آج حج کا آخری دن ہے اور میں یہ سوچ رہی ہوں جس مذہب میں طہارت اور صفائی پہلی لازمی شرط ہے اس کے اتنے بڑے فریضے کی ادائیگی میں صفائی کے معاملے کو اس قدر نظر انداز کیوں کیا گیا ہے؟‘
’سعودی کنٹرولر ہیں، سہولت کار نہیں‘
محمد اعلیٰ ایک پرائیوٹ گروپ کے حج آرگنائزر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ یہ میرا 18واں حج ہے اور میرے تجربے میں سعودی کنٹرولر ہیں، وہ سہولت کار نہیں۔ وہ کنٹرول کرتے ہیں مگر سہولت نہیں دیتے۔
محمد اعلیٰ کے مطابق اس گرمی میں ایک عام حاجی کو طوافِ زیارت کے علاوہ کم از کم 15 کلومیٹر فی دن چلنا پڑ سکتا ہے جس میں گرمی اور تھکن کے ساتھ اسے ہیٹ سٹروک کا سمانا کرنا پڑ سکتا ہے اور جگہ جگہ پانی بھی میسر نہیں ہوتا۔
وہ بتاتے ہیں کہ پہلے سالوں میں مکاتب تک جانے کے جو یوٹرن تھے وہ کھلے تھے مگر اب وہ سارے راستے اور یوٹرن بند کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام حاجی کو بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کا خیمہ زون ون میں اے کیٹگری میں ہے تب بھی اسے اپنے خیمے تک جانے کے لیے نارمل راستے سے گرمی میں 2.5 کلومیٹر پیدل چلنا ہو گا۔
محمد اعلیٰ کہتے ہیں کہ اگر اس راستے پر کسی کے ساتھ ایمرجنسی ہو جائے تو 30 منٹ تک کوئی آپ کے پاس نہیں آئے گا اور کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ زندگی بچائی جا سکے اور نہ ہی ایسے راستوں پر جگہ جگہ پانی کے پوائنٹس ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی میں جن میں کئی مصری شہریوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سعودیہ نے عمرے کی مد میں انھیں جو ویزے جاری کیے تھے ان کا دورانیہ بہت لمبا تھا لہذا انھوں نے رک کر غیر قانونی حج ادا کیا۔
محمد اعلیٰ کا کہنا ہے ’چونکہ ان مصری شہریوں نے غیر قانونی طریقے سے حج ادا کیا تو ان کے پاس خیموں وغیرہ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، لہذا انھیں گرمی میں کھلے آسمان تلے رہنا پڑا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ دوسری زبان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم اس کے حل کے لیے پاکستانی کیمپوں میں حکومت کے سکاؤٹس موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی گرمی میں حاجی غلط روٹ پر چلا جائے تو اس میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔

محمد اعلیٰ کے مطابق منی کے اے (الفا) اور بی (براؤو) کیمپوں میں 16-32 افراد موجود ہوتے ہیں جن کے لیے اے سی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔
اس کے بعد والی کیٹیگریز سی (چارلی) اور ڈی (ڈیلٹا) کے خیموں میں 40 افراد تک رہتے ہیں جن کے لیے ڈیزرٹ کولر موجود ہوتے ہیں جو چلتے تو ہیں مگر کبھی خراب بھی ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہاے اور بی کیمپوں میں 16-32 افراد موجود ہوتے ہیں جن کے لیے اے سی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 1998 یا 2000 میں بنے ان کیمپوں پر جو شیٹ لگی ہے وہ فائر پروف ہیں مگر ان پر براہِ راست دھوپ پڑتی ہے۔
محمد اعلیٰ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہر گروپ کے ساتھ لیڈر ہیں جو ہر وقت ساتھ رہتے ہیں۔ ہم خود بہت چوکس رہتے ہیں اور ہم نے پرائیوٹ بسیں رکھی ہیں اور عرفات کے کیمپوں میں ہمارے عازمین کے لیے 12،12 ٹن کے چلر چل رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے 240 عازمین بی کیٹگری میں تھے جن کے لیے چھ چلر چل رہے تھے اور اے کیٹگری میں 78 افراد کے لیے پانچ پانچ ٹن کی چھ کیبنٹس چل رہی تھیں لہذا ہمار پورا گروپ بہت آرام دہ حالت ہے اور ہمیں گرمی کے حوالے سے کسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔


حج کیا ہے؟
اسلام میں حج ایک ایسا فریضہ ہے جو صاحب حیثیت مسلمانوں کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور ادا کرنا ہوتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حج کا سفر مسلمانوں کو ان کے گناہوں کو مٹانے اور خدا کے سامنے پاکیزگی حاصل کرنے کا موقعدیتا ہے۔
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔
احرام باندھنے اور میقات کے بعد حج کے پہلے دن حجاج کرام مکہ مکرمہ، سعودی عرب میں عمرہ ادا کرتے ہیں۔
طواف کے بعد مسلمان صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پیدل چل کر سعی کرتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج منیٰ کی طرف بڑھتے ہیں اور رات عبادت میں گزارتے ہیں۔
اگلے دن حجاج میدان عرفات کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں وہ دوپہر گزارتے ہیں۔ اپنے قیام کے دوران، حجاج جبل الرحمہ کی پہاڑی پر چڑھتے ہیں - وہ جگہ جہاں پیغمبرِ اسلام نے آخری خطبہ دیا تھا۔
سورج غروب ہوتے ہی حجاج کرام مزدلفہ کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ تیسرے دن حجاج آخری طواف کرتے ہیں، اس کے بعد جمرات کی رمی اور خدا کے نام پر جانوروں کی قربانی دیتے ہیں۔
سعودی حکام کے مطابق 2023 کی طرح اس سال 18 لاکھ سے زیادہ عازمین نے حج ادا کیا جن میں سے 16 لاکھ بیرونی ممالک سے آئے۔