اس سال مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع کے دوران موسم گرما کی شدت اور سہولیات کی بدانتظامی کے باعث پاکستانیوں سمیت درجنوں عازمین حج کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

شدید گرم موسم کی وجہ سے رواں سال فریضۂ حج کے دوران سینکڑوں حجاج کی ہلاکت کے بعد اب خبر رساں اداروں نے متعلقہ ممالک کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک شدگان میں سے زیادہ تر ایسے افراد تھے جو ان ممالک کے باقاعدہ حج وفد کا حصہ نہیں تھے اور انھوں نے بظاہر غیرقانونی طریقے سے حج کیا اور اس دوران قانونی حجاج کو دستیاب سہولیات کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے۔
سعودی حکام کے مطابق رواں برس تقریباً 18 لاکھ افراد نے حج کا فریضہ ادا کیا جن میں سے 16 لاکھ بیرون ممالک سے سعودی عرب پہنچے تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مختلف ممالک کی وزارت خارجہ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کم از کم 562 افراد کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا ہے جبکہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، اس سال حج کے دوران کم از کم 922 عازمین کی موت ہوئی، جن میں سے زیادہ تر کی ہلاکت کی وجہ شدید گرمی تھی۔
سعودی حکام نے گرمی کی وجہ سے بیمار ہونے والے دو ہزار سے زائد حجاج کا علاج کرنے کی تصدیق تو کی ہے لیکن اتوار کے بعد سے اس تعداد کو اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اموات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم کی ہیں۔
پیر کو سعودی ٹیلی ویژن نے بتایا کہ عازمین حج نے انتہائی گرم حالات میں مناسک حج ادا کیے جس کی وجہ سے موجودہ حج سیزن کے دوران ان میں سے بعض کی موت واقع ہوئی، مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے اندر سایہ دار مقام پر درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
پاکستان حج مشن کے ڈائریکٹرعبدالوہاب سومرو کے مطابق کم از کم 35 پاکستانی عازمین حج بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے 26 اموات حج سے قبل مکہ میں ہوئیں جبکہ مشاعر کے دوران نو افراد وفات پا گئے تاہم انھوں نے ان افراد کی ہلاکت کی وجوہات کے متعلق تفصیل نہیں بتائی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سرکاری سکیم کے تحت جانے والی متعدد پاکستانی حجاج نے حج کے ایام میں بدانتظامی اور مشکلات کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ بی بی سی نے پاکستانی عازمین حج کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی اور بدانتظامی کی شکایات پر پاکستان حج مشن کا کہنا ہے کہ مشاعر میں پاکستانی عازمین کو بے یارومددگار چھوڑنے کے الزامات بے بنیاد ہیں

’ہلاک شدگان میں سے زیادہ حجاج رجسٹرڈ نہیں تھے‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک عرب سفارت کار کے حوالے سے بتایا کہ اس سال حج کے دوران ہلاک ہونے والوں میں سے سب سے بڑی تعداد مصری حجاج کی رہی۔ سفارت کار کے مطابق اب تک 658 مصری شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں سے 630 ایسے تھے جن کے پاس حج پرمٹ نہیں تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مصری طبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ہلاک ہونے والے اکثر مصری رجسٹرڈ نہیں تھے جس کے باعث انھیں شدید گرمی میں کھلے آسمان تلے سڑکوں پر رہنا پڑا۔
روئٹرز کے مطابق مرنے والوں کے لواحقین نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر کی اموات شدید گرمی کی وجہ سے ہی ہوئیں۔ منگل کو مصری وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ حکام حج کے موسم میں لاپتہ ہونے والے مصری عازمین کی تلاش کے سلسلے میں سعودی حکام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
وزارت خارجہ اور غیر ملکی امور کے اردنی قونصل خانے کا کہنا ہے کہ اس نے حج کے دوران وفات پانے والے 41 اردنی عازمین کو ان کے اہل خانہ کی خواہشات کی بنیاد پر مکہ میں تدفین کے اجازت نامے جاری کیے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ’سرکاری اردنی حج وفد کا حصہ نہیں تھے‘۔

اردن کے سفارت خانے نے یہ بھی کہا ہے کہ اردن کے متعدد عازمینِ حج اب تک لاپتہ ہیں۔
اردن کے ایک سرکاری اہلکار کا کہنا ہے کہ ’ریگولیٹری فریم ورک سے باہر اردن سے حاجیوں کی روانگی کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘ اردن میں اوقاف، اسلامی امور اور مقدس مقامات کے وزیر اور حج وفود کے سربراہ محمد الخلیلیح نے کہا کہ جو ہلاکتیں اور نقصانات ہوئے ان میں وہ لوگ شامل تھے جنھوں نے (سیاحتی ویزا) پر حج کے مناسک ادا کرنے کی کوشش کی۔
وزارت حج کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو حاجی مل گئے ہیں، سعودی حکام انھیں ضروری طبی امداد فراہم کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ کی حالت بہتر جبکہ دیگر تشویشناک حالت میں ہیں۔
مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزارت 22 لاپتہ حجاج کی تلاش اور جلد از جلد ان کی واپسی کو یقینی بنانے کے حوالے سے بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تیونس کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا، ’حج سیزن کے دوران مرنے والے تیونسی عازمین کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ہے، جن میں سے 30 سیاحتی یا عمرہ ویزا پر آئے تھے۔
وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ ریاض میں سفارتی مشن اور جدہ میں قونصلیٹ جنرل مجاز سعودی حکام اور حاجیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ان کی تدفین سے متعلق طریقہ کار کو مکمل کرنے کے لیے رابطہ کر رہے ہیں۔
ادھر فرانس کے لی موندے اخبار نے گذشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ انڈونیشیا کے 136 شہری حج کے دوران فوت ہوئے، جن میں سے تین کی ہلاکت کی وجہ سن سٹروک بتائی گئی۔

حج کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تدفین کیسے کی جاتی ہے؟
سعودی عرب میں ہر سال عازمین حج شدید گرمی، ہجوم سے روندے جانے، بیمار ہونے یا سڑک پر حادثات سمیت مختلف وجوہات کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں مرنے والے کی شناخت، تدفین سمیت دیگر مراحل کی تمام ذمہ داری سعودی عرب کی حکومت اٹھاتی ہے۔
سعودی عرب کے حج قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حج کرتے ہوئے وفات پا جائے تو اس کی میت واپس اس کے ملک نہیں بھیجی جاتی بلکہ ان کی تدفین سعودی عرب میں کی جاتی ہے۔
ہر حاجی حج کی تیاری کے دوران حج درخواست فارم پر کرتا ہے جس میں وہ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر وہ سعودی عرب کی زمین یا فضا میں مرتے ہیں تو انھیں وہیں دفن کیا جائے گا اور اس حوالے سے اگر خاندان میں کسی کی جانب سے بھی اعتراض کیا گیا تو اس کو قابل غور نہیں سمجھا جائے گا۔
مرنے والے کے اہل خانہ اس کی میت کو آبائی ملک نہیں لا سکتے اور نہ ہی سعودی حکومت سے کوئی سفارش کر سکتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی درخواست سعودی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔
سعودی عرب میں حج کے لیے جانے والے اپنی رہائش گاہ یا سڑک پر یا ہسپتال میں کسی حادثے میں ہلاک ہو جائیں تو اس کی خبر سب سے پہلے سعودی عرب میں متعلقہ ملک کے حج مشن کو دی جاتی ہے۔
کئی بار ہسپتال کے حکام یا عام لوگ براہ راست حج مشن کو یہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ اس شخص کی موت کہاں اور کیسے ہوئی ہے۔
کچھ بنیادی معلومات جیسے مرنے والے کا نام، عمر، ایجنسی، قومیت، شناختی کارڈ نمبر کلائی یا گردن پر موجود شناختی بینڈ سے حاصل کی جا سکتی ہیں جو حج کے لیے موجود تمام افراد کے لیے پہننا لازمی ہوتا ہے۔
ان بنیادی معلومات سے میت کی شناخت کی تصدیق کی جاتی ہے جبکہ اگر مرنے والے حاجی کے ساتھ کوئی رشتہ دار یا قریبی شخص ہو تو وہ بھی میت کی شناخت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حج مشن مرنے والے کے اہل خانہ اور سعودی عرب میں وزارت حج کو مطلع کرتے ہیں جبکہ یہ معلومات ویب سائٹ پر بھی اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں۔
اگر متوفی کے اہل خانہ سعودی عرب آ کر مرنے والے کا آخری دیدار کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں ہوتا تاہم اگر وہ مکہ مکرمہ میں موجود ہوتے ہیں تو انھیں میت کے آخری دیدار اور جنازے میں شرکت کا موقع مل جاتا ہے۔
میت کی شناخت کے بعد، ایک تصدیق شدہ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ یا موت کا سرٹیفکیٹ قریبی ہسپتال، حج آفس یا میڈیکل سنٹر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سعودی حکومت موت کا سرٹیفکیٹ متعلقہ ملک کے حج مشن کو دیتی ہے اور پھر اس ملک کے حج دفتر سے موت کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔
لاش کی شناخت اور موت کا سرٹیفکیٹ جاری ہونے کے بعد میت کو غسل دینے اور تدفین کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی حاجی مکہ، منیٰ اور مزدلفہ میں قیام کے دوران فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ مسجد الحرام یا کعبہ شریف میں ادا کی جاتی ہے۔
اور اگر مدینہ میں فوت ہو جائے تو مسجد نبوی میں نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی حاجی جدہ یا کسی اور جگہ فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ مقامی مسجد میں ادا کی جاتی ہے۔

’مزدلفہ ایک اندھیر کوٹھڑی کی طرح تھا جہاں نہ بجلی تھی نہ پانی‘
بی بی سی نے پاکستان سے سرکاری اور پرائیوٹ حج کرنے والے افراد سے بات کرتے وہاں کے حالات و انتظامات کے متعلق جاننے کی کوشش کی۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ آمنہ (فرضی نام) اپنے شوہر کے ہمراہ سرکاری حج کرنے والے عازمین میں شامل ہیں اور حج کے انتظامات کے حوالے سے ’دلبرداشتہ‘ ہیں۔
مکہ سے بی بی سی کی منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ حج کے ایام سے قبل انتظامات بہتر تھے لیکن مشاعر کے دنوں میں انھیں بہت مایوسی ہوئی۔‘
’اس میں شک نہیں کہ عمارتوں میں رہائش، کھانا وغیرہ سب بہت اچھا ہے، ٹرانسپورٹ مل جاتی ہے لیکن ہم یہاں اہم مشاعر کے دنوں کے لیے آئے تھے مگر ان دنوں میں انھوں نے ہمارے ساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا۔‘‘
ان کے بقول منیٰ میں گزرے گئے دن ’اذیت ناک‘ تھے جب ’ایک خیمے میں 800 افراد تھے‘ اور اس تعداد کے حساب سے بہت کم واش رومز تھے۔
خیموں کی اندورنی صورتحال کے متعلق آمنہ بتاتی ہیں کہ ’مکہ کی گرمی میں وہاں اے سی تھے ہی نہیں۔ جو کولر لگائے گئے ان میں زیادہ اوقات پانی ہی نہیں ہوتا تھا۔ ان خیموں میں اتنی گھٹن تھی کہ
ہم پسینے میں شرابور رہتے تھے‘۔
آمنہ کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے کیے گئے انتظامات ناکافی تھے اور شکایت کرنے پر اہلکار ’سنتے ہی نہیں۔ ان سے بات کرنا ایسے ہے جیسے دیوار سے سر ٹکرانا‘۔
انھوں نے حج کے دوران بدانتظامی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مزدلفہ ایک اندھیر کوٹھڑی کی طرح تھا جہاں نہ بجلی تھی نہ پانی۔ اتنی بدنظمی تھی کہ عربوں کا جب دل چاہتا دروازے بند کر دیتے، جب دل چاہتا دروازے کھول دیتے تھے‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ مزدلفہ میں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے حجاج کو جو جگہ دی گئی تھی وہ پہاڑوں کے درمیان گہرائی میں تھی اور وہاں لوگ گھٹن کا شکار ہوئے اور اتنی گرمی میں کچھ لوگ واش رومز کے باہر سونے پر بھی مجبور ہوئے۔
’وہ رات میں نے کیسے گزاری یہ میں یا میرا رب جانتا ہے۔ پوری رات میرے شوہر مجھے پنکھے سے ہوا دیتے رہے۔ میں صرف یہی دعا کرتی رہی کہ اللہ میاں بس فجر کی نماز پڑھ کر میں یہاں سے نکل جاؤں‘۔

’رضاکار یہی کہتے رہے کہ سب سعودی حکام کے ذمے ہے‘
آمنہ بتاتی ہیں کہ جو لوگ منیٰ سے واپس آئے انھیں واپسی میں کئی گھنٹے لگے ہیں اور ان تھکے ہارے حاجیوں کو رہائش سے قریبی مقام تک نہیں پہنچایا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایک کلومیٹر کے لیے ٹیکسیوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں اور ’منیٰ سے مکہ تک ٹیکسی والے 2000 ریال مانگ رہے تھے‘۔
آمنہ کا دعویٰ ہے کہ حجاج کے لیے ابتدائی طبی امداد کی سہولیات بظاہر تو موجود تھیں لیکن مدد کرنے والا عملہ تربیت یافتہ نہیں تھا۔
’گاڑیاں تو وہ لے لے کر گھومتے ہیں لیکن انھیں ڈرپ تک نہیں لگانا آتی۔‘
آمنہ بتاتی ہیں کہ ان کے گروپ میں ایک شخص کلیسٹروفوبیا کا شکار (رش والی جگہوں پر گھبراہٹ کا شکار ہونے والے افراد) تھا جس کی طبیعت خراب ہونے پر جب طبی امداد کی ضرورت پڑی تو دی جانے والی مدد ناکافی تھی۔
’جمرات میں رش دیکھ کر ان کی سانس اکھڑنے لگی اور انھیں آکسیجن کی ضرورت تھی۔ جمرات میں تو ایمرجنسی سہولت میسر تھی مگر واپسی پر ان کی حالت پھر خراب ہوئی تو مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔
’ہم سٹرک کنارے بیٹھے سعودیوں سے ایمبولینس مانگ رہے تھے مگر وہ بس یہی کہتے رہے، بلاتے ہیں بلاتے ہیں۔ بالاخر ایک ایمبولینس آئی اور ڈاکٹر نے دو سیکنڈ بھی نہیں دیکھا اور بولا انھیں کچھ نہیں ہوا اور چلا گیا۔‘
آمنہ کہتی ہیں کہ 25 منٹ سے زیادہ وقت گزر گیا تو ’ہم نے انھیں دھمکایا کہ ہم ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر بتائیں گے کہ تم حاجیوں سے کیسا سلوک کر رہے ہو تو انھوں نے ویڈیوز بھی نہیں بنانے دیں اور پھر بہت دیر بعد ایک ایمبولینس ملی`۔
وہ کہتی ہیں ’سعودی اہلکار آپ کا احساس کرتے ہیں نہ مدد‘۔آمنہ کا کہنا ہے کہ عرفات میں بھی پاکستانیوں کے خیمے سب سے آخر میں تھے۔ ’وہاں لکھا تھا یہ اختتامِ عرفات ہے اور چلنا بہت پڑتا تھا‘ تاہم ان کا کہنا ہے کہ عرفات میں انتظامات بہت اچھے تھے۔
حج کے ایام میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے والی آمنہ پاکستانی رضاکاروں سے بھی شاکی دکھائی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے جیسے حجاج رضاکاروں کا خرچہ بھی ادا کرتے ہیں مگر یہ بس بلڈنگ کی ریسپشن میں بیٹھے رہتے تھے اور مشاعر کے دنوں میں ایک بھی مدد کے لیے موجود نہیں تھا اور یہ بس یہی کہتے رہے کہ سب کچھ سعودی حکومت کے ذمے ہے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بےشک انتظامات سعودی حکومت کرتی ہے مگر پاکستانی وزارت کے اہلکار ان کے آگے ہمارے نمائندہ ہیں اور انتظامات کے حوالے سے جوابدہ ہیں‘۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے 25 دن کے لیے ساڑھے گیارہ لاکھ روپے کی رقم ادا کی تھی۔’یہ معمولی رقم نہیں مگر جتنی بدنظمی اور جس طرح پاکستانیوں سے برتاؤ دیکھا اس کے بعد میں کبھی کسی کو سرکاری طور پر حج کرنے کا مشورہ نہیں دوں گی۔ زیادہ پیسے لگا کر وی آئی پی حج کر لو کیونکہ جب تک آپ آرام اور ذہنی سکون میں نہیں ہو گے آپ عبادت کیسے کر سکتے ہیں۔

’سات کلومیٹر طویل راستے پرپانی تھا نہ کوئی سایہ‘
حج کے سلسلے میں سعودی عرب میں موجود حمیرا کنول بھی ایسے ہی مسائل کی نشاندہی کرتی دکھائی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب ہمیں منی سے عرفات کے میدان میں لے جایا گیا، اس روز ہمیں حاجیوں کی اموات کی خبریں ملنا شروع ہوئیں کہ گرمی سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ وہاں بنے کیمپوں میں بیٹھنے کی جگہ بہت محدود تھی۔ شدید گرمی میں لوگوں کو باہر بیٹھنا پڑا یا اندر جگہ لینے کے لیے لڑائی جھگڑا کرنا پڑا‘۔
حمیرا نے بتایا کہ ’کیمپوں میں لوگوں کو ایسے ہی رکھا گیا تھا جیسے کسی فارم میں مرغیوں یا جانوروں کو ساتھ ساتھ رکھا جاتا ہے، بستروں کے درمیان گزرنے کی جگہ تک نہیں تھی اور سینکڑوں افراد کے لیے گنتی کے چند واش روم تھے‘۔
خیموں کی صورتحال کے متعلق حمیرا نے بتایا کہ خیموں میں اے سی تو تھے لیکن خواتین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے گھٹن تھی جس پر وہاں لڑائی دن بھر دیکھنے کو ملتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں مدد کرنے والا تو دور کوئی شکایت سننے والا بھی نہیں تھا۔ ’نہ آپ کسی کو شکایت کر سکتے ہیں نہ ہی مدد لے سکتے ہیں ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈالنے کا عادی ہے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی معاونین یہاں بے بس دکھائی دیے اور کہتے رہے کہ ’مکتب تو سعودیہ کے کنٹرول میں ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے آپ ان سے خود بات کر لیں‘۔ اور سعودی کیمپ منیجرز کہتے تھے کہ ’بس یہی ہے۔ جس کے اندر گزارہ کریں ہمارے پاس یہی سہولیات ہیں‘۔
حمیرا کا کہنا تھا کہ مزدلفہ میں رات گزار کر اگلی صبح انھیں ٹرین کے ذریعے جمرات کی جانب لے جایا گیا لیکن وہاں سے واپسی کا سفر شدید تکلیف دہ بن گیا۔ ’ہمیں سات کلومیٹر طویل راستے پر بھیجا گیا جہاں نہ پانی تھا نہ کوئی سایہ اور بہت سے حاجیوں کی طبیعت اس مقام پر خراب ہوئی‘۔
حمیرا بتاتی ہیں کہ وہاں سعودی حکومت کی گاڑیاں موجود تو تھیں لیکن بیمار اور گرمی سے بے ہوش ہونے والے عازمین کی مدد کے لیے استعمال میں نہیں لائی جا رہی تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ حاجیوں کے منیٰ سے جمرات کے مختصر فاصلے کو طے کرنے کے لیے جو راستے بنائے گئے تھے وہ اس طرح سے ڈیزائن کیے گئے تھے کہ حجاج کو کئی میل اضافی سفر کرنا پڑا۔
’شدید گرمی میں جب لو چل رہی تھی تو عازمین کو کئی گھنٹوں پیدل چلایا گیا‘۔ حمیرا نے دعویٰ کیا منیٰ سے رمی کےلیے جمرات تک جانے اور آنے میں انھیں 26 کلومیٹر چلنا پڑا جبکہ وہ راستہ جس کی طوالت صرف پندرہ منٹ کی تھی وہ پولیس نے بند کیا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی کنٹرولر ہیں، سہولت کار نہیں
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محمد اعلیٰ ایک پرائیوٹ گروپ کے حج آرگنائزر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے تجربے میں سعودی کنٹرولر ہیں، سہولت کار نہیں۔ ’وہ کنٹرول کرتے ہیں مگر سہولت نہیں دیتے۔‘
محمد اعلیٰ کے مطابق اس سال حج کے دوران شدید گرمی میں ایک عام حاجی کو طوافِ زیارت کے علاوہ روزانہ کم از کم 15 کلومیٹرچلنا پڑ سکتا تھا جس میں گرمی اور تھکن کے ساتھ اسے ہیٹ سٹروک کا سامنا بھی ہو سکتا تھا اور جگہ جگہ پانی بھی میسر نہیں ہوتا۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ 18 مرتبہ حج کا قافلہ لا چکے ہیں اور ماضی میں مکاتب تک جانے کے جو یوٹرن تھے وہ کھلے تھے مگر اب وہ سارے راستے اور یوٹرن بند کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام حاجی کو بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اگر اس کا خیمہ زون ون میں اے کیٹگری میں ہے تب بھی اسے اپنے خیمے تک جانے کے لیےگرمی میں کم از کم ڈھائی کلومیٹر پیدل چلنا ہو گا۔
محمد اعلیٰ کہتے ہیں کہ اگر اس راستے پر کسی کے ساتھ ایمرجنسی ہو جائے تو 30 منٹ تک کوئی آپ کے پاس نہیں آئے گا اور کوئی ایسا انتظام نہیں ہے کہ زندگی بچائی جا سکے اور نہ ہی ایسے راستوں پر جگہ جگہ پانی کے پوائنٹس ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ زبان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے تاہم اس کے حل کے لیے پاکستانی کیمپوں میں حکومت کے سکاؤٹس موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی حاجی غلط راستے پر چلا جائے تو اس میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ایسی ویڈیوز دیکھی میں جن میں کئی مصری شہریوں کی لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں اور بظاہریہ وہی افراد ہیں جو عمرے کے طویل دورانیے کے ویزوں پر آئے اورانھوں نے رک کر غیر قانونی حج ادا کیا۔
محمد اعلیٰ کا کہنا ہے ’چونکہ ان مصری شہریوں نے غیر قانونی طریقے سے حج ادا کیا تو ان کے پاس خیموں وغیرہ جیسی کوئی سہولت نہیں تھی، لہذا انھیں گرمی میں کھلے آسمان تلے رہنا پڑا۔‘

’حج ایک سخت رسم ہے، تیار ہو کر آنا پڑتا ہے‘
پاکستان حج مشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوہاب سومرو نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’وزارت مذہبی امور پاکستان نے مجموعی طور پر بہترین انتظامات کیے ہیں۔ تاہم، مشاعر کو سعودی حکام اپنے طور پر ڈیل کرتے ہیں اور زائرین کے ممالک کی انتظامیہ کا مشاعر کے اندر بہت کم کردار ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عازمین کے لیے سعودی عرب میں قیام کا دورانیہ 12 سے 45 دن تک ہے جس میں سے پانچ دن کا قیام مشاعر (منیٰ، عرفات، مزدلفہ) میں ہوتا ہے۔
ان کے مطابق اگر آپ شکایات کا تجزیہ کریں تو ان میں سے زیادہ تر منیٰ کے علاقے کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منیٰ میں ایک مقررہ مختصر علاقے میں تقریباً 20 لاکھ عازمین کو جگہ دی جاتی ہے اور شاید ہی کوئی سال ایسا ہو جب وہاں سے شکایات سامنے نہ آئی ہوں۔ یہ سال بھی مختلف نہیں تھا لیکن اس سال درجہ حرارت 51.8 سیلسیئس تک پہنچنےکی وہ سے بھی حالات مختلف تھے۔
ڈائریکٹر حج مشن کا کہنا تھا کہ منیٰ میں ہر حاجی کے لیے ایک مربع میٹر جگہ مختص کی جاتی ہے جس میں سے اسے درحقیقت 0.95 مربع میٹر ملتی ہے کیونکہ کچھ رقبہ حجاج کو فراہم کی جانے والی خدمات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
عبدالوہاب سومرو کے مطابق حج ایک سخت رسم ہے اور لوگوں کو اس کے لیے تیار ہو کر آنا پڑتا ہے اور وہ لوگ جنھیں منیٰ کی صورتحال کا اندازہ نہیں ہوتا یا انھوں آنے سے پہلے کچھ تحقیق نہیں کی ہوتی منیٰ ان کے لیے ’اینٹی کلائمیکس‘ ثابت ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر حج مشن نے یہ بھی کہا ہے کہ مشاعر میں پاکستانی عازمین کو بے یارومددگار چھوڑنے کے الزامات بے بنیاد ہیں اور حجاج کے بارے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی بے بنیاد افواہوں کو نظرانداز کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق عبدالوہاب سومرو نے اس سلسلے میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر کچھ ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ مشاعر میں عازمین کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آ رہا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ ویڈیوز بے بنیاد ہیں کیونکہ ان کے مستند ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی ان کی تاریخ یا سال کا تعین ہو سکا ہے۔