مسعود پزشکیان: ایران کے اصلاح پسند صدارتی امیدوار ’امید کی کرن‘ یا ’ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی چال‘؟

ایک ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد قبل از وقت انتخابات۔ ایک ایسا صدارتی امیدوار جو ملک کے اندرونی اور بیرونی محاذ پر الگ حکمت عملی اپنانے کا وعدہ کر رہا ہے۔ ایران میں صدارتی انتخابات سے قبل کچھ غیر متوقع امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔

ایک ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد قبل از وقت انتخابات۔ ایک ایسا صدارتی امیدوار جو ملک کے اندرونی اور بیرونی محاذ پر الگ حکمت عملی اپنانے کا وعدہ کر رہا ہے۔ ایران میں صدارتی انتخابات سے قبل کچھ غیر متوقع امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات کے دوران سختیاں کی جاتی ہیں۔ ہر امیدوار علما کی ایک بااثر کمیٹی کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ہی انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ ملک کے عوام اس عمل سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں اور اکثر ووٹ دینے سے کتراتے ہیں۔

تاہم اس بار ایک ’وائلڈ کارڈ انٹری‘ ہوئی ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص الیکشن میں حصہ لے رہا ہے جو اصلاح پسند ہے اور امراض قلب کے سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ سابق وزیر صحت ہے۔

مسعود پزشکیان خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دے چکے ہیں۔

ایران میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ان قوانین کی کھل کر خلاف ورزی کرتی ہے۔ 69 سالہ مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ’اگر مخصوص کپڑے پہننا گناہ ہے تو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا یہ رویہ 100 گنا بڑا گناہ ہے۔ مذہب میں کسی کے لباس کی وجہ سے ان سے سختی کی اجازت نہیں۔‘

مسعود پزشکیان نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر کریں گے اور جوہری مذاکرات کو بحال کریں گے تاکہ ملک کی معیشت کو کمزور کرنے والی عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

مسعود کو عوامی سطح پر دو سابق اصلاح پسند صدور کی حمایت بھی حاصل ہے جن میں حسن روحانی اور محمد خاتمی شامل ہیں۔ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کے حامیوں میں شامل ہیں۔

الیکشن سے ایک روز قبل ان کی انتخابی ریلیوں میں بڑے مجمعے دیکھے گئے۔ جمعرات کو دو امیدوار الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ اسے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قدامت پسند ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔

قدامت پسند امیدوار محمد باقر کے حامیوں نے بدھ کو مرکزی تہران میں موٹر سائیکل ریلی نکالی
Getty Images
قدامت پسند امیدوار محمد باقر کے حامیوں نے بدھ کو مرکزی تہران میں موٹر سائیکل ریلی نکالی

حالیہ سروے میں مسعود پزشکیان کو اپنے حریف محمد باقر پر سبقت حاصل ہے۔ محمد باقر ایرانی پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر ہیں اور موجودہ پارلیمان کے سپیکر بھی ہیں۔

ان کے علاوہ سعید جلیلی بھی صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جنھوں نے جوہری مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ایران میں قدامت پسند طبقہ مغرب سے بات چیت کا مخالف ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ عالمی پابندیوں کے باوجود ایران کامیاب ہو سکتا ہے۔

ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ بہت اہم ہو گا۔ 2021 کے صدارتی الیکشن اور رواں سال مارچ کے پارلیمانی انتخابات میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ بہت کم تھا۔

ایرانی رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے عوام سے الیکشن میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کی بات کی ہے اور یقیناً حکومت کے حامی بھی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے۔

لیکن بڑی تعداد میں نوجوان اور مڈل کلاس ایرانی ریاست کی جانب سے منظم ہونے والے کسی سیاسی عمل سے بیزار ہو چکے ہیں اور 45 سالہ قدامت پسندانہ دور کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

تہران سے ایک بیس سالہ طالب علم نے مجھے ٹیکسٹ پیغام بھیجا کہ سڑکوں پر ایسے بہت سے بورڈ نصب ہیں جن میں عوام سے ایک بہتر مستقبل کے لیے ووٹ دینے کو کہا گیا ہے لیکن ’اب ہمیں اس پر یقین نہیں رہا۔ کوئی بھی ووٹ نہیں دینا چاہتا۔‘

2022 میں مہسا امینی نامی خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے نے ایران کی سرکاری قیادت اور عوام میں موجود خلیج کو ڈرامائی انداز تک بڑھا دیا۔

مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں نے حکومت سے متعلقہ خیالات کو مزید تقویت دی، خصوصاً نوجوان نسل میں۔

اس سے قبل ماضی میں ایران کے اصلاح پسندوں سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ گذشتہ چند سال کے دوران موجودہ نظام میں اصلاح کے خواہش مند افراد بھی زیادہ مقبولیت نہیں پا سکے۔

سابق صدر حسن روحانی کو حالیہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ ایسے میں ایران کے بہت سے لوگ ووٹ کے ذریعے کسی قسم کی تبدیلی کی امید کھو چکے ہیں۔

عورت، ایران
BBC
ایران میں چند لوگوں کا ماننا ہے کہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے مسعود پزشکیان کو صرف اس لیے اجازت دی تاکہ ٹرن آؤٹ بہتر ہو سکے

تہران کی ایک 70 سالہ رہائشی خاتون نے ماضی میں اصلاح پسند امیدواروں کو ووٹ دیا تھا لیکن اب انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جانتی ہوں کچھ بدلنے والا نہیں۔ معیشت کا بُرا حال ہے اور نوجوان بس ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔‘

آزاد (فرضی نام) مظاہروں کے دوران جیل کاٹ چکی ہیں۔ انھوں نے ایران کے صدارتی الیکشن کو ’انتخابی سرکس‘ کا نام دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈوریاں ہلانے والے فرد واحد کا نام خامنہ ای ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بیلٹ باکس سے کون سا نام نکلتا ہے۔‘

سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے انھوں نے مجھے بتایا کہ ’ملک میں احتجاج کے عروج پر لوگوں نے گلیوں میں بار بار یہ نعرہ لگایا کہ اصلاح پسند، قدامت پسند۔ یہ کھیل ختم ہوا۔‘

چند لوگوں کا ماننا ہے کہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ نے مسعود پزشکیان کو صرف اس لیے اجازت دی تاکہ ٹرن آؤٹ بہتر ہو سکے۔

آزاد کا کہنا ہے کہ ’یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے اور ہم دوبارہ ان کے جال میں نہیں پھنسنا چاہتے۔‘

تہران کے بہت سے لوگ، جن سے میری بات ہوئی، یہی خیالات رکھتے ہیں۔

قانون کے ایک طالب علم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ووٹ دینا فرض ہے لیکن میں نہیں دوں گا۔ کیوںکہ ماضی کے ہر الیکشن میں ظاہر ہوا کہ کسی بھی منتخب صدر نے لوگوں کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

اس کے باوجود کچھ آزاد خیال لوگ شاید اس امید میں پولنگ سٹیشن کا رُخ کریں کہ انھیں مسعود پزشکیان کی شکل میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔

54 سالہ مریم نے کہا کہ ’میں پزشکیان کو ووٹ دوں گی کیوںکہ میرا ماننا ہے کہ ایران میں تبدیلی اندر سے ہی اصلاح کے ذریعے آ سکتی ہے۔‘

ان کو مسعود کے بارے میں یہ بات پسند ہے کہ ان کا پس منظر سکیورٹی فورسز سے نہیں اور وہ ’شفاف کردار‘ رکھتے ہیں اور ان پر ’بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں۔‘

ان کو یہ امید بھی ہے کہ مسعود پزشکیان باہری دنیا سے تعلقات بہتر کریں گے اور ان کو یقین ہے کہ وہ فتح یاب ہوں گے۔

اگر ایسا ہوا تو یہ سوال باقی رہے گا کہ ان کے پاس کتنا اختیار ہو گا۔ چیٹم ہاؤس نامی تھنک ٹینک کی صنم وکیل کہتی ہیں کہ ’پزشکیان صرف نام کے اصلاح پسند ہیں۔‘

’وہ اسلامی جمہوریہ کے حامی ہیں اور رہبر اعلی کے وفادار بھی۔ ان کی شمولیت ممکنہ طور پر ووٹ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کرے گی لیکن کسی کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو لہجے کی تبدیلی کے علاوہ کچھ بدلے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US