ایران کے صدارتی انتخاب میں کسی امیدوار کو واضح برتری نہ مل سکی، الیکشن کا دوسرا راؤنڈ 5 جولائی کو ہو گا

ایران کے صدارتی انتخاب میں اب تک کے نتائج کے مطابق سخت گیر امیدوار سعید جلیلی اور ان کے اصلاح پسند حریف مسعود پزشکیان دونوں کو قریب 40 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اب تک 80 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی گنتی ہوچکی ہے جس دوران دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھا گیا ہے۔
ایران، الیکشن
Getty Images

ایران کے صدارتی انتخاب میں سخت گیر امیدوار سعید جلیلی اور ان کے اصلاح پسند حریف مسعود پزشکیان میں سے کسی کو بھی واضح برتری حاصل نہیں ہوئی، جس کے بعد یہ الیکشن دوسرے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔

ایران کے صدارتی انتخاب میں کسی بھی امیدوار کو کامیاب ہونے کے لیے 50 فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتے ہیں لیکن نتائج کے مطابق دونوں امیدواروں کو 40 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں تاہم مسعود پزشکیان کو معمولی سی برتری حاصل ہے۔

ایران کی وزرات داخلہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدارتی انتخاب کا دوسرا راؤنڈ اب 5 جولائی کو ہو گا۔

ایران کے سابق صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی کو ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس ہیلی کاپٹر میں ان کے ساتھ وزیرِ خارجہ سمیت سات مزید حکومتی شخصیات اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق سیستان و بلوچستان میں ووٹ کے ڈبے منتقل کرنے والی ایک گاڑی پر حملے کے سبب دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

ایران میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ 10 لاکھ ہے لیکن اس بار ووٹر ٹرن آؤٹ ماضی کے مقابلے میں کم رہنے کی پیشگوئی کی گئی۔

یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں ہونے والے پارلیمانی اور 2021 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا تھا۔

ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ نے صدارتی انتخاب میں لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ووٹ ڈالیں۔

سابق سرجن اور وزیرِ صحت مسعود پزشکیان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملکی معاملات کو مختلف طریقے سے چلائیں گے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ایرانی اخلاقی پولیس کی کارروائیاں ’غیر اخلاقی‘ ہیں۔

ایران میں سنہ 2022 میں مہسا امینی نامی 22 سالہ خاتون کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہونے والی موت کے بعد بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ان مظاہروں کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے دوران بھی سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے اور ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ایران، صدارتی انتخاب، سعید جلیلی
EPA
کہا جاتا ہے کہ سعید جلیلی ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے پسندیدہ صدارتی امیدوار ہیں

سخت گیر صدارتی امیدوار سعید جلیلی کون ہیں؟

سعید جلیلی ماضی میں سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے جنرل سیکریٹری رہ چکے ہیں اور اس کے علاوہ وہ جوہری مذاکرات میں ایرانی حکومت کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وہ ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے پسندیدہ صدارتی امیدوار ہیں۔ دنیا کے پانچ بڑے ممالک کے ساتھ ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران مسعود جلیلی نے متعدد بار معاملات کو پیچیدہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دوران ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھایا تھا۔

بہت سارے لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ ایک سخت گیر مذہبی رہنما ہیں جن کے پاس حکومت سنبھالنے کا کوئی تجربہ نہیں۔

سعید جلیلی مشہد میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ صرف 21 برس کے تھے جب وہ ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے دوران زخمی ہوئے تھے اور اپنی دائیں ٹانگ کھو بیٹھے تھے۔

ان کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے امام صادق یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی، اس یونیورسٹی میں حزب اللہ کے رہنماؤں کو بھی تعلیم دی گئی تھی۔

انھوں نے 2001 میں پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ سیاسی میدان میں ان کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سُنا گیا تھا جب محمود احمدی نژاد ایرانی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

اس وقت ان کا نام ان افراد میں شامل تھا جنھیں وزیرِ خارجہ بنانے کے لیے غور کیا جا رہا تھا۔ تاہم بعد میں انھیں یورپ اور امریکہ کے امور کو دیکھنے کے لیے ملک کا نائب وزیرِ خارجہ مقرر کیا گیا تھا۔

ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جوہری مذاکرات کے دوران مغربی دباؤ کے خلاف مزاحمت کی اور ان کے مطالبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا۔ دوسری جانب مغربی سفیروں کا کہنا ہے کہ سعید جلیلی مذاکرات کے دوران لمبی لمبی تقریریں کرتے تھے اور اکثر ان تقریروں کا مذاکرات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا تھا۔

جوہری مذاکرات کے دوران وہ اکثر غیر اعلانیہ دورے کرتے ہوئے، جہاز میں عام لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اور ملاقاتیں کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ سادگی پسند شخص ہیں۔

ماضی میں ایرانی صدر بننے کی کوششیں

ایران میں 2013 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھی سعید جلیلی نے حصہ لینے کی کوشش کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ’اسلامک ریولیشن سٹیبلیٹی فرنٹ‘ کے امیداوار بننے جا رہے تھے۔

یہ گروہ 2011 میں اس وقت بنا تھا جب قدامت پسند سیاستدان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ تاہم بعد میں اس گروہ نے سعید جلیلی کے بجائے کامران بغیری کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا تھا۔

بطور مذاکراتی ٹیم کے سربراہ گزارے ہوئے چھ برس سعید جلیلی کے لیے سب سے بڑی سیاسی کمزروی اس وقت ثابت ہوئے جن ان کے ایک مخالف نے ان پر الزام عائد کیا کہ جوہری مذاکرات کے دوران انھوں نے متعدد مواقع ضائع کیے۔

سنہ 2013 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں سعید جلیلی تیسرے نمبر پر تھے اور انھیں مجموعی طور پر صرف 11 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس صدارتی انتخاب میں حسن روحانی کامیاب ہوئے تھے۔

اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان

مسعود پزشکیان خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دے چکے ہیں۔

ایران میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ان قوانین کی کھل کر خلاف ورزی کرتی ہے۔ 69 سالہ مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ’اگر مخصوص کپڑے پہننا گناہ ہے تو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا یہ رویہ 100 گنا بڑا گناہ ہے۔ مذہب میں کسی کے لباس کی وجہ سے ان سے سختی کی اجازت نہیں۔‘

مسعود پزشکیان نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر کریں گے اور جوہری مذاکرات کو بحال کریں گے تاکہ ملک کی معیشت کو کمزور کرنے والی عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

مسعود کو عوامی سطح پر دو سابق اصلاح پسند صدور کی حمایت بھی حاصل ہے جن میں حسن روحانی اور محمد خاتمی شامل ہیں۔ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کے حامیوں میں شامل ہیں۔

الیکشن سے ایک روز قبل ان کی انتخابی ریلیوں میں بڑے مجمعے دیکھے گئے۔ جمعرات کو دو امیدوار الیکشن کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ اسے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قدامت پسند ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US